روبرٹ کوچ جان لیوا امراض کے اسباب دریافت کرنے والا جرمن ڈاکٹر
روبرٹ کوچ(Robert Koch) اُس ڈاکٹر کا نام ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی مہلک امراض کا سبب دریافت کیا۔ اس کی شہرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے تپ دق کے جراثیم کا سراغ لگایا۔ اس زمانے میں ہر سات موتوں میں سے ایک اسی مہلک مرض سے واقع ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے مویشیوں کی کئی بیماریوں کے جراثیم دریافت کئے۔
روبرٹ کوچ11دسمبر1843ء کو شمال مغربی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے ایک میڈیکل سکول میں داخلہ لیا وہ سوچا کرتا تھا کہ بڑا ہو کر وسطیٰ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی سیر کرے گا اور وہاں اپنے فن سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے گا لیکن شادی کے بعد اس نے مشرقی جرمنی کے مختلف دیہاتوں میں ڈاکٹری شروع کر دی اور وہیں کا ہو رہا۔
کوچ کی اٹھائیسویں سالگرہ پر اس کی بیوی نے اسے ایک خوردبین تحفے کے طور پر پیش کی۔ طبیعت میں تجسس تو پہلے سے موجود تھا اب ایک موقع بھی ہاتھ آ گیا۔ جب بھی مریضوں سے فرصت ملتی تھی وہ اس خوردبین سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا۔ اسے جراثیم سے دلچسپی تھی کیونکہ وہ انہیں مختلف امراض کا سبب سمجھتا تھا۔ اس نے خوردبینی کو ترقی دی اور جراثیم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے بعض ایسے طریقے دریافت کئے جو آج بھی رائج ہیں۔
کوچ نے 24مارچ 1882ء کو برلن میں فزیولوجیکل سوسائٹی کی ایک میٹنگ میں تپ دق جیسے موذی مرض کے اسباب بیان کئے۔ اس میٹنگ میں اس زمانے کے چند مشہور ڈاکٹر اور محقق موجود تھے جن کی شہرت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ تپ دق ایک عام مرض تھا۔ ہر سات موتوں میں سے ایک موت تپ دق سے ہوتی تھی۔ ہر ڈاکٹر اس کا سبب دریافت کرنے کی فکر میں تھا تاکہ علاج میں آسانی پیدا ہو جائے۔
یہ اعزاز کوچ کے مقدر میں تھا۔ اس نے بتایا کہ تپ دق ایک سلاخ نما جرثومے سے پھیلتی ہے۔ کوچ نے یہ جرثومہ ہر اس مریض کے جسم میں دیکھا تھا جو اس مرض کا شکار ہوا۔ اس نے یہ جراثیم ایسے مریضوں کے جسم سے علیحدہ کئے، ان کی پرورش کی اور ان پر تحقیقات کیں۔ ڈاکٹر کوچ نے یہ جاثیم بعض جانوروں کے جسم میں داخل کئے یا ان کے پنجروں اور دڑبوں پر پھیلائے اور دیکھا کہ وہ جانور بھی تپ دق میں مبتلا ہو گئے۔
تمام قابل ڈاکٹروں اور محققین نے کوچ کی بات غور سے سنی۔ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی کیونکہ اس کی دریافت صحیح تھی اور آج تک صحیح سمجھی جاتی ہے۔ ساری دنیا میں اس کی شہرت پھیل گئی کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے تپ دق جیسے مہلک مرض کا سبب دریافت کر لیا ہے۔
1882ء سے 1900ء تک کا زمانہ اس لحاظ سے ہمیشہ یادگار رہے گا، کہ انسان نے بیماریوں کے خلاف بڑی تن دہی سے جنگ جاری رکھی۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا تھا جب کسی نہ کسی مرض کا سبب دریافت نہ کیا جاتا ہو۔1883ء میں خناق اور ہیضے کے جراثیم معلوم کئے گئے۔1886ء میں نمونیہ کا سبب دریافت کیا گیا۔ اسی طرح 1890ء تک بعض بخاروں، پلیگ اور پیچش کے جراثیم کا پتہ لگایا۔