مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


یہ 3 اپریل 1973ء کا ایک دن تھا جب ناسا کے زیر انتظام ''اپولو پروگرام‘‘ کے ایک سابق امریکی انجینئر جوئل اینجل، بیل لیبز نامی کمپنی کی لیبارٹری میں معمول کا کام کر رہے تھے جب ان کے لینڈ لائن فون پر گھنٹی بجی۔انہوں نے فون اٹھایا، ہیلو کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی، '' ہیلو جوئل‘‘۔ یہ آواز ''موٹورولا ‘‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر کی تھی۔
کوپر نے اپنے مخاطب اینجل کو فاتحانہ اور جذباتی انداز میں مخاطب کر کے کہا ،'' مسٹر اینجل ! کیا تم سوچ سکتے ہو کہ اس وقت میں تم سے ایک موبائل فون کے ذریعے بات کر رہا ہوں۔ایک حقیقی موبائل فون،ایک ایسا فون جسے ہاتھ میں تھامے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ آج سے لگ بھگ 51 سال پہلے دنیا کے سب سے پہلے موبائل فون کی وہ گفتگو تھی جو دو سائنسدانوں کے درمیان ہوئی تھی ، صرف یہی نہیں بلکہ فون پر بجنے والی یہ گھنٹی بھی کسی موبائل فون کے ذریعے پہلی گھنٹی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کا آئیڈیا دراصل دو کمپنیوں یعنی '' موٹورولا‘‘ اور '' بیل لیبز‘‘ کے ذہنوں میں ایک عرصہ سے چل رہا تھا اور دونوں کمپنیوں کے انجینئر ز سر توڑ کوششو ں میں مصروف تھے کہ انہیں ایک ایسے فون کی ایجاد تک رسائی میں کامیابی ہو جائے جو تاروں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو تاکہ اسے کہیں بھی باآسانی لے جایا جا سکے۔ چنانچہ اس مسابقتی جنگ میں 1973ء میں موٹورولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر پہل کرکے تاریخ کے پہلے '' موبائل فون موجد‘‘ کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپر کو '' موبائل فون کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
2010ء میں مارٹن کوپر نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا یا، میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ چونکہ ہم سو سال سے زیادہ عرصہ سے ایک تار کے ذریعے گھر یا دفتر کے فون سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ تھی کہ انسان بنیادی طور پر ایک متحرک مخلوق ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہمیں ایک ایسے آلے کی خواہش تھی جو ہماری ان خواہشات پر پورا اترتا ہو۔ ہم اپنی اس خواہش کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے تھے۔
ہم نے سب سے پہلے جو آلہ ایجاد کیا، وہ ایک چھوٹی سی ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس تھی،جسے ''کمیونیکیٹر‘‘کا نام دیا گیا۔یہ ڈیوائس تقریباً 4 انچ لمبی اور اس کا وزن آدھ کلوگرام تھا۔ اس کے ذریعے شروع میں صرف بیس منٹ تک بات ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی بیٹری کا دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا۔یہ پہلا فون اینٹ کی شکل کا ہوتا تھا جس میں ایک بڑا انٹینا لگا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔اگرچہ یہ دیکھنے میں کوئی خوبصورت اور پرکشش نہیں تھا، تاہم یہ ایک تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا تھا۔
میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 1973ء میں دنیا کے پہلے موبائل فون کی پہلی کال کی ایجاد اس قدر مقبول ہو جائے گی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون کی صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ شروع شروع میں یہ ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ تھا۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1983ء تک ایک موبائل فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو آج کل قدر کے حساب سے 10 ہزار ڈالر بنتے ہیں ( یعنی پاکستانی 27 لاکھ 92ہزار روپے تقریباً )۔
شروع شروع میں ان کی ٹیم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ہزار کے لگ بھگ پرزوں پر مشتمل فون کے حجم کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اس نئے فون کا ایک بڑا حصہ بھاری بھر کم بیٹری پر مشتمل تھا۔ اس بیٹری کا دورانیہ صرف 20 منٹ پر مشتمل تھا۔
