حبیب ولی محمد:ایک لاثانی گلوکار

حبیب ولی محمد:ایک لاثانی گلوکار

اسپیشل فیچر

تحریر : خالد ابراہیم خان


پرسوز آواز کے مالک اور متعدد لافانی نغموں کے تخلیق کارمعروف گلوکار حبیب ولی محمد کو دنیا سے رخصت ہوئے 10 برس بیت گئے، آج ان کی برسی ہے۔ حبیب ولی محمد16 جنوری 1921ء کو رنگون (برما، اب میانمر) میں پیدا ہوئے۔ پلے بیک گائیک کے علاوہ وہ غزل گو بھی تھے اور بزنس مین بھی۔ ان کا تعلق ایک قدامت پرست میمن فیملی سے تھا جو بعد ازاں ممبئی شفٹ ہو گئی۔ بچپن میں حبیب ولی محمد کو قوالی سننے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن پھر انہوں نے نصابی تعلیم کو ترجیح دی۔ انہوں نے 1947ء میں امریکہ سے ایم بی اے کیا اور پھر ممبئی میں دس برس تک مقیم رہے۔اس کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ ان کے بھائی اشرف تابانی سندھ کے گورنر رہے۔ جوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ استاد لطافت حسین، استاد فیاض خان کے بیٹے تھے۔ کالج کے زمانے میں وہ موسیقی کی تقریبات میں بھرپور شرکت کرتے رہے۔1941ء میں حبیب ولی محمد کو موسیقی کے ایک مقابلے میں پہلا انعام دیا گیا۔ اس مقابلے میں 1200 گلو کاروں نے حصہ لیا تھا اور ان میں مکیش بھی شامل تھے۔ اس مقابلے میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی یہ غزل گائی تھی۔
''لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں‘‘
جب انہیں یہ غزل گانے پر پہلے انعام سے نوازا گیا تو ان کے اعتماد میں بے حد اضافہ ہوا۔ انہوں نے غزل گائیکی میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔ امریکہ میں قیام کے دوران ان کا موسیقی سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ وہ دشتِ تنہائی کے مسافر بن گئے اور انہیں ممبئی میں منعقد ہونے والی موسیقی کی تقریبات شدت سے یاد آنے لگیں۔ انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد اپنی آواز میں غزلوں کا گرامو فون ریکارڈ تیار کیا اور میدان میں آ گئے۔ ریکارڈ کے ایک طرف بہادر شاہ ظفر اور دوسری طرف مرزا اسد اللہ غالب کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ لیکن یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ بھارتی عوام نے ان کی پذیرائی نہیں کی اور یہ ریکارڈ فروخت نہیں ہوئے۔ البتہ اس وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ مینا کماری ان کی غزل گائیکی سے بہت متاثر ہوئیں اور چونکہ وہ اس وقت ریڈیو سیلون سے وابستہ تھیں، اس لئے انہوں نے حبیب صاحب کی غزلیں کئی بار نشر کیں۔ اس سے ان کے ریکارڈز کی فروخت میں اضافہ ہوا اور وہ نامی گرامی شخصیت بن گئے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد حبیب ولی محمد کا خاندان پاکستان آ گیا اور یہاں ایک صنعتی گروپ قائم کیا۔ انہوں نے خاندان کے کاروبار کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کر دی اور جو وقت بچتا تھا وہ غزلوں اور فلمی گیتوں کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ حبیب صاحب نے موسیقی کو کبھی پیشہ نہیں بنایا۔ پھر بھی انہوں نے میوزک کمپنیوں کیلئے غزلیں گائیں۔
انہیں پاکستانی فلمی صنعت کی طرف سے پلے بیک گائیکی کیلئے پیشکش کی گئی۔حبیب ولی محمد کو1970ء میں اقبال شہزاد کی فلم ''بازی‘‘سے بطور پلے بیک سنگر پہچان ملی۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کہانی، گیت اور موسیقی لاجواب تھی۔ اس فلم کیلئے گائے گئے مالا اور مہدی حسن کے گیت بھی بڑے اچھے تھے لیکن گلوکار ولی محمد نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ روح میں اترنے والی اس آواز نے اہل موسیقی کو مسحور کر دیا۔
کچھ فلم''بازی‘‘ اداکارہ نشو کی پہلی فلم تھی۔ ان کے ساتھ محمد علی اور ندیم جیسے بڑے اداکاروں نے کام کیا تھا۔ نشو کی خوش بختی تھی کہ پہلی ہی فلم میں انہیں ایسے لیجنڈ اداکاروں کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ حبیب ولی محمد نے اس فلم کے دو نغمات گائے جنہوں نے مقبولیت کی نئی تاریخ رقم کی۔ سنگیت کار سہیل رعنا نے بھی اپنے فن کے وہ کمالات دکھائے کہ انہیں جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ موسیقار دیبوٹھیاجاریہ نے بھی اس فلم کی موسیقی دی۔ فلم کے گیت ''آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا‘‘ اور ''راتیں تھی چاندنی جوبن پہ تھی بہار‘‘ بے پناہ مقبول ہوئے۔ اس کے گیت راز الٰہ آبادی، وحید قریشی اور فیاض ہاشمی نے تحریر کئے تھے۔ گلوکاروں میں حبیب ولی محمد کے علاوہ مالا، آئرن پروین، احمد رشدی اور مہدی حسن بھی شامل تھے۔ مالا کا گایا ہوا گانا ''ٹھہر بھی جائو صنم‘‘ اورمہدی حسن کا گیت''دنیا کو اب کیا سمجھائیں‘‘ بہت پسند کئے گئے لیکن حبیب ولی محمد سب پر چھا گئے۔ کہنا یوں چاہئے کہ جس طرح فلم ''بازی‘‘ میں سکرپٹ کے مطابق محمد علی نے جان کی قربانی دے کر بازی جیتی تھی، اسی طرح حبیب ولی محمد نے بھی گلو کاری کی بازی اپنے نام کرلی تھی۔
1973ء میں فلم ''بادل اور بجلی‘‘ کیلئے ان کے گائے ہوئے گیت ''آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘نے لازوال شہرت حاصل کی۔ ان کے تین فلمی گیتوں نے لافانی شہرت حاصل کی، ان میں دو گیت فلم''بازی‘‘ کے تھے اور ایک فلم ''بادل اور بجلی‘‘ کا تھا۔1970ء میں حبیب ولی محمد کو سپیشل نگار ایوارڈ دیا گیا۔
80ء کی دہائی میں حبیب ولی محمد نے نثار بزمی کی موسیقی میں غزلیں ریکارڈ کرائیں جو آڈیو کیسٹوں کی شکل میں سامنے آئیں۔ اگرچہ ان کا اس دور میں بہت احترام کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے گائیکی کو مکمل طور پر پیشہ نہیں بنایا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ملی نغمات بھی گائے اور ان نغمات کو بھی بہت سراہا گیا۔
وہ امریکہ میں بھی غزل کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عمر پائی۔وہ 4ستمبر2014ء کو 93برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے ۔ انہوں نے موسیقی کے میدان میں اگرچہ اتنا کام نہیں کیا لیکن جتنا کیا وہ لاجواب تھا۔ اہلِ موسیقی انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں طارق عزیز:ایک عہد ساز شخصیت

