آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


سوویت یونین نیوکلیئر دھماکہ
30اکتوبر1961ء کو سوویت یونین نے اب تک دنیا کے سب سے بڑے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ یہ بم1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر پھینکے جانے والے ایٹم بم سے 4ہزار گنا زیادہ طاقتور تھا۔یہ سوویت یونین کی جانب سے کیا جانے والا سب سے بڑا تجربہ تھا۔ اقوام متحدہ نے امریکہ اور سوویت یونین سے متعدد مرتبہ اپیل کی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی اس ریس کو ختم کر دیا جائے ورنہ یہ کرہ ارض تباہ ہو جائے گی اور یہاں انسان زندہ نہیں بچیں گے۔
موندروس معاہدہ
30اکتوبر 1918ء کو موندروس معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ پہلی جنگ عظیم میں شکست خوردہ دولت عثمانیہ اور غالب قوتوں (برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی) کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت عثمانی فوج نے اسلحہ ترک کیا اور استنبول سمیت اناطولیہ کے دیگر علاقوں پر مغربی طاقتوں کا قبضہ شروع ہو گیا۔
سورج نکلنے پر جشن
ناروے کے شہر رجوکان میںسال کے تقریباً7ماہ براہ راست سورج نہیں نکلتا لیکن 30اکتوبر2013ء میں پہلی مرتبہ اس شہر میں موسم سرما کے دوران سورج نکلا۔ اس موقع پر لوگ اس قدر خوش تھے کہ شہر کے اردگرد دیوہیکل آئینے لگائے گئے تاکہ پہاڑوں سے ڈھکے ہوئے رجوکان کے مرکزی حصے تک دھوپ پہنچائی جا سکے۔
بحیرہ ایجئین کا زلزلہ
2020ء میں آج کے روز یونانی جزیرے ساموس کے شمال مشرق میں 7.0شدت کا زلزلہ آیا۔ اگرچہ ساموس زلزلے کے مرکز کے سب سے قریب تھا لیکن ترکی کا شہر ازمیر جو مرکز سے70کلومیٹر دور تھا سب سے زیادہ متاثر ہوا۔اس زلزلے کے نتیجے میں700سے زائد تجارتی اور رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا، 119افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے۔
ویانا معاہدہ
ویانا معاہدہ ایک امن معاہدہ تھا جس پر30 اکتوبر1864ء کو ویانا میں آسٹریا کی سلطنت، پرشیا اور ڈنمارک کی ریاست کے درمیان دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے بعد شلس وگ کی دوسری جنگ کا اختتام ہوا۔ بعد ازاں 14 اگست 1865ء کو آسٹریا اور پرشیا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کو گیسٹین کنونشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس شرط کے مطابق پرشیا شلس وِگ کے انتظام کو دیکھے گا اور آسٹریا اسی طرح ہولسٹین پر حکومت قائم رکھے گا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عبیداللہ بیگ،،کسوٹی،، کا ذہین ستون

