حبیب ولی محمد:ایک لاثانی گلوکار
پرسوز آواز کے مالک اور متعدد لافانی نغموں کے تخلیق کارمعروف گلوکار حبیب ولی محمد کو دنیا سے رخصت ہوئے 10 برس بیت گئے، آج ان کی برسی ہے۔ حبیب ولی محمد16 جنوری 1921ء کو رنگون (برما، اب میانمر) میں پیدا ہوئے۔ پلے بیک گائیک کے علاوہ وہ غزل گو بھی تھے اور بزنس مین بھی۔ ان کا تعلق ایک قدامت پرست میمن فیملی سے تھا جو بعد ازاں ممبئی شفٹ ہو گئی۔ بچپن میں حبیب ولی محمد کو قوالی سننے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن پھر انہوں نے نصابی تعلیم کو ترجیح دی۔ انہوں نے 1947ء میں امریکہ سے ایم بی اے کیا اور پھر ممبئی میں دس برس تک مقیم رہے۔اس کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ ان کے بھائی اشرف تابانی سندھ کے گورنر رہے۔ جوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ استاد لطافت حسین، استاد فیاض خان کے بیٹے تھے۔ کالج کے زمانے میں وہ موسیقی کی تقریبات میں بھرپور شرکت کرتے رہے۔1941ء میں حبیب ولی محمد کو موسیقی کے ایک مقابلے میں پہلا انعام دیا گیا۔ اس مقابلے میں 1200 گلو کاروں نے حصہ لیا تھا اور ان میں مکیش بھی شامل تھے۔ اس مقابلے میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی یہ غزل گائی تھی۔
''لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں‘‘
جب انہیں یہ غزل گانے پر پہلے انعام سے نوازا گیا تو ان کے اعتماد میں بے حد اضافہ ہوا۔ انہوں نے غزل گائیکی میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ امریکہ میں قیام کے دوران ان کا موسیقی سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ وہ دشتِ تنہائی کے مسافر بن گئے اور انہیں ممبئی میں منعقد ہونے والی موسیقی کی تقریبات شدت سے یاد آنے لگیں۔ انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد اپنی آواز میں غزلوں کا گرامو فون ریکارڈ تیار کیا اور میدان میں آ گئے۔ ریکارڈ کے ایک طرف بہادر شاہ ظفر اور دوسری طرف مرزا اسد اللہ غالب کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ لیکن یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ بھارتی عوام نے ان کی پذیرائی نہیں کی اور یہ ریکارڈ فروخت نہیں ہوئے۔ البتہ اس وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ مینا کماری ان کی غزل گائیکی سے بہت متاثر ہوئیں اور چونکہ وہ اس وقت ریڈیو سیلون سے وابستہ تھیں، اس لئے انہوں نے حبیب صاحب کی غزلیں کئی بار نشر کیں۔ اس سے ان کے ریکارڈز کی فروخت میں اضافہ ہوا اور وہ نامی گرامی شخصیت بن گئے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد حبیب ولی محمد کا خاندان پاکستان آ گیا اور یہاں ایک صنعتی گروپ قائم کیا۔ انہوں نے خاندان کے کاروبار کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کر دی اور جو وقت بچتا تھا وہ غزلوں اور فلمی گیتوں کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ حبیب صاحب نے موسیقی کو کبھی پیشہ نہیں بنایا۔ پھر بھی انہوں نے میوزک کمپنیوں کیلئے غزلیں گائیں۔
انہیں پاکستانی فلمی صنعت کی طرف سے پلے بیک گائیکی کیلئے پیشکش کی گئی۔حبیب ولی محمد کو1970ء میں اقبال شہزاد کی فلم ''بازی‘‘سے بطور پلے بیک سنگر پہچان ملی۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کہانی، گیت اور موسیقی لاجواب تھی۔ اس فلم کیلئے گائے گئے مالا اور مہدی حسن کے گیت بھی بڑے اچھے تھے لیکن گلوکار ولی محمد نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ روح میں اترنے والی اس آواز نے اہل موسیقی کو مسحور کر دیا۔
کچھ فلم''بازی‘‘ اداکارہ نشو کی پہلی فلم تھی۔ ان کے ساتھ محمد علی اور ندیم جیسے بڑے اداکاروں نے کام کیا تھا۔ نشو کی خوش بختی تھی کہ پہلی ہی فلم میں انہیں ایسے لیجنڈ اداکاروں کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ حبیب ولی محمد نے اس فلم کے دو نغمات گائے جنہوں نے مقبولیت کی نئی تاریخ رقم کی۔ سنگیت کار سہیل رعنا نے بھی اپنے فن کے وہ کمالات دکھائے کہ انہیں جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ موسیقار دیبوٹھیاجاریہ نے بھی اس فلم کی موسیقی دی۔ فلم کے گیت ''آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا‘‘ اور ''راتیں تھی چاندنی جوبن پہ تھی بہار‘‘ بے پناہ مقبول ہوئے۔ اس کے گیت راز الٰہ آبادی، وحید قریشی اور فیاض ہاشمی نے تحریر کئے تھے۔ گلوکاروں میں حبیب ولی محمد کے علاوہ مالا، آئرن پروین، احمد رشدی اور مہدی حسن بھی شامل تھے۔ مالا کا گایا ہوا گانا ''ٹھہر بھی جائو صنم‘‘ اورمہدی حسن کا گیت''دنیا کو اب کیا سمجھائیں‘‘ بہت پسند کئے گئے لیکن حبیب ولی محمد سب پر چھا گئے۔ کہنا یوں چاہئے کہ جس طرح فلم ''بازی‘‘ میں سکرپٹ کے مطابق محمد علی نے جان کی قربانی دے کر بازی جیتی تھی، اسی طرح حبیب ولی محمد نے بھی گلو کاری کی بازی اپنے نام کرلی تھی۔
1973ء میں فلم ''بادل اور بجلی‘‘ کیلئے ان کے گائے ہوئے گیت ''آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘نے لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے تین فلمی گیتوں نے لافانی شہرت حاصل کی، ان میں دو گیت فلم''بازی‘‘ کے تھے اور ایک فلم ''بادل اور بجلی‘‘ کا تھا۔1970ء میں حبیب ولی محمد کو سپیشل نگار ایوارڈ دیا گیا۔
80ء کی دہائی میں حبیب ولی محمد نے نثار بزمی کی موسیقی میں غزلیں ریکارڈ کرائیں جو آڈیو کیسٹوں کی شکل میں سامنے آئیں۔ اگرچہ ان کا اس دور میں بہت احترام کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے گائیکی کو مکمل طور پر پیشہ نہیں بنایا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ملی نغمات بھی گائے اور ان نغمات کو بھی بہت سراہا گیا۔
وہ امریکہ میں بھی غزل کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عمر پائی۔وہ 4ستمبر2014ء کو 93برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے ۔ انہوں نے موسیقی کے میدان میں اگرچہ اتنا کام نہیں کیا لیکن جتنا کیا وہ لاجواب تھا۔ اہلِ موسیقی انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