اسی ا نٹر ویو میں مارٹن نے بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹورولا کمپنی کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچہ آیا تھا۔ اس وقت تک انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف 35سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا اور یہ کہ ٹوئٹر اور فیس بک نامی سہولتیں بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں مارٹن نے کہا موبائل فون بنانے کا ابتدائی مقصد تو ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے درمیان موثر رابطوں کو بہتر کرنا تھا لیکن ایسا ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن سگریٹ کی ڈبیہ جتنا یہ آلہ ہر عام و خاص کی جیب میں ہو گا۔
ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز ہوتے چلے گئے جن سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی چلی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیکی صلاحیتیں دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔یہاں تک کہ آج کے سمارٹ فونز میں بنکنگ سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی سہولت موجود ہے۔گویا آپ کا پرسنل اسسٹنٹ آپ کی جیب میں ہے اور تو اور آپ کا کیمرہ ، آپ کی سینما سکرین، آپ کا میوزک سسٹم آپ کا بیرو میٹر، تھرما میٹر ، میگنیومیٹر ، انفراریڈ سینسرز ، فنگر پرنٹ سینسرز ، سکینر سمیت اور بہت کچھ صرف آپ کے ایک '' ٹچ‘‘ کے تابع ہیں۔
موبائل فونز کے انٹر نیٹ کی رفتار میں بہتری کے بعد اب ان کی کمپیوٹیشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مثال کے طور پر اگر میڈیسن کے شعبے کی بات کریں تو دماغ کی سرجری میں آئی فون نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینی شروع کردی ہے جو انڈوسکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیو ز دکھاتے ہیں۔ یہی حال ویڈیو کالنگ کا ہے جو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی تشخیص کو ممکن بناتی ہے غرضیکہ موبائل فون کے استعمال اور سہولیات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ بادی النظر میں عقل اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سمارٹ فون نعمت تو ہے لیکن موبائل فون جس تیزی سے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگیوں کا جزولاینفک بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ خود اس کے خالق، مارٹن کوپر کو بھی نہ تھا ، تبھی تو اس نے ایک موقع پر کہا تھا ''لوگ ایک جنون کی طرح اس کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے، اگر ایسے میں ان پر کوئی گاڑی چڑھ دوڑے تو پھر افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔ آگے چل کر اسی انٹرویو میں مارٹن کوپر کہتے ہیں ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ موبائل فون ایسے استعمال ہو گا جیسے میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
میٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل

میٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک انقلابی قدمموجودہ صدی کو اگر ''مصنوعی ذہانت‘‘کی صدی قرار دیا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ، اوپن اے آئی اور ایمازون، گزشتہ کئی برسوں سے اس میدان میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اب اس دوڑ میں میٹا (Meta) نے بھی ایک بڑا قدم اٹھایا ہے اور حال ہی میں کمپنی نے ایک نیا جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) ماڈل جاری کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ماڈل ''حقیقی دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت‘‘ رکھتا ہے۔یہ محض ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو زبان، تصویر، ویڈیو اور انسانی رویوں کو ایک جامع انداز میں سمجھنے اور اس پر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم میٹا کے اس ماڈل کی خصوصیات، ساخت، ممکنہ فوائد، استعمال اور چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔'' جنریٹیو اے آئی‘‘ کیا ہے؟سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ''جنریٹیو اے آئی‘‘ (Generative AI)کیا ہوتا ہے؟ یہ ایسی مصنوعی ذہانت ہوتی ہے جو نئی معلومات یا مواد تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ماڈلز صرف موجودہ ڈیٹا کو پڑھ کر فیصلے نہیں کرتے بلکہ وہ خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتے ہیں، جیسے کہ خودکار تحریر یا مضمون نویسی، تصاویر اور آرٹ ورک بنانا، موسیقی ترتیب دینا، ویڈیو یا اینی میشنز کی تخلیق، چیٹ یا مکالمہ کرنا (مثلاً چیٹ بوٹس)۔