عبیداللہ بیگ،،کسوٹی،، کا ذہین ستون

عبیداللہ بیگ کی شخصیت کی پہچان ''کسوٹی‘‘ ہے لیکن ان کی ذات ایک ایسا ہیرا تھی کہ جس سے مختلف زاویوں میں لاتعداد کرنیں پھوٹتی تھیں۔ وہ صحافی، مدیر، ایڈور ٹائزر، براڈ کاسٹر، دستاویزی فلم ساز، ٹی وی رپورٹر، شکاری، سیاح، ناول نگار، ڈرامہ نگار، سکرپٹ و فیچر رائٹر اور ماہرِ ماحولیات بھی تھے۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکساری کے سبب وہ ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔عبیداللہ بیگ کی علمی گفتگو، متانت سے بھرپور لب و لہجہ اور موضوعات پر گہری گرفت نے ناظرین کو برسوں تک مسحور کیے رکھا۔ انہوں نے ادب، صحافت، نشریات اور فکری مباحث کے میدان میں جو نقوش چھوڑے ہیں، وہ آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ عبید اللہ بیگ 1936ء میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے، جن کی وجہ سے ان کا گھر ہی میں کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ 1951ء میں ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیااورکراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی عادت نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔مداحوں کیلئے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔سرکاری ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ''کسوٹی ‘‘نے انہیں بے پناہ شہرت بخشی۔کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نامور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں ''پگڈنڈی‘‘، '' منزل‘‘، ''میزان‘‘، ''ذوق آگہی‘‘ اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کیلئے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے سرکاری ٹی وی کے صدر دفتر میں شعبہ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ''ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔وہ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کیلئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دلچسپ تھا۔قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ''اور انسان زندہ ہے‘‘ 60ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ''راجپوت‘‘ 2010ء میں شائع ہوا۔عبید اللہ بیگ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ انہوں نے کئی اہم کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا، جن میں تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سوشیالوجی اور سائنسی موضوعات شامل تھے۔ ان کا اسلوب سادہ اور رواں تھا، جو قاری کو الجھاتا نہیں بلکہ علم سے قریب کرتا ہے۔ان کی اصل پہچان ان کا علمی وقار تھا۔ وہ گفتگو میں ہمیشہ منطقی توازن، دلائل کی تہذیب اور ادب کی پاسداری رکھتے۔ کبھی بحث میں جارحانہ نہ ہوتے بلکہ دلیل کو اس کی فکری وقعت کے ساتھ پیش کرتے۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازاگیا جبکہ سرکاری ٹی وی نے انہیں ''لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔عبید اللہ بیگ ایک ایسا چراغ تھے جس نے کئی ذہنوں کو روشن کیا۔ ان کی سادگی میں گہرائی، انکساری میں بلندی اور گفتگو میں شائستگی تھی۔ آج وہ ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود نہیں، لیکن ان کا انداز، علم، اور شخصیت اہلِ علم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ عبیداللہ بیگ کی دستاویزی فلمیںعبید اللہ بیگ کی ایک پہچان دستاویزی فلمساز کی بھی ہے ۔سرکاری ٹی وی پر ''کسوٹی‘‘ سے پہلے ''سیلانی‘‘ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہواتھا تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا۔ سرکاری ٹی وی کیلئے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور انہیں مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی فلم ''وائلڈ لائف اِن سندھ‘‘ کو 1982ء میں 14 بہترین دستاویزی فلموں میں شامل کیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر دستاویزی فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شاندار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ زبھی دیئے گئے۔ 

