نیئر سلطانہ : لالی وڈ کی ملکہ جذبات
پاکستانی فلمی صنعت میں کچھ اداکارائیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک اپنے فن کا سفر جاری رکھا اور ان میں سے کچھ نے ملکہ جذبات کا خطاب بھی حاصل کیا۔ ان میں نبیلہ، سلمیٰ ممتاز اور بہار کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سب سے منفرد اور مثالی اداکاری کرنے والی کا نام تھا نیئر سلطانہ۔ معاون اداکارہ، ہیروئن اور پھر کریکٹر ایکٹریس تک انہوں نے جو کردار بھی ادا کیے انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
1973ء میں علی گڑھ (بھارت) میں پیدا ہونے والی نیئر سلطانہ کا اصل نام طیبہ بانو تھا۔ انہوں نے ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا۔ کراچی سے ایک بار انہیں لاہور آنے کا موقع ملا جہاں ان کی ملاقات اپنے وقت کے نامور ہدایتکار انور کمال پاشا سے ہوئی۔ انور کمال پاشا نیئر سلطانہ کے حسن و جمال اور ان کی اردو ادب میں دلچسپی سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ نیئر سلطانہ نے اپنے والدین سے اجازت مانگی اور انہوں نے ہاں کر دی۔ اس طرح انور کمال پاشا نے سب سے پہلے انہیں اپنی فلم ''قاتل‘‘ میں کاسٹ کیا، اس میں انہوں نے نازلی کے نام سے کام کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ''قاتل‘‘ مسرت نذیر اور اسلم پرویز کی بھی پہلی فلم تھی۔1955میں ہی ا نہیں ہمایوں مرزا کی فلم ''انتخاب‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں وہ نیئر سلطانہ کے نام سے جلوہ گر ہوئیں اور پھر اس کے بعد وہ 40برس تک اسی فلمی نام سے اداکاری کے جوہر دکھاتی رہیں۔
انہوں نے اپنے دور کے معروف اداکار عشرت عباس المعروف درپن سے شادی کی۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصے کیلئے فلمی صنعت سے کنارہ کش ہو گئیں۔ 60ء کی دہائی کے آخر میں وہ دوبارہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوئیں لیکن ان کی فلمیں 'ایک مسافر ایک حسینہ‘ 'میری بھابھی‘ اور 'عظمت‘ باکس آفس پر ناکام ہو گئیں۔70ء کی دہائی کے آغاز میں انہوں نے کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور اس روپ میں بھی انہوں نے اپنی فنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ اس حوالے سے ان کی جن فلموں کا نام لیا جا سکتا ہے ان میں ' 'بہشت، ابھی تو میں جوان ہوں،ماضی ،حال، مستقبل اور سیتا مریم، مارگریٹ‘‘ شامل ہیں۔ 1980ء میں ان کے شوہر درپن خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کی ریکروٹنگ ایجنسی کے معاملات سنبھال لیے اور اس ایجنسی کو بڑی کامیابی سے چلایا۔90ء کی دہائی میں وہ پھر کچھ فلموں میں نمودار ہوئیں جن میں ''تین یکے تین چھکے ‘‘اور ''گاڈ فادر‘‘ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کئی ایوارڈ حاصل کیے۔ المیہ کردار نگاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہیں ملکہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔
جب لالی وڈ کا سنہری دور تھا تو نیئر سلطانہ کا شمار صف اوّل کی اداکارائوں میں ہوتا تھا۔ ان کی مشہور فلموں میں ''اولاد، ایاز، خیبر میل، خدا تے ماں، پہچان، باجی، دیو داس ، چن سجناں، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ان میں ''چن سجناں‘‘ سب سے اہم فلم تھی۔ اس فلم میں ان کے شوہر درپن بھی تھے۔ یہ ایک سپر ہٹ فلم تھی جس کے گیتوں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔
''سہیلی‘‘ اور ''باجی‘‘ کو نیئر سلطانہ کی اہم ترین فلمیں قرار دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ''باجی‘‘ میں انہوں نے ایک ایسی بیوہ کا کردار ادا کیا تھا جو ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے جو اس سے عمر میں بہت چھوٹا ہے۔ اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض ان کے دیور ایس سلیمان نے ادا کئے تھے۔ اگرچہ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب نہیں ہوئی لیکن نیئر سلطانہ کی اداکاری اور ایس سلیمان کی ہدایتکاری کو بہت سراہا گیا۔ اسی طرح ایس ایم یوسف کی فلم ''اولاد‘‘ بھی نیئر سلطانہ کی بہترین فلم تھی۔ ان فلموں میں بھی نیئر سلطانہ نے اعلیٰ درجے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔'' سہیلی‘‘ میں ان کے ساتھ درپن اور شمیم آرا نے بھی لاجواب اداکاری کی۔ نیئر سلطانہ نے سہیلی میں ایک ایساکرار ادا کیا جو وفا ،قربانی اور دوستی کا ملغوبہ ہے۔یہ کردار بلا شبہ انہوں نے کمال مہارت سے ادا کیا۔ ''بہشت‘‘ میں انہوں نے ایک منفی کردار ادا کیا لیکن انہوں نے اس کردار میں بھی اپنے فن کا سکہ جما دیا۔ یہ ایک سفاک اور بے حس ساس کا کردار تھا جو اپنے جبرو ستم سے اپنی بہو (نشو)کا عرصہ حیات تنگ کر دیتی ہے۔
نیئر سلطانہ فطری اداکاری پر یقین رکھتی تھیں اور اس کیلئے انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی فحاشی اور عریانی کا سہارا نہیں لیا۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ وہ مشرقی عورت کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مردوں اور عورتوں میں یکساں طور پر مقبول تھیں۔ ان کی ایک اور یادگار فلم ''پیاسا ‘‘تھی۔ حسن طارق کی یہ فلم رضیہ بٹ کے ناول ''وحشی‘‘ سے ماخوذ تھی۔ اس میں نیئر سلطانہ کے علاوہ شاہد نے بھی متاثر کن اداکاری کی تھی۔نیئر سلطانہ کا فلمی سفر 1955ء سے 1991ء تک جاری رہا، پھر وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔29اکتوبر 1992ء کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