اوپن اے آئی کا ماڈل ''جی پی ٹی 4‘‘(GPT-4) یا گوگل کا Gemini اسی طرز کی ٹیکنالوجی کی مثالیں ہیں۔ اب میٹا نے بھی اپنی خاص شناخت کے ساتھ میدان میں قدم رکھا ہے۔میٹا کا ماڈل: منفرد پہلومیٹا کے اس نئے اے آئی ماڈل کی سب سے اہم اور منفرد خوبی اس کی ''حقیقی دنیا کی تفہیم‘‘ ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ ماڈل صرف الفاظ کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ یہ سیاق و سباق، انسانی رویہ، تصویری مناظر، آوازوں حتیٰ کہ حرکات و سکنات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسے ''ملٹی ماڈل‘‘ بھی کہا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ مختلف ذرائع (متن، تصویر، آڈیو، ویڈیو) سے معلومات لے کر ایک جامع فہم پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی ویڈیو میں ایک شخص کسی مخصوص جذباتی لہجے میں بات کر رہا ہو، تو یہ ماڈل صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ اس کے لہجے، چہرے کے تاثرات اور پس منظر کے حالات کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔تربیت اور ڈیٹامیٹا نے اس ماڈل کو لاکھوں گھنٹوں پر مشتمل آڈیو ویژول ڈیٹا، اربوں الفاظ پر مبنی ٹیکسٹ ڈیٹا اور لاکھوں تصاویر کے ذریعے تربیت دی ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مشاہداتی ماحول میں تربیت دی گئی ہے، یعنی یہ صرف ڈیٹا کو حفظ نہیں کرتا بلکہ اسے ''دیکھنے، سننے اور سمجھنے‘‘ کی مشق دی گئی ہے۔ اس ماڈل کی تربیت میں مختلف انسانی سرگرمیوں، روزمرہ کے مشاہدات، طبی صورتحال، تعلیمی مواد، سائنسی ڈیٹا اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ممکنہ استعمالمیٹا کے اس اے آئی ماڈل کا استعمال نہایت وسیع ہے، چند اہم شعبے درج ذیل ہیں۔ تعلیم : اساتذہ کیلئے خودکار تدریسی مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ طلباء کو ان کی ذہنی سطح اور دلچسپی کے مطابق سبق دیا جا سکتا ہے۔ صوتی اور بصری مواد کی مدد سے سیکھنے کا عمل مزید مؤثر ہو سکتا ہے۔ صحت کا شعبہ: ڈاکٹروں کو مریض کے مرض کا اندازہ لگانے میں معاونت، ایکسرے اور ایم آر آئی اسکین کی خودکار تشریح، ادویات کی تجاویز اور مریض کے سوالات کے فوری جوابات جیسی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ذرائع ابلاغ : اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں خودکار خبریں لکھنے، ویڈیوز کی تحریری خلاصہ بندی اور تجزیاتی رپورٹس کی تخلیق میں اس ماڈل سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ورچوئل رئیلٹی اور گیمنگ :ایسا مصنوعی کردار تخلیق کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف بات کرے بلکہ انسانی رویے کو محسوس کر کے جواب بھی دے۔ گیمز میں زیادہ فطری اور جذباتی کردار متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ ترجمہ اور زبان دانی : مختلف زبانوں کے بیچ درست اور معنوی ترجمہ ممکن ہو گا۔ علاقائی محاوروں، لہجوں اور ثقافتی انداز کو بہتر سمجھ کر ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ماہرین کی آرا : ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹا کا نیا ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نئی نسل کی شروعات ہے۔ ڈاکٹر ارمغان سلیم، جنہیں مصنوعی ذہانت میں عالمی سطح پر تحقیق کا تجربہ ہے، کہتے ہیں: ''یہ ماڈل نہ صرف مشین کی ذہانت کو انسان کے قریب لاتا ہے بلکہ اسے انسانی معاشرت میں ضم کرنے کی بنیاد بھی رکھتا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ''ایسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اخلاقی، سماجی اور قانونی پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ دینا ضروری ہے۔ بصورت دیگر یہ طاقت نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔خدشات اور چیلنجزجہاں یہ ٹیکنالوجی بے پناہ فوائد رکھتی ہے، وہیں اس کے کچھ سنجیدہ چیلنجز بھی ہیں۔ڈیپ فیک مواد: جعلی ویڈیوز، تصاویر یا آوازیں بنا کر گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلایا جا سکتا ہے۔