لندن سنٹرل مسجد
مساجد تو اللہ کا گھر ہیں ان کی تعمیر میں حصہ لینا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہ شخص خوش قسمت ہے جسے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے مساجد تو اہل اسلام کے قلعے ہیں۔
ہر ایک شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی گھر کی تعمیر خوبصورت انداز میں کرے، اس کا ڈیزائن جاذب نظر اور پرکشش ہو۔ بالکل اسی طرح مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کی تعمیر ڈیزائن کی خوبصورتی اور طرز تعمیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور یہی کیفیت ان کے جذبہ ایمانی کی عکاس ہوتی ہے۔ اگر ایمان مضبوط ہو تو امت مسلمہ کی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔
برطانیہ کے بڑے شہر لندن کے مسلمانوں نے بھی ایک مسجد کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ شہر میں ایک مسجد کی تعمیر ان کا ایک دیرینہ خواب تھا اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے کمیونٹی کے زعماء نے شب و روز کوششیں شروع کر دیں۔ آخر ایک دن ان کی کوششیں رنگ لے آئیں اور شہر میں ایک مرکزی مسجد کی صورت میں ان کو عبادت الٰہی کی جگہ نصیب ہوئی۔
4جون 1937ء کو شہزادہ اعظم جاہ نے جو ریاست حیدر آباد(دکن) کے آخری حاکم میر عثمان علی خاں کے بڑے صاحبزادے تھے، نے لندن میں مسجد کی تعمیر کیلئے ہدیہ دیا اور مسجد کمیٹی کی بنیاد رکھی۔1939ء میں لندن کی مشہور مسلم شخصیات اور نمائندگان نے ایک مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں لارڈ لائیڈ جو برٹش کونسل کے چیئرمین تھے، سے بات چیت کی۔ لارڈ لائیڈ نے مسجد کمیٹی سے معلومات لیں اور بعد ازاں مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
1940ء میں لارڈ لائیڈ نو آبادیات کا سیکرٹری بن گیا۔ اس نے برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کو مسلمانوں کیلئے مسجد تعمیر کے متعلق تجویز بھیجی جس میں واضح کہا کہ یورپ کے کسی بھی دارالحکومت سے زیادہ مسلمان لندن میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان مسلمانوں کے پاس عبادت کرنے کیلئے کوئی مرکزی جگہ موجود نہیں۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر تعمیر کرنے سے جہاں برطانوی مسلمانوں میں برطانوی حکومت سے احساس وفاداری پیدا ہوگا وہیں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک پر بھی اس کا ایک مثبت اثر پڑے گا۔
اتفاق سے انہی دنوں شاہ مصر فاروق الاوّل نے قاہرہ میں عیسائیوں کو ایک چرچ بنانے کیلئے وسیع قطعہ اراضی تحفہ میں دیا۔ جواباً جارج ششم نے بھی برطانیہ کے مسلمانوں کو مسجد اور کمیونٹی سنٹر کیلئے ایک قطعہ اراضی تحفہ میں دیا اور ساتھ ایک لاکھ پائونڈ مسجد اور کمیونٹی سنٹر کی تعمیر کیلئے منظور کئے۔ لندن میں مقیم مسلمانوں نے مسجد کمیٹی سے مشورہ کے بعد حکومت برطانیہ کا یہ تحفہ بسر و چشم شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور اس پراجیکٹ کا نام ''اسلامک کلچرل سنٹر و مرکزی جامع مسجد‘‘ رکھ دیا گیا۔
اس اسلامک کلچر سنٹر کا افتتاح نومبر 1944ء میں ہر میجسٹی شاہ جارج ششم نے کیا۔ یہ مسجد لندن کے مشہور ریجنٹ پارک کے کنارے قائم ہے۔ مسجد کی تعمیر سے قبل 1969ء میں ماہر تعمیرات سے شایان شان ڈیزائن تیار کرنے کی دعوت دی گئی، جس کے نتیجہ میں مسجد کمیٹی کو ایک سو سے زائد مقررہ تاریخ تک ڈیزائن پیش کئے گئے۔ بالآخر ایک انگریز آرکیٹیکٹ سرفریڈرک گبرڈ کا تیار کردہ ڈیزائن منتخب کیا گیا۔ مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مرکزی حصہ میں نمازیوں کیلئے ہال ہے جس میں 5400نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ گیلری میں خواتین کیلئے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔ کمپلیکس کے دوسرے حصہ میں داخلی دروازہ، لائبریری، ریڈنگ روم، کانفرنس روم اور انتظامیہ کے دفاتر ہیں۔ بک شاپ کے علاوہ ایک شاپ میں تسبیح، ٹوپیاں اور جائے نماز بھی دستیاب ہیں۔ کیفے ٹیریا ،پکچر گیلری اور وضو خانہ بھی موجود ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 203ایکڑ ہے۔ مسجد کے واحد مینار کی اونچائی 141 فٹ اور گنبد کا قطر82فٹ ہے۔ گنبد بیت المقدس کے قبتہ الصخراہ کے مشابہ ہے۔ ہال کے درمیان گنبد کے نیچے خوبصورت فانونس آویزاں ہے، لائبریری میں 25000کتب موجود ہیں۔ قرآن پاک کے تیس زبانوں میں تراجم بھی دستیاب ہیں۔
مسجد کی تعمیر 1947ء میں شروع ہوئی۔ سعودی عرب کے فرمانبروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود نے مسجد کی تعمیر کیلئے 20لاکھ پائونڈ عطیہ دیا۔ اس طرح متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زائد بن سلطان النہیان نے خطیر رقم کا عطیہ دیا۔ سلطنت عمان کے سلطان قابوس کے علاوہ قطر اور کویت کے حکمرانوں نے بھی دل کھول کر کار خیر میں حصہ ڈالا۔ مسجد کی تعمیر جولائی 1977ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کی تعمیر پر 65لاکھ پائونڈ خرچ ہوئے۔
اس اسلامک سنٹر کے پہلے ڈائریکٹر راجہ آف محمود آباد امیر احمد خاں تھے جنہوں نے تعلیمی اور انتظامی حصہ کی تعمیر کیلئے خطیر رقم عطیہ کی۔ اس حصہ کی تعمیر میں سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی بطور خاص عطیہ دیا۔ یہ حصہ 1994ء میں مکمل ہوا۔
اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت برطانیہ میں تقریباً2000مساجد ہیں جن میں 1500مساجد صرف لندن شہر میں ہیں۔ یہ برطانیہ میں مقیم 45لاکھ مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں، جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 7فیصد ہے۔