یادرفتگاں طارق عزیز:ایک عہد ساز شخصیت

کمپیئر،شاعر، سیاست دان، کالم نگار اور اداکارکی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاپاکستانی ٹیلی وژن کی تاریخ چند ایسی شخصیات سے مزین ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے فن سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی بلکہ قوم کے شعور کو بیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہی درخشاں ستاروں میں ایک نام طارق عزیز کا ہے۔ وہ نابغہ روزگار شخصیت، جنہوں نے اداکاری، کمپیئرنگ، شاعری اور سیاست میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔1960 ء کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے طارق عزیز، وہ پہلے کمپیئر تھے جن کی آواز نے پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کو نئی زندگی بخشی۔ ''یہ ہے پی ٹی وی لاہور‘‘ کی صدا آج بھی ان کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مقبول عام پروگرام ''نیلام گھر‘‘ نے نہ صرف تفریح بلکہ تعلیم و تہذیب کا ذریعہ بن کر گھر گھر مقبولیت حاصل کی۔طارق عزیز محض ایک تفریحی میزبان نہ تھے بلکہ وہ ایک باوقار، علم دوست اور شائستہ شخصیت تھے، جنہوں نے ہر پلیٹ فارم پر قومی تشخص کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ طارق عزیز کی شخصیت کا کینوس بہت وسیع تھا، کمپیئر،شاعر، سیاست دان، کالم نگار اور اداکارکی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اب بھلا کون ایسا شخص ہوگا جس میں یہ سارے اوصاف ہوں۔وہ ایک عہد سا ز شخصیت تھے۔فلم ہو یا ڈرامہ، اسٹیج شوہو یاادب، ہر میدان میں طارق عزیزنے اپنے نقش چھوڑے،مگر ان کی سب سے بڑی پہچان ان کی دبنگ آواز ، خوبصورت تلفظ اور ادب پر عبور تھا۔ جیسی بھرپور زندگی انہوں نے گزاری بہت کم لوگ ایسی زندگی گزارتے ہیں ۔ اس لحاظ سے وہ خوش قسمت بھی تھے۔ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ جب 26 نومبر 1964ء کوسرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تھا تو منی سکرین پر نظر آنے والی پہلی صورت طارق عزیز مرحوم ہی کی تھی۔اس سے قبل ان کی بطور اداکار پہلی فلم ''خاموش رہو‘‘ (1964ء) ریلیز ہو چکی تھی ،جس میں وہ فلم کے آخر میں ایک وکیل کے کردار میں نظر آئے تھے۔طارق عزیز کی ایک پہچان اسٹیج شو ''نیلام گھر‘‘بنا،جو پاکستان کا پہلا گیم شو تھااور چار دہائیوں تک پی ٹی وی پر آن ایئر رہا، گویاطارق عزیز اور نیلام گھر لازم و ملزوم تھے۔طارق عزیز 1936ء میں بھارتی شہر جالندھر میں میاں عبدالعزیز کے ہاں پیدا ہوئے۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ صوبہ پنجاب آ گئے، بچپن ساہیوال میں گزارا۔وہ پانچ بہن بھائی (دو بھائی تین بہنیں)تھے۔ 1960ء یا61 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور انائونسر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ 1962ء میں بی اے کرنے کے بعد نیوز ایجنسی پی پی آئی میں ملازم ہوگئے ، ایم اے جرنلزم کی ڈگری بھی حاصل کی۔1964 ء میں ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا تو وہ ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر بنے، 1975ء میں سرکاری ٹی وی سے پروگرام ''نیلام گھر‘‘ شروع کیا اور کم و بیش 40 سال تک پروگرام کی میزبانی کرتے رہے، جسے بعد میں ''طارق عزیز شو‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ 17جون 2020ء کو 84 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا ۔انہیں 1992ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیاگیا۔طارق عزیز نے ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، ان کے کریڈت پر 36فلمیں ہیں، جن میں 32 اردو اور چار پنجابی فلمیں شامل ہیں۔اس شعبہ میں خوبصورت آواز اور منفرد لہجے کے مالک طارق عزیز اپنی آواز کا بہت فائدہ اٹھاتے تھے۔ ایک تو آواز خوبصورت اور گھمبیر اور دوسرے مکالمے بولنے کا انداز بھی دلکش تو ایسا اداکار لوگوں کے ذہنوں پر نقوش کیوں نہیں چھوڑ ے گا۔ان کی پہلی فلم ''خاموش رہو‘‘ اور آخری فلم ''ماں بنی دلہن‘‘ تھی جو 1987ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ فلموں سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوگئے ۔ طارق عزیز کو سیاست میں بھی دلچسپی تھی اور وہ 70ء کے عشرہ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی طلسماتی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھے۔ 1970ء میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔وہ پرجوش مقرر تھے اور اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ 1972ء میں جب بھٹو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شملہ گئے تو طارق عزیز اس وفد میں شامل تھے۔ 1988 ء میں جب پیپلز پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئی تو نیلام گھر اس وقت بھی سرکاری ٹی وی سے دکھایا جارہا تھا۔ اگست 1990ء میں اسحاق خان نے پی پی پی کی حکومت ختم کر دی۔ 1997ء میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر ممبر قومی اسمبلی بنے ۔طارق عزیز ، شوبز کی دنیا کی واحد ہستی تھے جنھوں نے 1997ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں لاہور کے ایک حلقہ سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان پر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا الزام بھی تھا۔جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرلی لیکن ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔جس کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ طارق عزیز کی علم و ادب سے محبت طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع رہا۔وہ اردو اور پنجابی کے ایک بہترین شاعر بھی تھے اور انھیں بے شمار شعراء کرام کے اشعار زبانی یاد ہوتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انہیں ازبر نہ ہوتا۔وہ ایک کالم نگار بھی تھے ، ان کا ایک اخبار میں کالم باقاعدگی سے چھپتا تھا۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ''داستان‘‘ کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں!یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملاکسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو نہ ملاہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں کھولے دکان کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیںجزا سزا دے وہم نےکجھ وی کرن نہ دِتازندہ رہن دے سہم نےچج نال مرن نہ دِتاکون سی اوہ تے کون ساں میںسارے رنگ خیالاں دےاِک دوجے نوں دس نئیں سکدےقِصے عجب ملالاں دے    

