قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جو رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ امتِ مسلمہ نے اس مقدس کتاب کی حفاظت و اشاعت کے لیے بے مثال کوششیں کی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کو حفظ اور کتابت دونوں صورتوں میں محفوظ کیا‘ بعد ازاں خلفائے راشدین نے قرآن کریم کو ایک مرتب و مستند کتابی صورت میں امت کے لیے محفوظ کر دیا۔ہر دور کے مسلمانوں نے قرآن کریم کی انتہائی خوبصورت خطاطی کا اہتمام کیا۔ خلفائے عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ دور میں قرآنی خطاطی اپنے عروج پر رہی۔ فنِ تذہیب اور خطاطی کی مدد سے قرآنی نسخوں کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا جاتا تھا تاہم نوآبادیاتی دور میں اسلامی ثقافتی ورثہ انحطاط کا شکار ہوگیا اور قرآنی خطاطی کی تابندہ روایت برقرار نہ رہ سکی۔ مغلیہ دور کے بعد قرآنی خطاطی کی سرکاری سرپرستی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی یوں برصغیر میں قرآن مجید کے خوبصورت خطاطی شدہ نسخے تیار کرنے کی روایت کمزور پڑ گئی نتیجتاً مقامی سطح پر ''نسخِ ہندی‘‘ نامی ایک سادہ خط رائج ہو گیا جو جمالیاتی اعتبار سے دیگر مسلم دنیا کے معیار سے کم تر تھا۔یہی احساس' مصحفِ پاکستان پراجیکٹ ‘کی بنیاد بنا۔ اس منفرد منصوبے کا مقصد قرآن کریم کو اعلیٰ ترین اسلامی خطاطی، تذہیب کاری اور فنونِ لطیفہ کی روایت کے مطابق تخلیق کرنا ہے۔اس کام کا آغاز نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے فارغ التحصیل فنکار نصیر احمد بلوچ کی کاوشوں سے ہوا اور معروف خطاط عرفان احمد قریشی (سلطان رقم) بھی اس کا حصہ بن گئے۔ مصحفِ پاکستان کی منفرد خصوصیات میںاعلیٰ ترین فنِ خطاطی، خطِ ثلث اور خطِ نسخ کا حسین امتزاج، نیزیاقوت مستعصمی، احمد قرہ الحصاری اور عبدالباقی حداد جیسے اساتذہ خطاط کے طرزِخطاطی سے استفادہ اور عہدِ عثمانیہ کے خطاطوں کے اندازِ کتابت کی جھلک دکھانا شامل ہے۔روایتی تذہیب اور پائیداری اس میںبرصغیر کے روایتی اسلامی فنِ تعمیر میں استعمال ہونے والے نقوش اور خطاطی کے امتزاج پر مبنی ڈیزائن اور سونے کے ورق اور قدرتی رنگوں اور نایاب جواہرات کے پاؤڈر سے تذہیب کاری شامل ہے جبکہ اس منصوبے کے تحت کاغذ کی تیاری میں شہتوت کے درخت سے حاصل کردہ مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو کم از کم ایک ہزار سال تک محفوظ رہ سکتا ہے نیز اخروٹ کی چھال سے کشید کردہ رنگ، انڈے کی سفیدی اور پھٹکڑی کے محلول سے تیار کردہ سطح جسے عقیق سے مہرہ کرکے ایک سال تک سیزن کیا جاتا ہے اور قدرتی سیاہی اور معدنیات سے حاصل کردہ مستند اسلامی رنگوں کا استعمال شامل ہے۔ قرآن میوزیم اور مستقبل کی راہ مصحفِ پاکستان کو محفوظ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو اسلامی خطاطی اور تذہیب کے عظیم ورثے سے روشناس کرانے کے لیے ''قرآن میوزیم‘‘بھی قائم کیا جا رہا ہے جہاں قرآنی نسخوں کے نادر و نایاب نسخے، خطاطی کے تاریخی نمونے اور اسلامی آرٹ کے شاہکار محفوظ کیے جائیں گے۔یہ منفرد قرآنی نسخہ پاکستان کو عالمی سطح پر اسلامی فنونِ لطیفہ کے میدان میں نمایاں کرے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان دنیا بھر میں قرآنی خطاطی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قرآنی خطاطی عہد بہ عہدقرآنی خطاطی کی تاریخ مسلسل ارتقا کی داستان ہے۔ ہر دور نے اس میں جدت، خوبصورتی اور نکھار پیدا کیا۔قرآنی خطاطی کی تاریخ مختلف ادوار میں ارتقا پذیر رہی ہے، جس میں ہر دور نے اپنے مخصوص طرز اور تکنیک کو جنم دیا۔ آج بھی قرآنی خطاطی اسلامی ثقافت کا ایک لازوال جز ہے اور اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے دنیا بھر میں خطاط کام کر رہے ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور (7ویں-9ویں صدی) اسلام کے ابتدائی ایام میں قرآنی خطاطی زیادہ تر حجازی اور کوفی خط میں تھی۔ حجازی خط سادہ اور قدرے ترچھا تھا جبکہ خطِ کوفی زیادہ مربع اور زاویہ دار تھا جو بعد میں مختلف شکلیں اختیار کر گیا۔ عباسی دور (8ویں-13ویں صدی) عباسی خلافت میںخطِ کوفی نے مزید ترقی کی اور اس میں مشرقی کوفی، مغربی کوفی اور مزخرف کوفی جیسے انداز متعارف ہوئے۔ اسی دور میں خطِ نسخ کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں قرآن مجید کی کتابت کے لیے معیاری خط قرار پایا۔ مملوک اور اندلسی دور (13 ویں - 16 ویں صدی) مملوک سلطنت میں قرآنی نسخے زیادہ تر خطِ ثلث اور خطِ نسخ میں لکھے جاتے تھے جبکہ اندلس میں مغربی خط اور مرَبَّع خط کا رجحان رہا جو آج بھی شمالی افریقہ میں مقبول ہے۔ عثمانی دور (15ویں-20ویں صدی) خلافت عثمانیہ میں قرآنی خطاطی میں بے پناہ ترقی ہوئی اور خطِ دیوانی،خطِ ریحانی،خطِ طغرا اورخطِ تعلیق جیسے خط متعارف کرائے گئے۔ حمد اللہ اماسی اور شیخ حفیظ آفندی جیسے عظیم خطاطوں نے عثمانی دور میں قرآنی خطاطی کو لازوال شہرت دی۔ مغلیہ اور صفوی دور (16ویں-18ویں صدی) مغلہ دور میں فارسی طرز پر خطِ نستعلیق کو فروغ ملا مگر قرآنی کتابت زیادہ تر خطِ نسخ اورخطِ ریحانی میں ہوتی رہی۔اُدھر ایران میں صفوی دور میں خطاطی کے لیے زیادہ نفاست اپنائی گئی اور خطِ شکستہ نستعلیق جیسے اسلوب سامنے آئے۔ جدید دور (20ویں-21ویں صدی) جدید دور میں عرب دنیا، ترکی، ایران اور پاکستان میں کمپیوٹر خطاطی کو فروغ ملا مگر روایتی خطاطی اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سید محمد زکریا، شفیق الزمان اور عثمان طہٰ جیسے خطاطوں نے جدید قرآنی خطاطی میں نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں۔