عبیداللہ بیگ کی شخصیت کی پہچان ''کسوٹی‘‘ ہے لیکن ان کی ذات ایک ایسا ہیرا تھی کہ جس سے مختلف زاویوں میں لاتعداد کرنیں پھوٹتی تھیں۔ وہ صحافی، مدیر، ایڈور ٹائزر، براڈ کاسٹر، دستاویزی فلم ساز، ٹی وی رپورٹر، شکاری، سیاح، ناول نگار، ڈرامہ نگار، سکرپٹ و فیچر رائٹر اور ماہرِ ماحولیات بھی تھے۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکساری کے سبب وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔عبیداللہ بیگ کی علمی گفتگو، متانت سے بھرپور لب و لہجہ اور موضوعات پر گہری گرفت نے ناظرین کو برسوں تک مسحور کیے رکھا۔ انہوں نے ادب، صحافت، نشریات اور فکری مباحث کے میدان میں جو نقوش چھوڑے ہیں، وہ آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ عبید اللہ بیگ 1936ء میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے، جن کی وجہ سے ان کا گھر ہی میں کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ 1951ء میں ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیااورکراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی عادت نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔مداحوں کیلئے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔سرکاری ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ''کسوٹی ‘‘نے انہیں بے پناہ شہرت بخشی۔کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نامور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں ''پگڈنڈی‘‘، '' منزل‘‘، ''میزان‘‘، ''ذوق آگہی‘‘ اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کیلئے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے سرکاری ٹی وی کے صدر دفتر میں شعبہ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ''ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔وہ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کیلئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دلچسپ تھا۔قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ''اور انسان زندہ ہے‘‘ 60ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ''راجپوت‘‘ 2010ء میں شائع ہوا۔عبید اللہ بیگ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ انہوں نے کئی اہم کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا، جن میں تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سوشیالوجی اور سائنسی موضوعات شامل تھے۔ ان کا اسلوب سادہ اور رواں تھا، جو قاری کو الجھاتا نہیں بلکہ علم سے قریب کرتا ہے۔ان کی اصل پہچان ان کا علمی وقار تھا۔ وہ گفتگو میں ہمیشہ منطقی توازن، دلائل کی تہذیب اور ادب کی پاسداری رکھتے۔ کبھی بحث میں جارحانہ نہ ہوتے بلکہ دلیل کو اس کی فکری وقعت کے ساتھ پیش کرتے۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازاگیا جبکہ سرکاری ٹی وی نے انہیں ''لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔عبید اللہ بیگ ایک ایسا چراغ تھے جس نے کئی ذہنوں کو روشن کیا۔ ان کی سادگی میں گہرائی، انکساری میں بلندی اور گفتگو میں شائستگی تھی۔ آج وہ ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود نہیں، لیکن ان کا انداز، علم، اور شخصیت اہلِ علم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ عبیداللہ بیگ کی دستاویزی فلمیںعبید اللہ بیگ کی ایک پہچان دستاویزی فلمساز کی بھی ہے ۔سرکاری ٹی وی پر ''کسوٹی‘‘ سے پہلے ''سیلانی‘‘ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہواتھا تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا۔ سرکاری ٹی وی کیلئے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور انہیں مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی فلم ''وائلڈ لائف اِن سندھ‘‘ کو 1982ء میں 14 بہترین دستاویزی فلموں میں شامل کیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر دستاویزی فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شاندار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ زبھی دیئے گئے۔