 خطرناک گزرگاہیں

خطرناک گزرگاہیں

دنیا بھر کی خطرناک ترین گزرگاہیں اپنی تعمیر، محل وقوع، اونچائی، طوالت اور موسم کی وجہ سے عام سڑکوں کی نسبت مختلف ہیں۔ ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔گاؤلنگ ٹنل روڈیہ سرنگ محض 16 فٹ لمبی اور 13 فٹ چوڑی ہے جب کہ اِس میں کھلنے والی 30 کھڑکیاں سفر کرنے والے کی توجہ کھینچ لیتی ہیں۔اسے 13 دیہاتیوں نے مل کر 5 برس میں ہتھوڑیوں اور چھینیوں کی مدد سے تعمیر کیا تھا۔ طویل راہداریوں اور پہاڑوں والی اِس سرنگ کا شمار دنیا کے خطرناک راستوں میں ہوتا ہے۔ لاس چاکا کولاسیہ ارجنٹینا اور چلی کے مشترکہ بارڈر پر تعمیر شدہ 5 ہزار میل طویل خطرناک موڑ والی سڑک ہے جسے مقامی افراد '' گھونگے کا خول‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ انڈس ارجنٹینا سے شروع ہو کر چلی تک جانے پر یہ سڑک تقریباً سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہ سڑک 20 مقامات پر ہئیر پن کی مانند بل کھاتی ہے۔سیاچن تبت ہائی وے13 سو میل طویل سیاچن بائی پاس آپ کو چین کے صوبے سیاچن سے تبت پہنچا دے گا۔ دنیا کا اونچا ترین اور خطرناک ہائی وے ہے، اونچائی کی وجہ سے آکسیجن کی کمی اسے جان لیوا بناسکتی ہے۔ اطراف میں برفیلے اور پتھریلے پہاڑ ہیں، برفانی طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ معمول کی بات ہے۔ یہاں سال میں 10 مہینے تک بارش اور برفباری ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ آپ یہاں پھنس بھی سکتے ہیں، بعض اوقات سیاچن ہائی وے پر سفر کرنے والے ڈرائیورز کئی ہفتوں تک پھنسے رہتے ہیں۔اسکیپرز کینئیون روڈاب دنیا کے جس خطرناک راستے کے بارے میں ہم آپ کو اب بتا رہے ہیں وہ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرہ پر واقع ہے جسے اسکیپرز کینئیون روڈ کہا جاتا ہے۔ اِس سڑک کی تعمیر 140 برس قبل بجری کی گئی، یہ 16 میل طویل انتہائی تنگ سڑک ہے، ایک وقت میں ایک گاڑی ہی گزر سکتی ہے۔شمالی ینگاس روڈ12 فٹ چوڑی شمالی ینگاس روڈ کے ایک جانب پہاڑی کارڈیلرا نامی پہاڑ ی سلسلہ ہے جو سالانہ 300 حادثات کا سبب بنتا ہے۔ بولیویا میں واقع اس سڑک کی خاص بات ڈرائیور کا بائیں طرف ہونا ہے، جس کی وجہ سے آپ اونچائی سے نیچے کی جانب آتے ہوئے ارد گرد کے دلکش نظاروں سے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔جیمز ڈیلٹن ہائی وےیہ ہائی وے 414میل لمبی ہے ۔ 1974ء میں الاسکا پائپ لائن نظام کیلئے اسے سپلائی روٹ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس طویل ترین سڑک کی سب سے خطرناک بات الاسکا کے جنگلات کی وجہ سے سفری سہولت کا فقدان ہے۔ یہاں کسی قسم کا کوئی بھی ایندھن ، ریستوران یا ہوٹل میسر نہیں۔ یہاں درجہ حرارت بھی عموماً صفر رہتا ہے۔قراقرم ہائی وےقراقرم ہائی وے کو دنیا میں سب سے اونچائی پر تعمیر شدہ پختہ سڑک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ چین اور پاکستان کو خنجراب بائی پاس کے ذریعے دنیا سے جوڑتا ہے۔ قراقرم روڈ 8 سو کلومیٹر طویل ہے۔ اس وے پر سفر کرتے وقت اونچائی اور سرد موسم کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ہائی وے کے ایک جانب دیوار ہے جب کہ دوسری جانب کسی قسم کا کوئی حفاظتی بیرئیر نہیں اور ہزاروں فٹ گہری کھائیاں ہیں۔اٹلانٹک روڈیہ سڑک 5 میل طویل ہے، یہ ایک ایسی راہ گزر ہے جہاں لگتا ہے کہ زمین، سمندر سے ملتی ہے۔ یہاں سے متاثر کن مگر خوفناک منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ سڑک ایک رولر کوسٹر کی مانند نظر آتی ہے جس سے 8 مختلف پل نکلتے ہیں جو نارویجن جزیروں کو جوڑتے ہیں۔ سمندر کی لہریں مسلسل پل سے سے ٹکراتی ہوئی دوسری جانب نکل جاتی ہیںیہ منظر بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مجسمۂ آزادی امریکہ پہنچا17 جون 1885ء کو دنیا کے مشہور ترین یادگاروں میں سے ایک ''مجسمۂ آزادی‘‘ (Statue of Liberty) فرانس سے بحری جہاز''ایسر‘‘ (Isère) کے ذریعے امریکہ پہنچا۔ یہ دن نہ صرف امریکہ کی تاریخ میں بلکہ عالمی ثقافتی ورثے میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہ مجسمہ فرانس کی حکومت اور عوام کی جانب سے امریکہ کو تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔اس مجسمے کو فرانسیسی مجسمہ ساز فریڈرک اگست بارتھولدی(Frederic Auguste Bartholdi) نے ڈیزائن کیا۔اس کا ڈھانچہ مشہور انجینئر گستاو ایفل (ایفل ٹاور کے خالق) نے تیار کیا۔مکمل مجسمہ تانبے (copper) سے بنایا گیا ہے اور اس کی اونچائی بنیاد سے لے کر مشعل تک 151 فٹ ہے، جبکہ بیسمنٹ سمیت یہ تقریباً 305 فٹ بلند ہے۔ترکیہ میں 18سال بعد عربی میں اذان17جون ترکیہ کی اسلامی تاریخ میں ایک یادگار دن کے طورپر منایا جاتا ہے جب 18سال بعد وزیر اعظم عدنان میندریس کے دور حکومت میں 17 جون 1950ء میں ملک کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ترکیہ کو بہت سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ،جنگ کے بعد ترکیہ میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے جدید ترکیہ کی بنیاد رکھی جس میں بہت سے پالیسیاں ترتیب دی گئیں جن میں اذان کا مقامی زبان میں دیا جانا اور سکارف لینے پر پابندی بھی شامل تھی۔ چین نے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا17جون1967ء کو چین نے اپنے پہلے تھرمونیوکلیئر ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ یہ تجربہ چین کے تین مرحلوں والے تھرمونیوکلیئر ڈیوائس پروگرام کے تحت کیا گیا۔ یہ چین کا سب سے بڑا نیوکلیئر پروگرام تھا اور تھرمو نیوکلیئر دھماکے کا کوڈ نام ''ٹیسٹ6‘‘ رکھا گیا۔بعد ازاں تھرمو نیوکلیئر اور اس جیسے تمام تجربات کو ایک ہی پروگرام میں شامل کر دیا گیا جسے '' دوبم، ایک سیٹلائیٹ‘‘(Two Bomb one Setallite)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 