پرائیویسی کا مسئلہ: اگر یہ ماڈل مشاہداتی ڈیٹا سے تربیت پاتا ہے تو اس میں ذاتی معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔روزگار کا خاتمہ: اگر انسانی کام اے آئی کرے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔سماجی تفریق: اگر یہ ٹیکنالوجی صرف چند طاقتور اداروں کے ہاتھ میں ہو تو غریب یا پسماندہ معاشروں کا استحصال بڑھ سکتا ہے۔حکومت اور پالیسی سازوں کی ذمہ داریضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں، تعلیمی ادارے اور پالیسی ساز ادارے اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات سے بچاؤ کیلئے قوانین، اخلاقی ضابطے اور تربیتی پروگرام متعارف کروائیں۔ ورنہ یہ ٹیکنالوجی ایک آفت بھی بن سکتی ہے۔نتیجہمیٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ صرف ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ مستقبل کی شکل بدلنے والا ایک انقلابی آلہ ہے۔ اگر اسے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم، صحت، میڈیا اور دیگر شعبوں میں ایک مثبت انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ تاہم اگر اس کی نگرانی اور قانون سازی نہ کی گئی، تو یہ معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو صرف حیرت انگیز ایجادات کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اس کی فکری، اخلاقی، اور سماجی اثرات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔ 

ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا سمندر کی تہہ سے شہر دریافت

ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا سمندر کی تہہ سے شہر دریافت

دنیا بھر میں ماہرین آثار قدیمہ اور سائنسدانوں کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث بننے والی ایک غیر معمولی دریافت سامنے آئی ہے۔جو انسان کی ابتدا کی کہانی کو از سرِ نو لکھ سکتی ہے۔ بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے انڈونیشیا کے قریب سمندر کی گہرائیوں میں ایک ایسا شہر دریافت کیا ہے جس کی عمر تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار سال بتائی جا رہی ہے۔ یہ شہر، جو جدید انسانی تاریخ سے بھی کہیں زیادہ قدیم ہے، سمندر کی سطح سے سینکڑوں میٹر نیچے واقع ہے۔یہ انکشاف جدید سونار ٹیکنالوجی اور زیر آب تحقیقاتی آلات کے ذریعے کیا گیا۔ سائنسدان بحرِ اوقیانوس کے ایک نسبتاً غیر دریافت شدہ حصے میں سمندری فرش کا معائنہ کر رہے تھے جب انہوں نے ایک منظم ڈھانچے کی نشاندہی کی۔ قریب جا کر جب مزید تحقیق کی گئی تو واضح ہوا کہ یہ کسی قدرتی چٹان یا تہہ کا حصہ نہیں بلکہ کسی قدیم انسانی تہذیب کا شہر ہے، جس میں گلیاں، عمارتوں کے آثار، اور ممکنہ عبادت گاہیں بھی شامل ہیں۔ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کی کھوپڑی جو انسان کے قدیم آباؤ اجداد میں سے ایک ہے۔ یہ کھوپڑی مادورا آبنائے (Madura Strait) میں جاوا اور مادورا جزیروں کے درمیان مٹی اور ریت کی تہوں کے نیچے محفوظ تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر دنیا کی پہلی مادی شہادت ہے۔ کھوپڑی کے ساتھ ساتھ محققین کو 6ہزار جانوروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں جو 36 اقسام سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں کوموڈو ڈریگن، بھینس، ہرن اور ہاتھی شامل ہیں۔ان میں سے کچھ ہڈیوں پر جان بوجھ کر کاٹے جانے کے نشانات تھے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابتدائی انسان ترقی یافتہ شکار کی حکمت عملی اپنا رہے تھے۔یہ دریافتیں قدیم انسانی زندگی اور اب گمشدہ ہوچکی سنڈا لینڈ کی زمینوں کے بارے میں نایاب بصیرت فراہم کرتی ہیں۔ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ابتدائی انسان ماحولیاتی تبدیلیوں کے جواب میں کس طرح کے رویے اور مطابقت پیدا کرتے تھے۔یہ فوسلز سب سے پہلے 2011ء میں سمندری ریت نکالنے والے مزدوروں کو ملے تھے۔ ماہرین نے حال ہی میں ان کی عمر اور نسل کا تعین کیا ہے، جو قدیم بشریات (paleoanthropology) کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔یہ دور اس خطے میں قدیم انسانی نسلوں کی جسمانی ساخت کی وسیع تنوع اور ان کی نقل و حرکت سے عبارت ہے۔ لیڈن یونیورسٹی (نیدرلینڈز) کے ماہر آثارِ قدیمہ ہیروڈبرغیوس (Harold Berghuis) جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی نے کہا کہ تقریباً سات سے 14ہزارسال قبل برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندر کی سطح میں 120 میٹر سے زیادہ اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں سنڈا لینڈ کے نشیبی میدان زیر آب آ گئے۔اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شہر واقعی ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا ہے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ انسانوں نے تہذیب یافتہ بستیوں کی بنیاد لاکھوں سال پہلے ہی رکھ دی تھی جو کہ اب تک کے تاریخی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس دریافت کو انسانی تاریخ کا ایک سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شہر واقعی ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ انسانوں نے تہذیب یافتہ بستیوں کی بنیاد لاکھوں سال پہلے ہی رکھ دی تھی جو کہ اب تک کے تاریخی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ڈاکٹر ایلینا میکفرسن جو اس تحقیقی ٹیم کی رکن ہیں کا کہنا ہے کہ ہمیں جو ڈھانچے ملے ہیں، وہ صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے آثار ہیں۔ اگر یہ واقعی انسانوں کا بنایا ہوا ہے تو ہمیں اپنی تاریخ ازسرِنو لکھنی پڑے گی۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ شہر کسی بڑی قدرتی آفت جیسے زلزلے، سونامی یا زمین کے ٹیکٹونک پلیٹس کی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر برد ہو گیا ہوگا۔ کچھ نظریات کے مطابق، ممکن ہے کہ یہ شہر اسی نوعیت کی کوئی ''افسانوی بستی‘‘ ہو جسے زمانہ قدیم میں ''اٹلانٹس‘‘ جیسے قصے کہانیوں میں بیان کیا گیا تھا۔ممکنہ وجوہاتسائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ شہر کسی بڑی قدرتی آفت جیسے زلزلے، سونامی یا زمین کے ٹیکٹونک پلیٹس کی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر برد ہو گیا ہوگا۔ کچھ نظریات کے مطابق، ممکن ہے کہ یہ شہر اسی نوعیت کی کوئی ''افسانوی بستی‘‘ ہو جسے زمانہ قدیم میں اٹلانٹس جیسے قصے کہانیوں میں بیان کیا گیا تھا۔اگلے مراحلماہرین اب اس مقام سے مزید نمونے جمع کر رہے ہیں تاکہ کاربن ڈیٹنگ اور دیگر سائنسی تجزیات کے ذریعے اس شہر کی اصل عمر اور تہذیبی حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔ اگر یہ نتائج تصدیق شدہ نکلتے ہیں تو نہ صرف انسانی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے، بلکہ اس دریافت سے ہماری سائنسی، مذہبی اور تہذیبی سوچ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

خون عطیہ کرنے کا عالمی دنہر سال 14جون کوخون عطیہ کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنا خون دوسروں کی زندگی بچانے کیلئے عطیہ کرتے ہیں۔دراصل یہ دن کارل لینڈسٹائنر کی یاد میں منایا جاتا ہے جس نے خون کے گروپ دریافت کرنے کے ساتھ اس تھیوری کی بنیاد رکھی تھی کہ ایک جیسے بلڈ گروپ آپس میں ملائے جا سکتے ہیں۔ کارل کی اس تھیوری کی بنا پر ایک ہی گروپ کے خون کو ملانے کا کامیاب تجربہ 1907ء میں نیویارک میں کیا گیا۔برطانیہ میں بدترین آتشزدگی14 جون 2017ء کو ویسٹ لندن میں واقع 24منزلہ رہائشی عمارت گریفل ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی۔اس خوفناک حادثے میں 72افراد ہلاک ،70زخمی جبکہ223افراد اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ یہ 1988ء کے پائپر الفا آئل پلیٹ فارم کی تباہی کے بعد برطانیہ میں سب سے مہلک آتشزدگی تھی جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں لگنے والی سب سے بدترین رہائشی آگ تھی۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ آگ چوتھی منزل پر موجود فریج میں خرابی کی وجہ سے لگی۔آگ تقریباً60گھنٹے تک لگی رہی، لندن فائر بریگیڈ کے 250 سے زیادہ فائر فائٹرز اور 70 فائر انجن آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شامل تھے۔امریکہ کا ''یوم پرچم‘‘ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 14 جون کو ''یوم پرچم‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن 14 جون 1777ء کو دوسری کانٹی نینٹل کانگریس کی قرارداد کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ کے جھنڈے کو اپنانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں کافی عرصے تک یہ دن نہیں منایا جاتا تھا لیکن جیسے جیسے امریکہ کی ریاستوں میں پرچم کو اپنا یا جاتا رہا اس کے ساتھ ساتھ یہ دن بھی وہاں منایا جانے لگا۔ویسے تو تمام اقوام اپنے جھنڈے سے عقیدت رکھتی ہیں لیکن امریکہ رہائشی یوم آزادی کے علاوہ عام حالات میں بھی اپنے گھر کے باہر جھنڈا لگا کر رکھتے ہیں۔ 