22 جون سال کا لمبا ترین دن

22 جون سال کا لمبا ترین دن

سورج کے گرد زمین کی گردش سے دن رات ، مہینے اور سال یعنی وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کرہ ارض پر موسموں کی تبدیلی بھی اسی گردش کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ سورج کی شعائیں زمین پر مختلف زاویوں سے پڑتی ہیں اور ایک ہی وقت میںیہ شعائیں کرئہ ارض پر کہیں سیدھی کہیں ترچھی پڑتی ہیں، اسی لئے ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں میں کہیں گرمی کہیں سردی پڑتی ہے۔ کچھ علاقے بہت زیادہ گرم اور بعض علاقے بہت زیادہ یخ بستہ موسم سے گھرے رہتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں سال کے موسموں کی تعریف ''solstices‘‘ اور ''equinoxes‘‘ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ solstice کی اصلاح کو وسیع تر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ equinoxes کی اصطلاح کو مختصر ترین دورانئے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ موسم گرما میں 20 جون تا22 جون کو کرہ ار ض میں سورج کی شعائیں زیادہ دیر رہتی ہیں اسی لئے اسے سال کے لمبے ترین دنوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ موسم سرما میں 20 تا 22دسمبر کی تاریخوں میں سورج کی شعائیں مختصر ترین وقت کیلئے کرہ ارض پر پڑتی ہیں، اس لئے اسے چھوٹا دن قرار دیا جاتا ہے۔22 جون کے بعد دن کی روشنی کا دورانیہ مختصر ہوجاتا ہے اوردسمبر کی 20 تاریخ تک یہ گھٹتا رہتا ہے جبکہ 22 دسمبر سے 20 جون تک دن کی روشنی بڑھتی رہتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سال کا طویل ترین دن بدلتا رہتا ہے، جیسے 2024ء میں 21جون کو ایسا ہوا مگر 2025ء میں 22 جون طویل ترین دن ہوگا۔22 جون کے بعد دن کے دورانیے میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگی اور دسمبر کے تیسرے عشرے میں شمالی نصف کرے میں سال کا مختصر ترین دن اور طویل ترین رات ہوگی۔اس صورتحال کو ''خط سرطان‘‘ (Summer Solstice) کہا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اسے موسم گرما کا پہلا دن قرار دیا جاتا ہے اور مختلف رسومات ادا کی جاتی ہیں۔خط سرطان سے مراد زمین کی وہ حالت ہے جب سورج آسمان پر اپنے طویل ترین راستے پر سفر کرتے ہوئے سب سے زیادہ بلندی پر پہنچتا ہے۔اس موقع پر قطب شمالی کا رخ لگ بھگ سورج کی جانب ہوتا ہے اور وہاں سورج کی روشنی کا دورانیہ گھنٹوں طویل بلکہ 24 گھنٹے تک بھی پہنچ جاتا ہے۔خط سرطان کو زرخیری سے بھی منسلک کیا جاتا ہے کیونکہ اس عرصے میں فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس موقع پر سورج خط سرطان کے اوپر ہوتا ہے اور چند روز تک دن کے وقت ایک پوزیشن میں نظر آتا ہے، سال کے باقی حصے میں سورج کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے۔ماہر فلکیات کے مطابق 22 ستمبر کو دن اور رات کا دورانیہ تقریباً برابر ہو جاتا ہے۔دن کا دورانیہآج سال کا طویل دن اور مختصر رات ہو گی۔سال کے طویل ترین دن کے موقع پر پاکستان میں دن کا دورانیہ مقامات کے لحاظ سے 14 سے 15 گھنٹے کے درمیان ہوگا۔دنیا میں سب سے طویل دن امریکی ریاست الاسکا کے وسطی حصے میں ہو گا جہاں دن کی روشنی کا دورانیہ 21 گھنٹے سے زائد ہوگا۔چنددلچسپ روایاتکچھ ممالک میں اس دن کے حوالے سے دلچسپ روایات بھی موجود ہیں۔٭...سوئیڈن میں اسے مڈ سمر کہا جاتا ہے اور ہمیشہ جمعہ کو منایا جاتا ہے ۔اس موقع پر وہاں میلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔٭...برطانیہ کے تاریخی مقام اسٹون ہینج میں بھی اس موقع پر لوگ جمع ہوتے ہیں اور مختلف سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں۔٭...قدیم مصر میں اس موقع پر نئے سال کا آغاز ہوتا تھا۔

بانو قدسیہ کے ناولوں سے اقتباسات

بانو قدسیہ کے ناولوں سے اقتباسات

''مشرق اور مغرب‘‘میرے اردگرد کپلنگ کا مقولہ گھومتا رہتا ہے۔ مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ سوچتی ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظر ہوتا ہے۔ سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے۔ پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں۔ ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے۔ (''حاصل گھاٹ‘‘ سے اقتباس)''قلب کی سوئیاں‘‘کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے سے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔ ( ''راجہ گدھ‘‘ سے اقتباس)