 پومپئی:عبرت،حیرت اور سیاحت کا مقام

پومپئی:عبرت،حیرت اور سیاحت کا مقام

اطالوی تاریخ کا ایسا باب جسے راکھ میں دفن ہو جانے کے باوجود دنیا نے فراموش نہ کیا پومپئی ایک قدیم رومن شہر، جسے اچانک آتش فشانی راکھ نے نگل لیا، آج بھی سیاحوں، ماہرین آثارِ قدیمہ اور تاریخ کے متوالوں کیلئے حیرت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ تقریباً دو ہزار سال گزر جانے کے باوجود یہ شہر آج بھی زندہ لگتا ہے۔ دیواروں پر لکھی تحریریں، برتن، فرنیچر اور یہاں تک کہ انسانوں کے ڈھانچے تک یہاں موجود ہیں۔79بعد از مسیح پومپئی میں زندگی اچانک موت میں تبدیل ہوگئی۔ آتش فشاں پہاڑ آگ اگلنے لگا،سیاہ دھواں چاروں جانب پھیل گیا۔ آبادی کی اکثریت خوف و ہراس کاشکار ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اپنے گھروں میں بند کرلیا۔ وہ یہ امید رکھتے تھے کہ مصیبت کی یہ گڑھی بالآخر ٹل جائے گی لیکن وہ بھی بچ نہ سکے اور زہریلے دھوئیں کے اثرات کی بدولت موت سے ہمکنار ہوگئے۔ ان کی لاشیں زیر زمین دب کر رہ گئیں اور1600برس تک زیر زمین دبی رہیں۔ تاریخی پس منظرپومپئی موجودہ اٹلی کے شہر نیپلز کے قریب ایک خوشحال رومن بستی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں قائم ہوئی۔ بازار، تھیٹر، حمام، عبادت گاہیں، فوارے اور شاہانہ مکانات سمیت یہاں رومن تہذیب کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ شہر کی آبادی اندازاً 10ہزار سے 20ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ زرخیز زمین، خوشگوار موسم اور بندرگاہ کی موجودگی نے اسے تجارتی مرکز بنا دیا تھا۔ یہاں کی سڑکیں پتھروں سے بنی تھیں اور گلیوں میں پانی کی نکاسی کا مربوط نظام بھی موجود تھا،جو اس وقت کے شہری منصوبہ بندی کی ترقی یافتہ حالت کو ظاہر کرتا ہے۔تباہی کا دنپومپئی کی تقدیر کا وہ لمحہ 79 بعد از مسیح کو آیا، جب قریب واقع آتش فشاں پہاڑ اچانک پھٹ پڑا۔ اس زوردار دھماکے کے نتیجے میں لاوے، آتش فشانی راکھ اور زہریلی گیسوں کے طوفان نے صرف چند گھنٹوں میں شہر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پہلے پہل راکھ کی ہلکی بارش ہوئی، جسے لوگ معمول کا مظاہرہ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے مگر چند ہی گھنٹوں بعد آسمان سیاہ ہو گیا اور زہریلا ملبہ اتنی شدت سے برسنے لگا کہ پوری بستیاں دب گئیں۔ تقریباً 16 سے 20 فٹ اونچی راکھ اور پتھروں نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا۔ انسان، جانور، عمارتیں سب کچھ اسی ملبے میں قید ہو کر رہ گیا۔وقت کی قید میں زندگیسب سے حیران کن بات یہ ہے کہ پومپئی کی تباہی ایک بدترین سانحہ ہونے کے باوجود انسانوں کو قدیم رومن زندگی کی جھلک دکھانے والا سب سے محفوظ مقام بھی ہے۔ جب صدیوں بعد اس شہر کی کھدائی شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ راکھ نے ہر چیز کو اس حال میں ''منجمد‘‘ کر دیا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ مٹی میں دبی لاشیں خالی خول بن چکی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان خالی جگہوں میں پلاسٹر بھر کر انسانی شکلیں محفوظ کر لیں۔ کوئی نماز جیسی حالت میں، کوئی دوڑنے کی کوشش میں، کوئی بچہ ماں سے لپٹا ہوا، یہ سب مناظر آج بھی دل دہلا دیتے ہیں۔دریافت اور کھدائیپہلی بار پومپئی کو 1599ء میں پانی کی نہر کھودتے وقت دریافت کیا گیا۔ اصل کھدائی 1748ء میں شروع ہوئی۔ تب سے لے کر آج تک یہ جگہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے دلچسپی کا محور بنی ہوئی ہے۔ جوں ہی آتش فشاں پہاڑ کی راکھ کو کھود کر عمارات کوباہر نکالا گیا ماہر آثار قدیمہ کو وہ دکانیں دیکھنے کو ملیں جن میں ڈبل روٹی، مچھلی، گوشت، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش کی باقیات موجود تھیں۔ اس کے علاوہ عوامی غسل خانے، کھیلوں کے مقامات اور تھیٹر وغیرہ بھی منظر عام پرآئے۔ کھدائی کی بدولت برآمد ہونے والی عمارات سے اس قصبے کے مکینوں کی شاندار طرز زندگی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ اس میں عوامی عمارات، عبادت گاہیں تھیں اور بادشاہوں کے مجسمے بھی نصب تھے۔ قصبے کی سیاسی زندگی کے آثار بھی ملے تھے۔ دیواروں پرسیاسی نعرے درج تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی دیواروں پر آج بھی ''گرافٹی‘‘ (Graffiti) یعنی ہاتھ سے لکھی گئی تحریریں موجود ہیں، جو اس وقت کے سماجی و معاشی حالات کا پتہ دیتی ہیں۔ثقافتی ورثہپومپئی کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ثقافتی ورثہ (UNESCO) نے 1997ء میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ ہر سال تقریباً 25 لاکھ سیاح اس مقام پر آتے ہیں تاکہ قدیم رومن تہذیب کو قریب سے دیکھ سکیں۔ یہ مقام نہ صرف تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے قیمتی ہے بلکہ عام انسانوں کیلئے بھی وقت کی بے ثباتی کا درس دیتا ہے۔ پومپئی کی کھدائی اب بھی جاری ہے اور ہر سال نئے مکانات، اشیاء اور انسانی ڈھانچے دریافت ہو رہے ہیں۔ اب تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے شہر کی ''ورچوئل بحالی‘‘ کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، تاکہ لوگ پومپئی کی زندگی کو 3ڈی انداز میں دیکھ سکیں۔ 

