یادرفتگاں امیر خسرو
امیر خسرو کا اصل نام ابوا لحسن اور یمین الدین محمود لقب تھا مگر انہیں شہر ت تخلص سے ملی۔ امیر ان کا موروثی خطاب تھا اور پیدائش 1253ء کی ہے ۔ خسرو خو د ترک ہندوستانی کہلانا پسند کرتے تھے جبکہ ان کہ مرشد نظام دین اولیاء نے انہیں '' طوطی ِ ہند‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد امیر سیف الدین ایک ترک سردار تھے ۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور شمالی ہند کے پٹیالی قصبے (آگرہ ) میں جا بسے۔ ان کی والدہ ایک نو مسلم راجپوت گھرانے سے تھیں۔ وہ 8برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہوگیا ۔
وہ برصغیر میں مسلم عہد حکومت کے ابتدائی ادوارکے عینی شاہد بھی ہیں ۔انہوں نے دہلی سلطنت کے خاندان ِ غلامہ خلجی اور تغلق کے آٹھ بادشاہوں کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ اس زمانے کی سیاسی سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھرپور کردار بھی اد ا کیا۔ اگرچہ خسرو کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا مگر وہ صوفی کے علاوہ ایک بلند پایا ادیب،شاعر ، نثر نگار، موسیقار اورمتعدد زبانوں کے ماہر تھے۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ بچپن ہی سے بڑے ذہین تھے۔
ان کی تصانیف کی تعداد 92ہے جو فارسی اور اُردو زبان کی پہلی شکل ہندوی (فارسی، ترکی، کھڑی بولی، برج بھاشہ، اودھی کا مرکب) میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں''تحفہ الصغروو سطالحیات ، غرۃ الکمال ، بقیہ نقیہ ، قصہ چہار درویش، نہایتہ کمال، بشت بہشت، قرآن السعدین، مطلع الانوار ، مفتاح الفتوح ،مثنوی، ذوالرانی ، خضر خان ، نہ سپہر ، تغلق نامہ ، خمسہ نظامی ، اعجاز خسروی ، خزائن الفتوح ، افضل الفوائد، لیلیٰ مجنوں، خالق باری، ضواہر خسروی، آئینہ سکندری، ملاالانور اور شیریں خسرو‘‘ و غیرہ کافی مشہور ہیں۔
خسرو کو اُردو زبان کا موجد بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے ''ہندوی‘‘ نام دیا تھا جو بعد میں ہندی ، پھر ریختہ ، اور اردو معلی کے بعد اردو کہلائی ۔اسی طرح دنیا میں اردو کا پہلا شعر بھی خسروسے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان سے اور بھی کئی ایجادات منسوب ہیں جن میں قوالی، موسیقی، کے راگ اور آلات وغیرہ شامل ہیں۔ وہ موسیقی کے دلدادہ تھے، ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کا انہیں ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار پر ''تیسرہ تار چڑھانا‘‘ انہی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اکثرراگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی ( ایمن ، کلیان ) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی اختراع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین اور بے جو باورا نے فن ِ موسیقی میں جو دوامی شہرت پائی وہ خسرو کے فن کی بدولت ہے۔ اسی طرح کے ماضی کے بے شمار فنکاروں جیسے امرائو جان ادا ، ملکہ جان گوہر جان اور شہناز وغیرہ کو ''کلام ِ خسرو‘‘ کی بدولت شہرت ملی۔
علمی و ادبی لحاظ سے خسرو کی عظمت بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے ہمسہ نظامی کی طرز پر ہمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ''مطلع النوار‘‘ پیش کی۔ مثنوی شیری، خسرولیلیٰ مجنوں لکھی۔ اسی دوران ان کی والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مثنوی میں درد و قرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خودبخود آ گئی۔ سلطان علائو الدین خلجی کے دور کو 12 سال تک دیکھنے اور پر کھنے کے بعد خسرو نے''خزائن الفتوح‘‘تصنیف کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا ۔ انہوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے ۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد نظام الدین اولیاء کے ملفوظا ت کو جمع کر کے ''افضل الفواد‘‘ کے نام سے مر تب کیا۔ انہوں نے علائو الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان ِ عشق بھی نظم کی ۔ خسرو کو شاعری کے حوالے سے اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی۔ انہوں نے بیشتر کتابیں اپنی زندگی ہی میں ترتیب دیں ۔
وہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور انہیں بھی اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔ دوسرے مرید بھی مرشد کی توجہ کیلئے اکثر خسرو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء کی خانقاہ سے۔ اپنے پیر و مرشد کی جدائی میں امیر خسرو کا دل صرف شاعری ہی سے نہیں بلکہ زندگی سے بھی اُچاٹ ہوگیا تھا ۔ آخر کار دل کی اس بے قراراری کو قرار آہی گیا اور محض چھ مہینوں بعد خسرونے بھی 28ستمبر 1325ء کو اس جہان ِ فانی کو خیرباد کہا اور اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے ۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ''نہایت الکمال‘‘ مکمل کر چکے تھے۔ 13ویں صدی کا یہ عوامی شاعر برصغیر ہندو پاک کی ادبی و ثقافتی تاریخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے، جن کا فن و کلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