آج کا دن

آج کا دن

گلیلیو پر مقدمہ ختم ہوا1633ء میں آج کے روز مشہور اطالوی ماہرِ فلکیات، ریاضی دان اور طبیعیات دان گلیلیو گلیلی پر قائم مقدمہ ختم ہوا۔ گلیلیو نے کاپر نیکس (Copernicus) کے اس نظریے کی حمایت کی تھی کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، نہ کہ سورج زمین کے گرد۔ یہ نظریہ اس وقت کے رومن کیتھولک چرچ کے تعلیمات کے برخلاف تھا، جو زمین کو کائنات کا مرکز تصور کرتا تھا۔ گلیلیونے چرچ کے دباؤ پر اپنے نظریے سے توبہ کی اور چرچ نے انہیں نظر بند کر دیا۔ افغان پارلیمنٹ پر حملہ22جون 2015ء کو کابل میں افغان پارلیمنٹ پر حملہ ہوا،دہشت گردوں نے قومی اسمبلی کے باہر کار بم دھماکہ کیا اور اس کے بعد جدید اسلحے کی مدد سے پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ آور ہوئے۔اس حملے میں دو شہری جبکہ سات حملہ آور مارے گئے۔حملہ آور سکیورٹی کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے اور بارود سے بھری گاڑی پارلیمنٹ ہاؤس تک لے گئے۔تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق حملے میں ایک خاتون اور بچہ جاں بحق ہوئے جبکہ40سے زائد شہری شدید زخمی ہوئے۔ یہ حملہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان کے بعد ہوا۔تحقیقاتی اداروں نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس جدید ہتھیار موجود تھے جس کی وجہ سے انہیں عمارت کے اندر داخل ہونے میں آسانی ہوئی۔ایران میں شدید زلزلہ 22جون2002ء مین بوئن رہرامیں شدید زلزلہ آیا۔اس کا مرکز شمال مغربی ایران کا ایک علاقہ صوبہ قزوین کے شہر بوئن زہرا کے قریب تھا ۔یہ علاقہ فالٹ لائن پر موجود ہے او ر زلزلے کے صورت میں تباہی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ زلزلے کی شدت6.5تھی اور اس کے بعد 20سے زیادہ آفٹر شاکس محسوس کئے گئے۔اس خوفناک زلزلے میں230افراد ہلاک جبکہ1500سے زائد زخمی ہوئے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ کوئیک انجینئرنگ اینڈ سیسمولوجی (IIEES) کے مطابق، زلزلے کے جھٹکے دارالحکومت تہران کے مرکز سے تقریباً 290کلومیٹر مشرق میں بھی محسوس کیے گئے لیکن وہاں کسی قسم کے نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ٹرین حادثہہیمنڈ سرکس ٹرین حادثہ 22 جون 1918ء کو پیش آیا اور یہ امریکی تاریخ کے بدترین حادثات میں سے ایک تھا۔ اس حادثے میں86افراد ہلاک جبکہ127زخمی ہوئے۔ٹرین حادثے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کا ڈرائیور سو گیا جس کی وجہ سے سامنے کھڑی ٹرین کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا، اس ٹرین میں سرکس کے400سے زیادہ فنکار موجود تھے۔ ٹرین میں عام لوگ بھی سوار تھے لیکن زیادہ تعداد ان کی تھی جو سرکس کا حصہ تھے یا سرکس دیکھنے کیلئے دوسرے شہر کی جانب سفر کر رہے تھے۔تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کا ذمہ دار انسانی لاپرواہی کو ٹھہرایا گیا۔آپریشن بارباروسانازی جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران22جون1941ء کو اپنے اتحادیوں سمیت سوویت یونین پر حملہ کیا۔اس حملے کو ''آپریشن بارباروسا‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔اس حملے کا مقصدمغربی سوویت یونین کو دوبارہ جرمنی کے ساتھ آباد کرنا تھا۔ جرمن جنرل پلان اوسٹ کا مقصد قفقاز کے تیل کے ذخائر کے ساتھ ساتھ مختلف سوویت علاقوں کے زرعی وسائل کو حاصل کرتے ہوئے لوگوں کو جبری مشقت کے طور پر استعمال کرنا بھی تھا۔