ترکماستان کی معروف مساجد

ترکماستان کی معروف مساجد

ترکمانستان وسطی ایشیاء کا ایک صحرائی ملک ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان، شمال مشرق میں ازبکستان، جنوب میں افغانستان اور ایران اور مغرب میں بحیرۂ کیپین واقع ہے۔ ترکمانستان کا صحرا قرہ قم(سیاہ ریگستان) کہلاتا ہے اور وہ ملک کے 90 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ افغانستان سے آنے والا دریائے مرغاب تاریخی شہر مرو کے شمال مغرب میں جا کر قرہ قم میں گم ہو جاتا ہے۔ ترکمانستان کا رقبہ 4لاکھ 88ہزار ایک سو مربع کلو میٹر اور آبادی 50لاکھ کے قریب ہے۔ دارالحکومت عشق آباد ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ہے۔قدیم زمانے میں ترکمانستان عظیم ترین خراسان کا حصہ تھا۔22ھ/23ھ میں سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اخف بن قیس رضی اللہ نے مروشاہجہان( ماری) فتح کیا۔کچھ عرصہ بعد یزدگرد نے لوٹ کر مروشاہجہان کا محاصرہ کر لیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں خراسان اور مرو کے جہاد میں شرکت اور وہیں آباد ہونے کی تاکید کی تھی۔ 1881ء میں روسیوں نے ترکمانستان فتح کر لیا۔1884ء میں وہ مرو پر بھی قابض ہو گئے۔1925ء میں سوویت اشتراکی جمہوریہ ترکمانستان قائم ہوئی۔1991ء میں سوویت روس کے ٹوٹنے پر ترکمانستان آزاد ہو گیا۔ترکمانستان میں 85فیصد ترکمان،5فیصد ازبک اور 4فیصد روسی آباد ہیں۔ روسی رسم الخط میں ترکمانی سرکاری زبان ہے۔ 89فیصد آبادی مسلمان اور8 فیصد ایسٹرن آرتھوڈکس عیسائی ہیں۔ ترکمانستان کی بڑی فصلیں کپاس اور گندم ہیں۔ معدنی وسائل میں تیل ، گیس گندھک اور نمک شامل ہیں۔شرح خواندگی 99.6فیصد ہے۔ تیل و گیس کے باعث ترکمانستان بہت اچھی اقتصادی پوزیشن رکھتا ہے۔یہاں کی دو معروف مساجد حاجی مراد اورروحی ہیں۔حاجی مراد مسجد( عشق آباد)یہ مسجد عشق آباد شہر سے باہر مغرب کی جانب ایک پرانے قلعے کی باقیات پرتعمیر کی گئی ہے۔ یہ قلعہ اس جگہ واقع تھا جہاں 1881ء میں روس کی فوجوں نے ترکمانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے لڑائی لڑی تھی۔ یہ مسجد ان غازیوں کے سالار حاجی مراد کے نام سے موسوم ہے جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 1992ء میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ 1995ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد ترکمانستان کی روس سے آزادی کے بعد پہلا بڑا پراجیکٹ تھا۔ ایک فرنچ کنسٹرکشن کمپنی نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ اس کے چار نصف بیضوی گنبد ہیں جبکہ درمیان والا گنبد بڑا ہے۔ ان پانچوں گنبدوں کی اوپری سطح پر سبز رنگ کیا ہوا ہے۔ چاروں کونوں پر چار مینار ہیں۔ ہر مینار کی بلندی 63 میٹر ہے۔ اس مسجد میں ایک وقت میں 8ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مرکزی ہال میں بڑے گنبد کے نیچے دوٹن وزنی فانونس لٹک رہا ہے۔ یہ فانونس فرانس سے منگوایا گیا تھا۔ اس فانونس میں لگے ہوئے 260 بلب مسجد کو جگمگا دیتے ہیں۔ مسجد کے مشرق میں ایک خوبصورت کمپائونڈ بنایا گیا ہے جس کے درمیان ستارہ نما خوبصورت تالاب بنا ہوا ہے۔ ہال میں ترکمانستان ہی کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت قالین بچھائے گئے ہیں۔روحی مسجد( عشق آباد)یہ مسجد پورے وسطی ایشیا میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسے ترکمانستان کے صدر سفر مراد نیاز نے 2001ء میں تعمیر کروایا۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں ایک زلزلے میں صدر نیاز کی والدہ اور دو بھائی شہید ہو گئے تھے۔ یہ زلزلہ1942ء میں آیا تھا۔ اس مسجد میں بیس ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے ہال میں ترکمانستان ہی کا دستی بنا ہوا قالین بچھایا گیا ہے۔ یاد رہے ترکمانستان کے دستی قالین ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہ مسجد دو منزلہ ہے۔ دوسری منزل پر خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جبکہ مرکزی ہال کے اوپر سنہری گنبد ہے۔ ہر مینار کی بلندی 300 فٹ اور گنبد کی بلندی 165 فٹ ہے۔ گنبد کے اوپر والے حصے پر سونے کا کام کیا ہوا ہے۔ مسجد کے چاروں طرف خوبصورت باغیچے بنے ہوئے ہیں جن کے اندر نہایت دیدہ زیب فواروں کی پھوار محو رقص رہتی ہے۔ مسجد کے ہال کی دیواروں پر صدر نیاز کی لکھی ہوئی کتاب '' روح نامہ‘‘ سے اقتباسات رقم کئے گئے ہیں جو کہ ترکمان زبان میں ہیں۔

