یادرفتگاں ’’اک بات کہوں دلدارہ…‘‘ اے نیئر :سریلی آواز والے گلوکار
بطور پلے بیک سنگر منفرد مقام بنایا،آواز کا سحر آج بھی برقرار
70ء کی دہائی میں بطور پلے بیک سنگر منفرد مقام بنایا، غزل گائیکی کے بھی ماہر، گلوکار اے نیئر کو اپنے مداحوں سے بچھڑے سات سال بیت گئے، مگر ان کی سُریلی آواز ہمیشہ لوگوں کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔اے نیئر وہ خوش نصیب فنکار تھے ،کامیابی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی جن کا مقدر ٹھہری،1974ء میں فلم ''بہشت‘‘ کیلئے پہلا گیت گایا اور راتوں رات سٹار بن گئے۔
گلوکار اے نیئر 17 ستمبر 1950ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام آرتھر نیئر تھا تاہم انھوں نے اے نیئر کے نام سے شہرت پائی۔ انھیں بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پس پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیئر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔
اے نیئر پاکستان معروف غزل گائیک اور پلے بیک سنگر تھے۔ 70ء کی دہائی کے ان تین گلوکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بعد ازاں فلمی دنیا میں اپنا منفرد نام بنایا دیگر دو گلوکاروں میں اخلاق احمد اور غلام عباس شامل ہیں۔ان کا پہلا فلمی گیت ''یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ ہے۔ یہ ڈوئٹ گیت تھا جو انہوں نے گلوکارہ روبینہ بدر کے ساتھ فلم ''بہشت‘‘ کیلئے گایا تھاجو 1974ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم ''خریدار‘‘ کا تھا جس کے بول تھے، ''پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا‘‘۔
اے نیئرکا شمار گلوکار وں کی اس لڑی میں ہوتا ہے جنہوں نے باقاعدہ موسیقی کی ابتدائی تعلیم ماہر اساتذہ سے لی اور اس دور میں شہرت حاصل کی جب صلاحیتوں کے اظہار کا واحد ذریعہ ریڈیو اور ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں کریم شہاب الدین، نثار بزمی، اے حمید، ایم اشرف، نوشاد اور ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ کام کیا۔ اے نیئر کے گائے ہوئے زیادہ تر گیت اداکار ندیم اور وحید مراد پر عکسبند ہوئے۔انہوں نے تقریباً 80فلموں کیلئے گیت ریکارڈ کروائے۔ ان کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا اور ان سے قبل جن عیسائی فنکاروں نے شہرت حاصل کی ان میں سلیم رضا، ایس بی جان اور ارینے پروین شامل ہیں۔
اُس دور میں فلم، ٹی وی اور ریڈیو سمیت سب جگہ معیاری میوزک اچھی شاعری کیساتھ کمپیوز ہوا اور ساری دنیا میں ہٹ ہوا۔ ستر اور اسی کی دہائیوں میں انہوں نے کئی لازوال گیتوں کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔1980ء میں اے نیئر اپنے کرئیر کے عروج پر تھے اور انھوں نے پلے بیک سنگنگ میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا۔ان کا فلم ''خریدار‘‘ کیلئے گایا ہوا گیت''پیار تو ایک دن ہونا تھا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ ان کے دیگرمقبول گیتوں میں ''بینا تیرا نام‘‘، '' یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ''ایک بات کہوں دلدارا‘‘، ''میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘، ''جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے‘‘ شامل ہیں۔ اے نیئر مشہور گلوکار احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔اے نیئر ان دنوں لاہور میں موسیقی کی ایک اکیڈمی چلا رہے تھے۔
اے نیئر کے فلموں میں گائے گیت بے حد مقبول ہوئے اور اسی وجہ انھوں بہترین گلوکار کی حیثیت سے پانچ مرتبہ نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔ انہوں نے 1979ء ، 1985ء، 1989ء اور1991ء میں بہترین پس پردہ گلوکار کا نگار ایوارڈ جیتا۔ اے نیئر غزل گائیکی میں بھی مشہور تھے۔ 2016ء میں یہ سریلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی مگر موسیقی کیلئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