NEW RESEARCH خبردار!دھاتی بوتل خطرہ جان

NEW RESEARCH خبردار!دھاتی بوتل خطرہ جان

سالہا سال تک ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال مت کریںحالیہ برسوں میں دھاتی واٹر بوتلوں کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ موسم گرما میں یہ ٹھنڈا پانی اور مشروبات رکھنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں تو موسم سرما میں چائے اور کافی ان میں رکھی جاتی ہے۔ ان واٹر بوتلوں کی مقبولیت میں اضافہ کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں مگر طبی طور پر پلاسٹک کی بوتلوں سے مائیکرو پلاسٹک کے ذرات کے جسم میں داخل ہونے کے خدشات نے صارفین کو متبادل تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔موجودہ دور میں آپ کے دفتر کی میز پر یا آپ کے جم بیگ کے اندرایک دھاتی واٹر بوتل ضرور پائی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو سالہا سال تک ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے جان لیوا ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘ (Heavy Metal Poisning)کا خطرہ ہوتا ہے۔ماہرین کی طرف سے یہ انتباہ ایک افسوسناک واقعے کے بعد سامنے آیا ہے، جب تائیوان کا ایک شخص زہریلی دھات کے اثرات کے باعث نمونیا (یعنی پھیپھڑوں کی ایک مہلک بیماری) سے جاں بحق ہوگیا۔ میڈیا کے مطابق اس نامعلوم شخص کو تقریباً ایک سال سے مختلف طبی مسائل کا سامنا تھا، اور خون کے ٹیسٹ میں سیسے (lead) سے زہریلے پن کی تصدیق ہوئی۔جب ڈاکٹرز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ خون میں زہریلے مادے کی مقدار کیوں زیادہ ہو گئی ہے تو پتہ چلا کہ وہ شخص پچھلے دس سال سے ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال کر رہا تھا۔جب ڈاکٹروں نے اس بوتل کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی اندرونی تہہ خراب ہو چکی تھی اور اس پر زنگ کے آثار بھی موجود تھے۔ وہ شخص اسی تھرمس میں چائے، کافی اور سافٹ ڈرنکس سب کچھ رکھتا تھا۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ اس کی کولڈرنکس کو اس بوتل میں رکھنے کی عادت نے اس زہریلی دھات (سیسے)کو اس کے جسم کے اندر پہنچایا جس سے اس کی صحت کو بری طرح متاثر ہوئی۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس شخص کو سادہ پانی کے علاوہ کاربونیٹڈ ڈرنکس (کولڈڈرنکس)بھی اسی بوتل میں پینے کی عادت تھی، جس کی وجہ سے زہریلی دھات کی جسم میں مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ معالجین کے مطابق ممکن ہے کہ یہ بوتل طویل عرصے تک استعمال میں رہی ہو اور خاص طور پر جب اس میں کاربونیٹڈ مشروبات رکھے گئے ہوں تو اس سے زہریلے مادے پیدا ہوئے ہوں جو جسم میں داخل ہو گئے ہوں‘‘۔اگرچہ ڈاکٹرز اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ بوتل سے سیسہ کب خارج ہونا شروع ہوا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب مریض نے طبی مدد حاصل کی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود، وہ شخص نمونیا سے جانبر نہ ہو سکا۔ پھیپھڑوں میں ہونے والی سوزش کی مہلک بیماری کی تشخیص کے ایک سال کے اندر ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ہیوی میٹل پوائزننگ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘ اس وقت ہوتی ہے جب سیسہ، پارہ یا آرسینک جیسی زہریلی دھاتیں جسم میں خطرناک حد تک جمع ہو جاتی ہیں۔ ہیوی میٹل پوائزننگ کی وجہ سے جسم کے اہم اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔کوئی انسان ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب وہمسلسل دھاتوں کے زیر اثر رہے۔مخصوص اقسام کی مچھلی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور ماحولیاتی آلودگی اس کے ہونے کے اہم سبب ہیں۔ سیسے (lead) کے ذرات دماغی نشوؤنما کو متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ دیگر دھاتیں جان لیوا خون کے لوتھڑے پیدا کر سکتی ہیں اور بعض اقسام کے کینسر کے خطرات کو بھی بڑھا سکتی ہیں۔سیسے سے زہریلے پن کی علامات میں پیٹ میں درد، کپکپی، پانی کی کمی، تھکاوٹ، متلی، اور ہاتھوں یا پیروں میں سن یا جھنجھناہٹ کا احساس شامل ہے۔پلاسٹک کی بوتلوں اور مائیکروپلاسٹکس کے درمیان ممکنہ تعلق کے انکشاف کے بعد دھاتی واٹر بوتلوں کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رواں سال کے اوائل میں کینیڈا کے محققین نے انکشاف کیا تھا کہ اگر کوئی شخص پلاسٹک کی بوتلوں کے بجائے فلٹر شدہ نلکے کا پانی پینا شروع کر دے تو اس کی سالانہ مائیکروپلاسٹکس کی مقدار میں 90 فیصد کمی آ سکتی ہے۔ایک دوسری تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بعض انسانی دماغوں میں 7 گرام تک پلاسٹک پایا گیا ہے۔یہ ذرات پلاسٹک کی اشیاء کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے پیدا ہوتے ہیں، جو خوراک، پانی حتیٰ کہ ہوا کے ذریعے بھی انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔اگرچہ مائیکروپلاسٹکس کے انسانی صحت پر طویل مدتی اثرات اب تک پوری طرح واضح نہیں ہو سکے، لیکن ماہرین میں اس بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ اب ان سے مکمل بچاؤ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کی رپورٹعالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال تقریباً 10 لاکھ افراد سیسے کے زہریلے اثرات کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔لاکھوں دیگر افراد جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے روزانہ کی بنیاد پر اس زہریلی دھات سے متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ زندگی بھر صحت کے مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ ان مسائل میں خون کی کمی (anaemia)، بلند فشار خون (High Blood Pressure) اور تولیدی مسائل شامل ہیں۔ طبی ماہرین کا مشورہ طبی ماہرین نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ!٭...تمام لوگ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی دھاتی بوتل اعلیٰ معیار کے فوڈ گریڈ میٹریل سے بنی ہو، جیسے کہ سٹین لیس اسٹیل۔٭... انہیں باقاعدگی سے صاف بھی کیا جائے۔٭...ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ دھاتی بوتلوں کو تیزابی یا کاربونیٹڈ مشروبات جیسے فروٹ جوس یا کولڈرنکس کیلئے استعمال نہ کیا جائے ۔٭...ایسی بوتلوں کو دو سے تین سال مسلسل استعمال کرنے کے بعد ضائع کر دینا چاہیے۔ 