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم مسلمہ بن مجریطی

علم ریاضی، علم حیوانات اور علم کیمیا کے ماہر مسلمہ بن احمد مشہور سائنس دان گزرے ہیں، فن ریاضی ان کا خاص مضمون تھا دیگر کئی مضامین میں بھی مہارت رکھتے تھے۔علم حیوانات اور علم کیمیا میں انہیں دلچسپی تھی، اس طرح اس باکمال سائنسدان نے تین کتابیں تصنیف کرکے اہل عالم کو فائدہ پہنچایا۔ تجارت میں ''المعاملات‘‘، حیوانات میں ''حیوانات اور اس کی نسل‘‘ اور علم کیمیا پر ''غایتہ الحکم‘‘، یہ تینوں کتابیں یورپ پہنچیں تو ان کا ترجمہ اہل یورپ نے کر لیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔ابو القاسم مجریطی اندلس کے ممتاز سائنسدان تھے، انہیں علم ریاضی اور حساب کتاب سے خاص لگائو تھا۔ اس نامور سائنسدان نے تین بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ عبدالرحمن الناصر 961ء، حکم ثانی 976ء اور ہشام ثانی 1009ء یہ بادشاہ اہل علم و فضل کے بڑے قدردان تھے۔ ابوالقاسم مجریطی کا تعلق ہمیشہ دربار سے رہا اور یہ بادشاہ اس کی بڑی قدر و منزلت کرتے رہے۔ مجریطی علم ہیئت، علم کیمیا اور علم حیوانات میں ماہر تھے، لیکن علم ریاضی میں انہیں کمال حاصل تھا۔ انہوں نے علم ریاضی میں ایک نیا راستہ پیدا کیا یعنی حساب تجارت پر انہوں نے توجہ دی اور حساب کتاب کے بنیادی اصول اور طریقے بتائے۔دنیا کی تجارت اور کاروبار پر اس قدیم دور میں مسلمان عادی تھے، مسلمانوں کے تجارتی جہاز مال لے کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک، ساری دنیا میں سفر کرتے تھے۔ کوئی اور قوم اس عہد میں یعنی 750ء سے 1250ء تک ان کی ہم عصری کا دعویٰ نہیں کر سکتی تھی۔ابوالقاسم کے ذہن و دماغ نے زندگی کی ضروریات کو سمجھا اور ایک نئے زاویے سے نظر ڈالی۔ بازار اس کا حساب کتاب، اس کے اصول کاروبار کے طریقے، رواج اور ڈھنگ ابو القاسم نے غور و فکر کے بعد تجارتی حساب کتاب کے طریقے منضبط کئے، اصول بتائے اور قاعدے متعین کئے، اس ماہر نے اس اہم مضمون کو بڑے سلیقے اور مہارت سے مرتب کرکے ایک مستقل فن بنا دیا، اور اس سلسلہ میں ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ''المعاملات‘‘ رکھا۔مسلمانوں کے علوم و فنون چودھویں صدی میں یورپ پہنچ چکے تھے، ابوالقاسم کی کتاب ''المعاملات‘‘ بھی یورپ پہنچی اور اس کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرکے اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ابوالقاسم کا دوسرا موضوع حیوانات تھا۔ اس نے علم حیوانات پر تحقیق شروع کی اور اس کو مرتب کیا۔ حیوانات کی قسمیں، ان کے عادات و اطوار، ان کی خصوصیات ان سب باتوں کو اس نے تحقیق و تجسس کے بعد لکھا اور اپنی کتاب مکمل کی اس کتاب کا نام اس نے حیوانات کی نسل رکھا۔ اہل یورپ نے اس مفید کتاب کا بھی ترجمہ کر لیا۔ابوالقاسم نے تیسری کتاب علم کیمیا پر مرتب کی اور اس کا نام غایتہ الحکم رکھا، غایتہ الحکم علم کیمیا کے موضوع پر مستند کتاب سمجھی جاتی ہے، اس کتاب کا ترجمہ اندلس ہی کے ایک عیسائی عالم نے 1250ء میں کیا، اور اہل یورپ نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ ابوالقاسم نے اپنے فضل و کمال سے اہل عالم کو بہت فائدہ پہنچایا۔