یادرفتگاں: خیام سرحدی، ہر دلعزیز اداکار

اسپیشل فیچر
1980ء کی دہائی میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ پاکستانی ٹی وی ڈرامے بھارت میں بہت مقبول ہیں اور ان ڈراموں کے معیاری ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ پونا انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان کے ٹی وی ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ پونا انسٹی ٹیوٹ فلم کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر ادارہ ہے۔ بھارت کے کئی معروف اداکاروںنے اسی انسٹی ٹیوٹ سے تربیت حاصل کی اور بعد میں اپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا۔ بعد میں کئی فنکاروں نے پونا انسٹی ٹیوٹ میں انسٹرکٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے۔ پاکستان میں چونکہ کبھی کسی فلم اکیڈمی کا قیام عمل میں نہیں آیا، لیکن یہ کمی ٹی وی نے پوری کردی۔ پاکستان میں ٹی وی ہی فنکاروں کی اکیڈمی تھا اور ہے۔ ہمارے فنکاروں نے خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ہر جگہ اپنی شہرت کا ڈنکا بجایا۔ اگر ٹی وی فنکاروں کا ذکرکیا جائے، تو ایک بہت لمبی فہرست ہے، جس میں ماضی اور حال کے وہ ٹی وی فنکار شامل ہیں، جن کی شہرت کا آفتاب پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ مرد فنکاروں میں بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں، لیکن آج ہم اپنے قارئین کو ایک ایسے فنکار کے بارے میں بتائیں گے، جس نے اپنی منفرد اداکاری کی وجہ سے انمٹ نقوش چھوڑے۔ اس فنکار کی انوکھی اداکاری نے لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس کا نام تھا، خیام سرحدی۔
خیام سرحدی فلم، ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج کے ہر دلعزیز اداکار اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے کی پہچان تھے۔ اپنے کردار کو اس خوبصورتی سے نبھاتے تھے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے تھے، آج ان کی 14ویں برسی ہے۔
خیام سرحدی پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور مصنف و ہدایتکار ضیاء سرحدی کے صاحبزادے اور موسیقار رفیق غزنوی کے نواسے تھے۔ ضیا سرحدی نے بھارتی فلم انڈسٹری میں بطور کہانی نگار،شاعر اور ڈائریکٹر بہت نام کمایا جبکہ رفیق غزنوی کا شمار بالی وڈ کے معروف میوزک ڈائریکٹروں میں ہوتا تھا۔ان کی والدہ طاہرہ غزنوی بھی رائٹر تھیں۔
1948ء میں ممبئی میں پیدا ہونے والے خیام سرحدی نے جب ہوش سنبھالا تو وہ کراچی آ گئے۔ کچھ عرصہ کراچی میں قیام کرنے کے بعد خیام سرحدی کا خاندان لاہور آ گیا۔ خیام سرحدی چھوٹی عمر میں ہی شوبز سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے امریکا سے سینماٹو گرافی میں ماسٹر کیا۔ پہلے انہوں نے تھیٹر میں بطور اداکار اور ہدایتکار کام کیا۔بعد میںسرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں حصہ لیا۔ انہوں نے ان گنت ڈراموںمیں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ڈراموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ کچھ فلموں میں بھی کام کیا، جن میں ''بول، جناح اور بلڈ آف حسین‘‘ شامل ہیں۔
خیام سرحدی نے طویل دورانیہ کے ڈراموں میں بھی یادگار اداکاری کی۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ''انوکھا لاڈلا، ڈیڈی، دیپ سے دیپ چلے، غلام گردش، من چلے کا سودا، منزل، مرزا اینڈ سنز، پرندہ، سورج کے ساتھ ساتھ اور وارث‘‘ شامل ہیں۔ اصغر ندیم سید کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل''غلام گردش‘‘ میں ان کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ بانو قدسیہ کے طویل دورانیے کا کھیل ''فٹ پاتھ کی گھاس‘‘ ایک عدیم النظیر ڈرامہ تھا جسے محمد نثار حسین نے ڈائریکٹ کیا تھا۔محمد نثار حسین کو طویل دورانیے کے ڈراموں کی ہدایات دینے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کے بے شمار ڈرامے ایسے ہیں، جو کلاسک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ''فٹ پاتھ کی گھاس‘‘ میں یوں تو سبھی فنکاروں نے شاندار اداکاری کی، لیکن اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ بندیا اور خیام سرحدی کا فن اس ڈرامے میں اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔
خیام سرحدی کا مکالمہ بولنے کا انداز بھی سب سے الگ تھا۔ وہ دھیمے انداز میں بولتے تھے اور پھر چہرے کے تاثرات سے وہ سب کچھ بیان کر دیتے تھے، جو اُن کے دل میں موجود ہوتا تھا۔ خیام سرحدی کو فن ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد ضیا سرحدی ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خیام سرحدی نے اپنے والد کی توقیر میں اضافہ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک عظیم باپ کے عظیم بیٹے تھے۔ وہ بڑے ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے فن کی جتنی خدمت کی اس پر ان کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے بے شمار ایوارڈ حاصل کیے، جن میں سرکاری ٹی وی کا نیشنل ایوارڈ، نگار ایوارڈ اور دوسرے شامل ہیں۔1991ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ وہ ان فنکاروں میں شامل ہیں، جنہوں نے نسبتاً کم عمر میں پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا۔
خیام سرحدی نے دوشادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی عطیہ شرف تھیں، جو خود ٹی وی اور فلم کی آرٹسٹ تھیں۔ یہ شادی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ ان کی دوسری شادی اداکارہ صاعقہ سے ہوئی،جو کامیاب ثابت ہوئی۔ خیام سرحدی کی چار بیٹیاں ہیں۔ وہ ماڈل و اداکارہ ژالے سرحدی کے چچا تھے۔ خیام سرحدی ہمیشہ اس بات پر نازاں رہے کہ وہ ضیا سرحدی کے فرزند اور رفیق غزنوی کے نواسے ہیں۔اس خاندان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کا کہنا ہے کہ خیام سرحدی کو جو کردار دیا جاتا تھا، وہ اس میں ڈوب جاتے تھے۔وہ اکثر کہتے تھے کہ وہ اپنے ہر کردار کو یادگار بنانے کی آرزو مندہیں۔ کردار جتنا مشکل ہوتا تھا ،اتنا ہی وہ اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک بڑے فنکار کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر مشکل کردار کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے۔ خیام سرحدی جیسے فنکار بھی مشکل کردار کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے تھے اور پھر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے تھے۔
3فروری 2011ء کو خیام سرحدی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 62 برس تھی۔ انہوں نے اپنے فن کا جو خزانہ چھوڑا ہے، آج کے نوجوان فنکار اس سے پوری طرح استفادہ کر رہے ہیں۔پاکستانی ٹی وی ڈراموںکی تاریخ میں خیام سرحدی کا نام تادیر یاد رکھا جائے گا۔