میٹا کا ویڈیو شیئرنگ فلسفہ بدل گیا

میٹا کا ویڈیو شیئرنگ فلسفہ بدل گیا

ٹیکنالوجی کی دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ جدت آ رہی ہے،آئے روز آنے والی تبدیلیاں اور متعارف کرائے جانے والے نت نئے فیچرز نہ صرف ان کے استعمال کے انداز بدل دیتے ہیں بلکہ مستقبل کی سمت کا بھی تعین کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تبدیلی حال ہی میں اس وقت سامنے آئی ہے جب معروف سوشل میڈیا کمپنی ''میٹا‘‘ نے اعلان کیا کہ اب فیس بک پر اپلوڈ کی جانے والی تمام ویڈیوز خود بخود ''ریلز‘‘ کی صورت میں شائع ہوں گی۔ اس اقدام کا مقصد بلا لحاظ ویڈیو کی قسم،مختصر، طویل یا لائیوفوراً ریلز کے زمرے میں شامل کرنا ہے تاکہ صارفین کیلئے ویڈیو کا تجربہ اور تخلیق آسان اور یکساں ہو جائے۔ اس سے پہلے سے موجود ویڈیوز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، صرف نئے اپ لوڈز اس تبدیلی کے زمرے میں آئیں گی۔ اس اقدام کو ماہرین، فیس بک کے ویڈیو پلیٹ فارم کے سب سے بڑے انقلابی قدم سے تعبیر کر رہے ہیں۔میٹا نے اپنے ایک اعلامیے میں اپنی اس بڑی تبدیلی کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ صارفین چاہیں مختصر ویڈیو اپلوڈ کریں یا طویل، حتیٰ کہ لائیو اسٹریم ہی کیوں نہ ہووہ اب ریلز کے طور پر ہی پوسٹ ہوگی۔ اس کے ساتھ فیس بک کا موجودہ ویڈیو ٹیب بھی ریلز کے نام سے جانا جائے گا، جس سے صارفین کو تمام ویڈیو مواد ایک ہی جگہ پر آسانی سے دستیاب ہو گا۔تبدیلی کی وجوہات مقاصد و خدشاتیہ اقدام میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ کے فیس بک کو '' مزید کلچرل اور پُراثر‘‘ پلیٹ فارم بنانے کے ویژن کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ دراصل میٹا کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت وہ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، با لخصوص انسٹاگرام اور فیس بک پر ویڈیو مواد کو مرکزی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ چونکہ ریلز انسٹاگرام پر کامیابی کا سبب بنیں، اب کمپنی اسی فارمیٹ کو فیس بک پر بھی پوری طرح لاگو کر کے ویڈیو تجربے کو یکساں اور مربوط بنانا چاہتی ہے۔ اس تبدیلی کے ذریعے صارفین کیلئے ویڈیو بنانامزید آسان ہوجائے گا۔انسٹاگرام ریلز کی کامیابی کو فیس بک پر بھی منتقل کیا جائے گا،میٹا شارٹ ویڈیو (جیسا کہ ٹِک ٹاک وغیرہ) کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرے گا۔تاہم، کچھ خدشات موجود ہیں، اگرچہ صارفین سابق زمرے میں ہی رہیں گے لیکن انہیں نیا ماحول قبول کرنے اور نئی تبدیلیوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ماہرین کا تجزیہڈیجیٹل میڈیا کے ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی صارفین کے رویّوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ آج کے دور میں لوگ مختصر اور دلچسپ مواد دیکھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور یوٹیوب شارٹس کی مقبولیت نے میٹا کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔میٹا کی یہ تبدیلی فیس بک کے ویڈیوز کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اگرچہ ہر نئی تبدیلی وقت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے، مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فیس بک ''ریلز‘‘ کا فروغ نوجوانوں، کاروباری اداروں اور تخلیق کاروں کیلئے پہلے سے زیادہ پرکشش بنائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صارفین اس نئی دنیا کو کس گرمجوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں۔اہم نکات اور خصوصیات90 سیکنڈ کی حد کا خاتمہاب ریلز کے دورانئے پر کوئی پابندی نہیں رہے گی۔ صارفین طویل دورانیے کی ویڈیوز بھی ریلز میں شامل کر سکیں گے۔نیا تخلیقی تجربہمیٹا نے صارفین کو ویڈیوز کے ایڈیٹنگ کیلئے جدید ٹولز فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ ہر ویڈیو زیادہ متاثر کن اور جاذبِ نظر ہو۔آڈیئنس سیٹنگہر ویڈیو اپلوڈ کے وقت صارف سے اس کی آڈیئنس کا تعین دوبارہ پوچھا جائے گا، جس سے صارف کو مزید کنٹرول حاصل ہوگا۔مرحلہ وار نفاذیہ تبدیلیاں آنے والے مہینوں میں دنیا بھر کے صارفین اور فیس بک پیجز پر بتدریج لاگو کی جائیں گی۔ صارفین کو ملنے والے فوائد٭...ویڈیو اپلوڈ کا عمل منفرد اور سادہ ہو گیا ہے،ایک ہی انٹرفیس میں تخلیق، ایڈٹ اور پبلش ممکن ہے۔٭...ویڈیوز کی لمبائی کی آزادی اور نئے ٹولز تخلیق کاروں کیلئے نئے مواقع پیدا کریں گے۔چاہیں ویڈیو پانچ منٹ ہو یا بیس، اب اسے ریلز میں آسانی سے شیئر کیا جا سکے گا۔٭...ایک ہی فارمیٹ میں تمام ویڈیوز دیکھنا اور شیئر کرنا آسان ہوگا۔٭...کاروباری ادارے اور برانڈز اپنی ویڈیو کو زیادہ مؤثر طریقے سے چلانے کے قابل ہوں گے۔٭...آپ کا سامع مکمل طور پر ویڈیو اپلوڈ کے وقت آپ کے قابو میں ہوگا۔٭... ویڈیوز، ریلز اور لائیوز کا تجربہ اب ایک ہی مربوط صفحے پر ہوگا۔