انیس ناگی عمدہ شاعر باکمال نقاد اور منفرد ناول نگار
ڈاکٹرانیس ناگی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، وہ ایک عمدہ شاعر، باکمال نقاد، منفرد ناول نگار اور فلم میکر تھے۔ انہوں نے جنون کی حد تک ادب سے محبت کی اور ان گنت کتابیں تصنیف کیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادب، ناگی صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھاتو غلط نہ ہو گا۔
انیس ناگی 30 جولائی 1939ء کو شیخو پورہ میں پیدا ہوئے۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1957ء میں گورنمنٹ کالج کے جریدے ''راوی‘‘ کے مدیر بنے۔ 1960-61ء میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ''محور‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک میں حصہ لیا، جس کے شرکاء کے نزدیک رائج شاعری کا روایتی پیرایہ ناقابل قبول ہوچکا تھا۔انیس ناگی نے اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کے بعد تدریس شروع کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور اورفیصل آباد میں پڑھاتے رہے، پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے صوبائی سول سروس میں شامل ہو گئے۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی بھی کی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پھر تدریس کی طرف آئے۔ اس میں ان کا دل لگتا تھا۔ ان کے شاگرد ان کے مداح تھے۔ زندگی کی آخری سانسیں 7 اکتوبر 2010ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں لیں، جہاں ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کے پاس مقالے کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے آئی ہوئی ایک طالبہ تھی جس نے ان کے گھر اور کالج اطلاع دی۔
شاعری میں انہوں نے زیادہ تر نثری لفظوں کی طرف توجہ دی۔ ان کا شعری مجموعہ ''زرد آسمان‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ وہ ایک سخت گیر نقاد تھے اور کسی بھی ادب پارے کیلئے تحسین کے چند کلمات ادا کرنا ان کیلئے بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ان کی تصانیف میں '' نقدِ شعر، نیا شعری افق، تصورات، نذیر احمد کی ناول نگاری، افتخار جالب: جدید ادب کا معمار، مذاکرات، جان ایس پرس کی نظمیں (ترجمہ)، سعادت حسن منٹو، غالب ایک شاعر ایک اداکار، جنس اور وجود، ابھی کچھ اور، دیوار کے پیچھے، میں اور وہ، زوال، قلعہ، ناراض عورتیں، بریگیڈ 313، بشارت کی رات، غیرممنوعہ نظمیں، بے خوابی کی نظمیں، زرد آسمان، روشنیاں، نوحے، آگ ہی آگ، مستقبل کی کہانی، جہنم میں ایک موسم، ہوائیں، بیابانی کا دن اور چوہوں کی کہانی‘‘ شامل ہیں۔
تنقید میں ان کی کئی کتابیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے بے شمار لوگوں کومتاثر کیا۔ ان میں ''ڈپٹی نذیر احمدکی ناول نگاری، تنقید شعر‘‘ کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو پر لکھی گئی ان کی کتاب انتہائی لاجواب ہے۔ اگر تخلیقی تنقید پڑھنی ہو تو پھر ادب کے قاری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے وہ کچھ ڈھونڈ نکالا جو شاید دوسرے نقاد نہیں ڈھونڈ سکے۔ مثال کے طور پر انیس ناگی نے سعادت حسن منٹو کے افسانوں سے مارکزم دریافت کرلیا۔ مارکسی فلسفے کے اہم ترین نکات کو انہوں نے جس طرح منٹوکے افسانوں سے رابطہ جوڑا وہ انہی کا کمال ہے۔ جہاں تک ان کے ناولوں کا تعلق ہے تو اس میں وہ واضح طور پر کامیو کے پیروکار نظر آتے ہیں۔
انیس ناگی باغیانہ روش کے حامی تھے اور انہوں نے ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔ ان کا ناول ''دیوار کے پیچھے‘‘ ایک بہت عمدہ ناول ہے جو خود کلامی(Monologue) کے اسلوب میں لکھا گیا ہے اس میں بڑے خوبصورت طریقے سے معاشرتی انتشار کی عکاسی کی گئی ہے۔ ''میں اور وہ‘‘ وجودی فکر کا نمائندہ ناول ہے۔
ناگی صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے مترجم بھی تھے اور اس میدان میں بھی انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیئے۔منٹو پر فلم کا سکرپٹ لکھا اور فلم خود بنائی جس مین منٹو کا کردار یونس ادیب نے نبھایا۔خود نوشت سوانح حیات ''ایک ادھوری سرگزشت‘‘ کے نام سے لکھی۔ 1999ء میں اکادمی ادبیات کی طرف سے ناول ''کیمپ‘‘ پر وزیر اعظم ادبی انعام ملا۔ انیس ناگی کا نام ان کے کام کی وجہ سے ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
خاموشی کا شہر
ہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے
کہاں زندگی ہے؟
کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو
جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا
اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے
کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو
یہاں ہر نفس بے صدا ہے
یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر
ہر اک وفا تیرگی کا ستوں ہے
چلو خواہشیں ڈھونڈنے
بن سنور کے چلو خواہشیں ڈھونڈنی ہیں
نہیں تو یہی خامشی بھوت بن کر
گھروں کے کواڑوں کے پیچھے ہمیشہ ڈراتی رہے گی
اک بے کشش نظم
پہلے کشش عورت میں تھی
پھر کشش لفظوں میں تھی
اب لفظ عورت بے کشش
لہروں تک زمین و آسماں کو دیکھتے ہیں
کائناتی سلسلوں میں
سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں
جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے