مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی
یہ 3 اپریل 1973ء کا ایک دن تھا جب ناسا کے زیر انتظام ''اپولو پروگرام‘‘ کے ایک سابق امریکی انجینئر جوئل اینجل، بیل لیبز نامی کمپنی کی لیبارٹری میں معمول کا کام کر رہے تھے جب ان کے لینڈ لائن فون پر گھنٹی بجی۔انہوں نے فون اٹھایا، ہیلو کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی، '' ہیلو جوئل‘‘۔ یہ آواز ''موٹورولا ‘‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر کی تھی۔
کوپر نے اپنے مخاطب اینجل کو فاتحانہ اور جذباتی انداز میں مخاطب کر کے کہا ،'' مسٹر اینجل ! کیا تم سوچ سکتے ہو کہ اس وقت میں تم سے ایک موبائل فون کے ذریعے بات کر رہا ہوں۔ایک حقیقی موبائل فون،ایک ایسا فون جسے ہاتھ میں تھامے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ آج سے لگ بھگ 51 سال پہلے دنیا کے سب سے پہلے موبائل فون کی وہ گفتگو تھی جو دو سائنسدانوں کے درمیان ہوئی تھی ، صرف یہی نہیں بلکہ فون پر بجنے والی یہ گھنٹی بھی کسی موبائل فون کے ذریعے پہلی گھنٹی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کا آئیڈیا دراصل دو کمپنیوں یعنی '' موٹورولا‘‘ اور '' بیل لیبز‘‘ کے ذہنوں میں ایک عرصہ سے چل رہا تھا اور دونوں کمپنیوں کے انجینئر ز سر توڑ کوششو ں میں مصروف تھے کہ انہیں ایک ایسے فون کی ایجاد تک رسائی میں کامیابی ہو جائے جو تاروں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو تاکہ اسے کہیں بھی باآسانی لے جایا جا سکے۔ چنانچہ اس مسابقتی جنگ میں 1973ء میں موٹورولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر پہل کرکے تاریخ کے پہلے '' موبائل فون موجد‘‘ کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپر کو '' موبائل فون کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
2010ء میں مارٹن کوپر نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا یا، میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ چونکہ ہم سو سال سے زیادہ عرصہ سے ایک تار کے ذریعے گھر یا دفتر کے فون سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ تھی کہ انسان بنیادی طور پر ایک متحرک مخلوق ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہمیں ایک ایسے آلے کی خواہش تھی جو ہماری ان خواہشات پر پورا اترتا ہو۔ ہم اپنی اس خواہش کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے تھے۔
ہم نے سب سے پہلے جو آلہ ایجاد کیا، وہ ایک چھوٹی سی ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس تھی،جسے ''کمیونیکیٹر‘‘کا نام دیا گیا۔یہ ڈیوائس تقریباً 4 انچ لمبی اور اس کا وزن آدھ کلوگرام تھا۔ اس کے ذریعے شروع میں صرف بیس منٹ تک بات ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی بیٹری کا دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا۔یہ پہلا فون اینٹ کی شکل کا ہوتا تھا جس میں ایک بڑا انٹینا لگا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔اگرچہ یہ دیکھنے میں کوئی خوبصورت اور پرکشش نہیں تھا، تاہم یہ ایک تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا تھا۔
میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 1973ء میں دنیا کے پہلے موبائل فون کی پہلی کال کی ایجاد اس قدر مقبول ہو جائے گی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون کی صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ شروع شروع میں یہ ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ تھا۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1983ء تک ایک موبائل فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو آج کل قدر کے حساب سے 10 ہزار ڈالر بنتے ہیں ( یعنی پاکستانی 27 لاکھ 92ہزار روپے تقریباً )۔
شروع شروع میں ان کی ٹیم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ہزار کے لگ بھگ پرزوں پر مشتمل فون کے حجم کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اس نئے فون کا ایک بڑا حصہ بھاری بھر کم بیٹری پر مشتمل تھا۔ اس بیٹری کا دورانیہ صرف 20 منٹ پر مشتمل تھا۔
اسی ا نٹر ویو میں مارٹن نے بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹورولا کمپنی کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچہ آیا تھا۔ اس وقت تک انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف 35سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا اور یہ کہ ٹوئٹر اور فیس بک نامی سہولتیں بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں مارٹن نے کہا موبائل فون بنانے کا ابتدائی مقصد تو ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے درمیان موثر رابطوں کو بہتر کرنا تھا لیکن ایسا ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن سگریٹ کی ڈبیہ جتنا یہ آلہ ہر عام و خاص کی جیب میں ہو گا۔
ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز ہوتے چلے گئے جن سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی چلی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیکی صلاحیتیں دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔یہاں تک کہ آج کے سمارٹ فونز میں بنکنگ سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی سہولت موجود ہے۔گویا آپ کا پرسنل اسسٹنٹ آپ کی جیب میں ہے اور تو اور آپ کا کیمرہ ، آپ کی سینما سکرین، آپ کا میوزک سسٹم آپ کا بیرو میٹر، تھرما میٹر ، میگنیومیٹر ، انفراریڈ سینسرز ، فنگر پرنٹ سینسرز ، سکینر سمیت اور بہت کچھ صرف آپ کے ایک '' ٹچ‘‘ کے تابع ہیں۔
موبائل فونز کے انٹر نیٹ کی رفتار میں بہتری کے بعد اب ان کی کمپیوٹیشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مثال کے طور پر اگر میڈیسن کے شعبے کی بات کریں تو دماغ کی سرجری میں آئی فون نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینی شروع کردی ہے جو انڈوسکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیو ز دکھاتے ہیں۔ یہی حال ویڈیو کالنگ کا ہے جو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی تشخیص کو ممکن بناتی ہے غرضیکہ موبائل فون کے استعمال اور سہولیات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ بادی النظر میں عقل اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سمارٹ فون نعمت تو ہے لیکن موبائل فون جس تیزی سے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگیوں کا جزولاینفک بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ خود اس کے خالق، مارٹن کوپر کو بھی نہ تھا ، تبھی تو اس نے ایک موقع پر کہا تھا ''لوگ ایک جنون کی طرح اس کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے، اگر ایسے میں ان پر کوئی گاڑی چڑھ دوڑے تو پھر افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔ آگے چل کر اسی انٹرویو میں مارٹن کوپر کہتے ہیں ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ موبائل فون ایسے استعمال ہو گا جیسے میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں‘‘۔