1865ء میں اس نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی تھی کہ جراثیم جانوروں میں بھی بیماری پھیلاتے ہیں اور پھر یہ جانور انسانوں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ شروع میں کسی کو اس بات کا یقین نہیں آیا لیکن پھر سب قائل ہو گئے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ڈاکٹروں نے خوردبینوں کی مدد سے مہلک جراثیم کا پتہ لگانا شروع کردیا تاکہ ان کے پیدا کئے ہوئے امراض کا علاج دریافت کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔یہ کام آسان نہ تھا کیونکہ انسانی جسم میں کتنی ہی اقسام کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ کسی ایک جرثومے پر تحقیقات کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ اسے باقی جراثیم سے علیحدہ کیا جائے، اس جیسے دوسرے جراثیم پیدا کئے جائیں پھر انہیں جانوروں کے جسم میں داخل کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس سے زیر تحقیق بیماری پھیلتی ہے یا نہیں۔ ایسے کام کیلئے وقت کے علاوہ بڑی محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔
کوچ محنت کا عادی تھا۔ بہت سے دوسرے ڈاکٹروں اور محققین نے اس کے اصولوں کو اپنایا اور کئی بیماریوں کے جراثیم دریافت کئے۔1876ء میں کوچ نے بھیڑوں اور مویشیوں میں کالی بخار پیدا کرنے والے جرثومے کا پتہ لگایا اور پھر اس مرض کا علاج بھی دریافت کیا۔ اس سے پہلے مویشیوں کے ریوڑ کے ریوڑ اس مرض سے صاف ہو جاتے تھے۔
کوچ کی زندگی نہایت کامیاب رہی اس نے انسان کے کئی دشمنوں کا سراغ لگایا اور جاتے وقت دوسروں کو یہ بتا گیا کہ ایسے دشمن کس طرح تلاش کئے جاتے ہیں۔ نیز انہیں کس طرح ختم کیا جاتا ہے۔ اس نے پاسچر کی معیت میں متعدی امراض کی بیخ کنی کی۔ جسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔
تپ دق روبرٹ کی قابل ستائش تحقیق
برلن کے ہسپتالوں میں جو لوگ تپ دق کا شکار ہوتے تھے کوچ ان کے مردہ جسم سے اس مرض کے جراثیم حاصل کرتا تھا لیکن انہیں دیکھنے میں بڑی دشواری پیش آ رہی تھی۔ بڑی کوششوں کے بعد کوچ کو ایک جرثومہ رینگتا نظر آیا لیکن اسے جدا کرنا اور پرورش کرنا آسان کام نہ تھا۔ کوچ نے اس کیلئے خاص قسم کی ایک خون آمیز غذا تیار کی اور اس کی تعداد بڑھائی۔ اب ایک کام باقی تھا۔ ان جراثیم کو بعض جانوروں کے جسم میں منتقل کیا جانا تھا۔ یہ کام تھا بڑا خطرناک کیونکہ سوئی کی ذرا سی جنبش کا یہ مطلب تھا کہ وہ خود کوچ کی انگلی سے ٹکرا جائے اور یہ خطرناک جراثیم اس کے اپنے جسم میں داخل ہو جائیں۔ کوچ بالکل نہیں گھبرایا۔ اس نے سینکڑوں جانوروں پر یہ تجربات کئے اور انہیں کامیاب پایا۔ تپ دق واقعی متعدی مرض تھا۔کوچ ابھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مرض سانس کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے یعنی اگر اس کے جراثیم سانس کے ساتھ کسی کے جسم میں پہنچ جائیں تو وہ ان کا شکار ہو سکتا ہے۔ کوچ نے ایک ٹیوب کے ذریعے یہ جراثیم اپنی تجربہ گاہ سے باہر سوروں اور چند دوسرے جانوروں کے دڑبوں میں پہنچائے اور دیکھا کہ وہ واقعی تپ دق میں مبتلا ہو گئے۔
ہیضہ کا سبب بننے والے جرثومے کی دریافت
1883ء کے شروع میں ہندوستان میں ہیضہ وبائی شکل میں پھیلا۔ وہاں سے یہ وبا مشرق وسطیٰ ہوتی ہوئی مصر تک پہنچ گئی۔ فرانس اور جرمنی نے سوچا کہ یہ موقع نہ صرف انسانی خدمت کا ہے بلکہ اس مرض پر تحقیقات بھی کی جا سکتی ہیں۔ جرمنی نے کوچ کو روانہ کیا کہ ہیضے کا سبب دریافت کرے۔ کوچ ہندوستان آیا اور اس نے ثابت کر دیا کہ ہیضہ''د‘‘ جیسے ایک جرثومے سے پھیلتا ہے جو گندے پانی میں پایا جاتا ہے۔ اس دریافت کے بعد جب کوچ اپنے وطن واپس گیا تو اس کا ایک بڑے فاتح کی طرح استقبال کیا گیا۔ خود قیصر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے اسے جرمنی کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا۔ اس کے بعد1886ء میں اس نے ایک امریکی محقق کے ساتھ مل کر آنکھوں کی ایک بیماری کا سبب دریافت کیا۔ پھر وہ دو مرتبہ جنوبی افریقہ گیا اور اس نے وہاں مویشیوں کی ایک مہلک بیماری کا سبب معلوم کیا۔