تاشقند چار سو بازار

تاشقند چار سو بازار

چار سو ُبازار نہ صرف ازبکستان بلکہ پورے سنٹرل ایشیا میں ایک قدیم اور سب سے بڑا بازار ہے۔یہ بازار تاشقند شہر کی مرکزی شارع البیرونی کے کنارے تاریخی مدرسہ ککلداش اور مشہور خوبصورت ہوٹل چار سو کے قریب واقع ہے۔یہ بازار ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔اس بازار کے گنبد کا قطر 1148 فٹ ہے جو درمیان میں بغیر کسی ستون کے کھڑا ہے۔اتنے بڑے قطر کا گنبد سارے وسطی ایشیاء میں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ گنبد کے اوپر ہلکے فیروزی رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے خوبصورت بیل بوٹے بنائے گئے ہیں۔اس خوبصورت گلکاری کو دیکھ کر انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ مہارت کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔یہ بازار تین منزلہ ہے جبکہ ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے۔پہلی منزل کے سارے فلور پر دائروں کی شکل میں کاؤنٹر بنائے گئے ہیںجو کہ ماربل کے پتھر سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس منزل میں تازہ سبزیاں، فروٹ، گوشت، دودھ، دہی،پنیر اور ان سے بنی ہوئی دوسری اشیاء دستیاب ہیں۔گرم گرم تازہ نان، شہد اور گرم مصالحے بھی اسی فلور پر فروخت ہوتے ہیں۔اوپر کی منزل پر ہرطرح کا ڈرائی فروٹ جن میں کشمش،خشک خوبانی، بادام، اخروٹ، پستہ ڈھیروں کی شکل میں گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔چار سُو بازار شہر کے وسطی حصہ میں واقع ہے۔ یہاں پر بس،ٹرام،میٹرو اور ٹیکسی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے لیکن ان میں تاشقند میٹرو باکفایت، آرام دہ اور کم وقت لینے والا بہترین ذریعہ ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے سے آپ میٹرو میں سوار ہو جائیں دس پندرہ منٹ بعد آپ چار سُو میٹرو سٹیشن پر ہوں گے جوکہ زیر زمین ہے۔جب آپ میٹرو سٹیشن سے باہر آئیں گے تو چارسُو بازار آپ کے سامنے ہوگا۔بڑے میدان کی ایک طرف ازبک بازیگر اپنے شاندار کرتبوں سے حاضرین کو محظوظ کر رہے ہوں گے۔اس بازار کے اندر اور باہر کم وبیش ایک ہزار دکانیں موجود ہیں۔ فرنیچر، لباس، قالین، بچوں کے جُھولے،دلہا دلہن کے عروسی لباس بھی دستیاب ہیں۔سوونیئر سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے چار سُو بازار بہترین جگہ ہے۔چائے خانے بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ چار سُو بازار اس علاقے کے آئینہ کی طرح ہے جہاں ایک ہی جگہ آپ کو شہر کی ثقافت بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔اگر آپ کسی مشرقی بازار کو حقیقی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہوں تو چار سُوبازار آپ کا صحیح انتخاب ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بازنطین فوج کی شکستپیلی کانون کی جنگ، جسے لاطینی زبان میں ''پیلی کانم‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا آغاز10 جون 1329ء کو ہوا۔ بازنطینی لشکر کی قیادت اینڈرونکس سوئم جبکہ عثمانی فوج کی قیادت اورہان اوّل کر رہے تھے۔اس جنگ میں شروع سے ہی عثمانی افواج کا پلڑا بھاری رہا اور بازنطینی افواج کو عثمانی دستے کے ہاتھوں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی افواج نے اناطولیہ کے کئی شہروں کا محاصرہ کر لیا اور جنگ کے اختتام پر ان شہروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔اس جنگ کے بعد بازنطینی افواج نے اپنے علاقے عثمانی فوج کے قبضے سے چھڑوانے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ سبلات کی جنگسبلات کی جنگ 10 جون 1619ء کو 30 سالہ جنگ کے بوہیمیا دور میں شروع ہوئی۔ یہ جنگ رومن کیتھولک امپیریل فوج اور پروٹسٹنٹ افواج کے درمیان لڑی گئی۔ رومن کتیھولک افواج کی سربراہی چارلس بوناوینچر ڈی لونگووال کر رہے تھے جبکہ ارنسٹ وان مینسفیلڈ پروٹسٹنٹ فوج کی قیادت کر رہے تھے۔کیتھولک افواج کی جانب سے بوکوائے کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن پروٹسٹنٹ افواج نے انہیں بڈجووائس کے تقریباً25کلومیٹر شمال مغرب کے چھوٹے سے گاؤں کے قریب روک لیا اور انہیں جنگ کے میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی بوٹ ریسبوٹ ریس کیمبرج یونیورسٹی بوٹ کلب اور آکسفورڈ یونیورسٹی بوٹ کلب کے درمیان روئنگ ریس کا ایک سالانہ کھیل ہوتا ہے۔ اسے یونیورسٹی بوٹ ریس اور آکسفورڈ اور کیمبرج بوٹ ریس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مردوں اور عورتوں کے الگ الگ مقابلے ہوتے ہیں، ساتھ ہی ریزرو عملے کیلئے بھی مقابلے رکھے جاتے ہیں۔ مردوں کا پہلا مقابلہ10جون 1829ء میں منعقد ہوا تھا اور 1856ء سے ہر سال منعقد ہوتے رہے ہے۔ سوائے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں اور 2020ء میںCovid-19 وبائی مرض کے دوران۔ خواتین کا پہلا ایونٹ 1927ء میں ہوا تھا اور ریس 1964ء سے ہر سال منعقد کی جارہی ہے۔  

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع نوم پنہ نہ صرف کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی کا مرکز بھی ہے۔ میکانگ اور ٹونلے سپ جیسی عظیم ندیوں کے کنارے آباد یہ شہر ایک جانب اپنے شاندار تاریخی ورثے کی یاد دلاتا ہے، تو دوسری جانب تیزرفتار شہری ترقی اور جدید طرزِ زندگی کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ نوم پنہ وہ مقام ہے جہاں بدھ مت کے قدیم مندروں کی گھنٹیاں، فرانسیسی نوآبادیاتی عمارتوں کی شان و شوکت اور جدید فلک بوس عمارتوں کی چمک ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ یہ شہر نہ صرف کمبوڈیا کی تاریخ کا امین ہے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی امید بھی ہے جہاں روایت اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔نوم پنہ کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، جب یہ خمر سلطنت کے زوال کے بعد دارالحکومت بنایا گیا۔ شہر کا نام ''نوم دا پین‘‘ (پین پہاڑی) پر تعمیر شدہ ایک بدھ مندر سے ماخوذ ہے، جو آج بھی ''وات نوم‘‘ کے نام سے ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانسیسی اثرات نے شہر کی ساخت اور فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے، جو آج بھی فرانسیسی عمارتوں اور وسیع شاہراہوں میں نظر آتے ہیں۔نوم پنہ کمبوڈیا ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔یہ شہر 1970 کی دہائیوں میں جنگ و جدل کے دوران بری طرح تباہ و برباد ہوگیا تھااور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی جنوبی چین کے سمندری راستے کے ذریعے اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چائنا کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔نوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کردئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے نوم پنہ یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کیلئے گوتم بدھ کے مندر (Temples) اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Angkor Thumکو اپنا گڑھ بنالیا۔نوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہیں کے زیرتسلط رہا۔ 1970ء کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کیلئے کام کیے۔ لہٰذا 1980ء میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔نوم پنہ آج ایک جدید اور متحرک شہر بنتا جا رہا ہے۔ شاندار عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل اور کیفے، اس کی تیز رفتار ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم، تیز شہری ترقی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ماحولیاتی مسائل اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔شہر میں سیاحوں کیلئے کئی پرکشش مقامات موجود ہیں، جن میں شاہی محل، نیشنل میوزیم، چیونگ ایک قتل گاہ (Killing Fields)، اور تل سلینگ میوزیم خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مقامات کمبوڈیا کی شاندار تاریخ اور خونی ماضی دونوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی رقص، کھمر موسیقی اور مقامی کھانوں سے بھرپور بازار سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔نوم پنہ صرف ایک دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ کمبوڈیا کی روح کا عکاس ہے۔ یہاں ماضی کی گونج اور حال کی تپش ایک ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ شہر کو کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کی توانائی، ثقافت اور عوام کی مہمان نوازی اسے جنوب مشرقی ایشیا کے نمایاں شہروں میں شامل کرتی ہے۔