پیٹرادنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک

اسپیشل فیچر
1812ء میں سوئٹزر لینڈ کا ایک مہم جو جان برک ہارڈ(Johann Ludwig Burckhardt) ایک عرب سوداگر کا بھیس بدل کر اردن کے قدیم شہر میں سے گزرا۔ جب وہ قدیم آدم کی پہاڑیوں کے نزدیک پہنچا تو اس نے ان کہانیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک حقیقت کی شکل میں دیکھا جو اس نے بدوئوں سے زمین میں دفن ہو جانے والے شہر کے متعلق سنی تھیں۔
برک ہارڈ اس جگہ جانے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس جگہ سے وابستہ قدیم داستانوں سے واقف تھا، اس لئے اس نے اس بنا پر اجازت حاصل کی کہ وہ ایرون کے مندر میں ایک قربانی دینا چاہتا ہے۔ پہاڑوں کے ایک تنگ درے سے گزر کر ''برک ہارڈ‘‘ مندروں اور گنبدوں کے اس خوبصورت شہر میں پہنچا جو چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اس شہر کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا اور یوں اس نے پیٹرا کا قدیم شہر دوبارہ دریافت کیا، جس کے اصل مقام کو مغربی دنیا کے لوگ ایک ہزار سال قبل بھلا چکے تھے۔
پیٹرا جنوبی اردن کے چٹانی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ شہر ایک آئوٹ ڈور میوزیم کی مانند لگتا ہے۔ قسطنطنیہ، مصری، رومی اور یونانی طرز تعمیر کا امتزاج یہ شہر دیگر قدیم شہروں سے بڑا منفرد نظر آتا ہے۔ اس کی بنیاد نباتینز نے رکھی جو کہ عرب تھے۔ دیگر قدیم شہروں کی طرح پیٹرا کی معیشت کا دارومدار بھی تجارت پر تھا۔ قدیم نباتینز نے تقریباً 300قبل مسیح میں اس شہر کو چٹانوں کو تراش کر بنایا۔ اس وقت پیٹرا پہاڑ کی نوکیلی چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اصل میں یہ شہر مشرق وسطیٰ کے قدیم راستوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اونچے پہاڑوں میں سے گزر کر یہ ہی وہ راستہ تھا جہاں سے گزر کر عربوں کے تجارتی قافلے بحیرہ روم اور بحیرہ اسود پہنچا کرتے تھے اور ان عربوں (نباتینز) کی کمائی کا اصل ذریعہ تجارتی راستوں کی حفاظت سے حاصل ہونے والا ٹول ٹیکس تھا۔
پیٹرا کی ایک اور اہمیت یہ تھی کہ یہاں پانی کثرت سے تھا جو ان قافلوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔ جلد ہی یہ شہر ایک عظیم تجارتی مرکز اور نباتی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔ یہ سلطنت 106ء تک قائم رہی پھر رومیوں نے پیٹرا کو فتح کر لیا۔ رومی سلطنت کے ایک صوبے کی حیثیت سے پیٹرا کی اہمیت کچھ عرصہ قائم رہی۔ اس لئے اس کے طرز تعمیر پر رومیوں کا بہت گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جب رومیوں نے دیگر تجارتی راستوں کو ترقی دی تو اس شہر کی اہمیت آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں یہ شہر بالکل ویران ہو گیا۔ آخر کار 8ویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک خوفناک زلزلے کے نتیجے میں یہ عظیم الشان شہر مکمل طور پر زمین کے نیچے دفن ہو گیا۔
اب اس شہر کے جو کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں اس کے مطابق اس میں داخلے کیلئے ایک تنگ گھاٹی سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ 5میٹر چوڑی اور 200 میٹر بلند ہے۔ بہت سے مندر اور گنبد جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اب تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور''کیشنی‘‘ ہے جو پیٹرا تک جانے والے تنگ درے''سق‘‘ کے اندرونی سرے کی مخالف سمت میں بنا ہے۔
پہلی صدی قبل مسیح میں بننے والی یہ عمارت کیشنی کی دو منزلیں ہیں۔ نچلی منزل کی طرز تعمیر یونانی مندروں جیسی ہے جس کے اوپر کے حصے میں مثلث نما ستون نظر آتے ہیں۔ چٹانوں کو کھود کر اس یادگار پر دلکش نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ کیشنی کی مرکزی عبادت گاہ202 مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے کمرے ہیں جو راہبوں کیلئے مخصوص تھے۔
کیشنی ایک مندر ہے اور اس کا ایک گنبد بھی ہے۔ اس لفظ کا عربی مفہوم''خزانہ‘‘ ہے۔ مقامی بدوئوں کا خیال تھا کہ اوپر کے مرکزی ہال میں جو خاکدان بنا ہوا ہے اس میں ایک مصری فرعون کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کئی بدوئوں نے خزانہ حاصل کرنے کیلئے اس خاکدان پر گولیاں چلائیں تاکہ اسے توڑا جا سکے۔ پیٹرا میں داخلے والی تنگ گھاٹی سے آگے کئی ستونوں والے مقبرے ہیں۔ آگے کی طرف جائیں تو ایک تھیڑ آتا ہے جو چٹانوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا اس کی تعمیر پہلی صدی قبل مسیح میں ہوئی۔
تھیڑ سے آگے کئی مقبرے ہیں۔ یہیں ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرتے ہوئے ایک گھنٹہ کی پیدل مسافت پر قدیم عبادت گاہ ہے جو رومیوں کے عہد میں بنائی گئی تھی۔ اس سے بھی اوپر قربان گاہ ہے جہاں کئی درزیں بنی ہیں جن کے ذریعے قربانی کے جانوروں کا خون نیچے گرایا جاتا تھا۔ پیٹرا سے جنوب کی طرف وسیع و عریض صحرائی لینڈ سکیپ ہے جسے وادی روم کہا جاتا تھا۔ یہاں بدو قبائل آباد ہیں۔