غالب جو ایک شاعر تھا عالم میں انتخاب!

اسپیشل فیچر
دنیا میں سخن وروں کی کمی نہیں لیکن غالب کا اندازِ بیاں واقعی اور ہے۔ کہیں نہ کہیں سب مغلوب ہوئے مگر غالب ہر جگہ غالب ہی ہے۔ شاعری فقط قافیہ پیمائی اور لفاظی کا نام نہیں بلکہ ایک بڑا شاعر ایک ہی وقت میں دانشور، عیب جُو، مورخ، حاذق، سیاستدان، عالمِ، فلسفی، طنزکار، مصلح اور صوفی بھی ہوتا ہے۔ اقبالؒ جوانوں کو متاثر کرتا ہے جبکہ غالب ادھیڑ عمروں کا شاعر ہے اور جوانوں کے واسطے چچا غالب ہے۔
ماں باپ غالب کے بچپن میں ہی گزر گئے تو ماموں کے ہاں رہے۔ محرومیوں اور دکھوں نے دل میں گھر کیے رکھا مگر زندگی رئیسانہ انداز میں گزاری۔ کبھی عیش و لذت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ماموں نے سدھار کی خاطر بالی عمریہ میں ہی شادی کروا دی مگر غالب اور سدھار؟ ناممکن۔ غالب مانتے تھے کہ وہ سور نہ کھانے کے باعث آدھا مسلم اورمئے خوری کی وجہ سے آدھا کافرہے، اسی لیے کعبے کو جاتے ہوئے غالب شرم محسوس کرتے تھے۔
زندگی کرب میں بیت گئی۔ آگرہ سے نکلے، دہلی میں کبھی جیل کبھی غدر، کلکتہ پہنچے تو چین نہیں، لکھنو ویسے پسند نہ آیا، بنارس بھلا لگا لیکن وہاں رہنا دشوار ہوا۔ تاہم بنارس کی شان میں ''چراغِ دہر‘‘ ضرور لکھ دیا۔ غریبی میں لذت کی خُو نہ چھوڑی اور قرض کی مئے سے فاقہ مستیوں میں رنگ بھرے۔ قرض لے کر بھی سکاٹ لینڈکی شراب پی اور دیسی کو منہ تک نہ لائے۔ بلا کے خوددار تھے، جامِ جم سے اپنا جام سفال اچھا گردانتے رہے۔ حالات سے مجبور ہوکر پیسوں کی خاطر قصیدے بھی لکھنا پڑے۔ قرض کے حصول کیلئے نا چاہتے ہوئے خوشامد بھی کرنی پڑی۔ وبا ئیں اور دنگے توہر لمحہ ان کے ساتھ رہے۔
عاشق مزاج ہونے کے باوجودسب کے معشوق تھے۔ صرف ایک ڈومنی پر دل آیا مگر شومئی قسمت کہ وہ بھی مرگئی۔ نامساعد حالات اورکسمپرسی میں ''ابنِ مریم ہوا کرے کوئی‘‘ کی حسرت بھی پالی۔ غالباً ان کے مُخاطَب انگریز تھے۔ مسائل بڑھے توکاموں کا آساں ہونا اور آدمی کوانسان ہونا میسر نہ رہا۔ غالب کے گھرکئی بچے ہوئے مگر سب بچپن میں ہی جنت مکانی ٹھہرے۔ بھانجے زین العابدین کو گود لیا تو وہ بھی اٹھارہ برس میں چل بسا۔ پوری زندگی میں بس اسی وقت ایک مرثیہ لکھا:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیاخوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
مرقومہ بالا مصائب میں جوانمردی سے قیام کیا اور ایک بہت بڑی حقیقت بھی تسلیم کرتے گئے کہ
غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج ؟
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک
غالب اتنے غموں سے خُو گر ہوئے، اتنی مشکلیں پڑیں کہ مشکلیں خود آسان ہونے لگیں۔ کوئی بھی مشکل ان کے پروازِ تخیل کی معراج میں حائل نہ ہو سکی۔ غالب کا اک نرالا اسلوب ہے کہ وہ ہر بات میں ''آپشن‘‘ ڈھونڈتے ہیں جیسے،
اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا، ایسا نہ ہوتا تو کیا ہوتا
ڈبویا مجھ کوہونے نے نا ہوتا میں تو کیا ہوتا؟
شاید اس لیے کہ غالب کا ہندوستان آزاد ہندوستان نہیں ہے۔ انھیں مخمصہ ہے کہ بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو مانیں یا وائسرائے کو؟ ''خاک میں کیا صورتیں تھیں جوکہ پنہاں ہوگئیں‘‘ والے مصرعے میں تو انھیں بہت دور کی سوجھی ہے۔ عام مفہوم کے علاوہ کچھ ذاتی مشاہدات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کتنے کفر سپردِ قرطاس کیے ہوں اور مُلاں کے خوف سے پھاڑ دیئے ہوں، کتنے عشق رچائے ہوں اور بخوفِ رسوائی ترک کردئیے ہوں۔ یا پھر شاعری میں کچھ لکھا اورخود تنقیص کر کے نکال پھینکا ہو۔ صرف چج کی چیز رہنے دی اور خرافات نذرآتش کیں ہوں۔ اسی لیے تو ان کا ایک شعر بھی ایسا نہیں جسے عام کہا جا سکے۔
مئے خواری غالب کی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ ''تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ باہ خوارہوتا‘‘ کی آڑ میں غالب آدمی کے کردار ناپنے کے میعار پر طنزکرتا ہے کہ کیسے ایک خامی ہزاروں خوبیوں پر بھاری پڑجاتی ہے۔
غالب رئیس فقیر تھے اور غربت میں بھی چار چار نوکر رکھے ہوئے تھے۔ گوشت شراب کا کوئی ناغہ نہیں۔ پھوڑے نکل آئے پر آم نہ چھوڑے۔ غریبی سے بھی محظوظ ہوتے ہیں اور بھیس بدل کر تماشائے اہلِ کرم دیکھنے کے شائق ہیں۔ ''نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریرکا‘‘ لکھ کر انسانی تاریخ کے کئی پہلوئوں کو دلکش اسلوب سے سامنے لاتے ہیں۔ شاہانِ ایران کی تلمیح کہ دربار میں فریاد کرنے والا کاغذ کا لباس پہن کر شاہ کے حضور پیش ہوتا تھا اور اسی لباس پر فیصلے لکھے جاتے تھے۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں آٓنے والے ہر انسان کا مقدر لکھ دیاجاتا ہے۔ گویا کاغذی پیرہَن لوح ہے جو قسمت کے فیصلوں کے لکھے جانے کی منتظر ہے۔ ہر انسان لاچار و مجبور ہے۔ ایک طنز بھی ہے کہ کون اس طرح کے ظلم روا رکھے ہوئے ہے؟۔ غالب رازداری کا حامی بھی ہے کہ کہیں ہولناک حقیقت مایوس ہی نہ کردے مثلاً
خداکے واسطے کعبے سے پردہ نہ ہٹا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
خودی و خودداری کے باوجود حقیقت پسندی اور انکساری کا عنصر بھی غالب میں موجود تھا۔ انھوں نے کھلے دل سے لکھا کہ:
ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میربھی تھا
ایک اور جگہ تسلیم کرتے ہیں کہ:
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
غالب کو پڑھ کر بس یہی سوچے جارہا ہوں کہ غالب کو ''خدائے سخن‘‘ کیوں نہ کہا گیا۔ کوئی جانے تو ضرور بتائیے گا۔