آج تم یاد بے حساب آئے خلیل احمد :باکمال موسیقار
اسپیشل فیچر
٭...1934ء میں بھارتی شہر آگرا میں پیدا ہوئے، پورا نام خلیل احمد خاں یوسفزئی تھا۔
٭...آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی، 1952ء میں پاکستان آئے اور ریڈیو پاکستان ڈھاکہ کے میوزک سیکشن میں ملازمت کر لی۔ چند سال بعد پہلے کراچی اور پھر لاہور کا رخت سفر باندھا۔
٭...فلمی موسیقی کا آغاز 1962ء میں فلم ''آنچل‘‘ سے کیا، گیتوں کی مقبولیت نے انہیں راتوں رات صف اوّل کا موسیقار بنا دیا۔
٭... 28سال تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے، مجموعی طور پر 33فلموں کیلئے موسیقی ترتیب دی جن میں دو پنجابی فلمیں ناکہ بندی اور چوراں نوں مور بھی شامل تھیں۔
٭... مشہور فلموں میں دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، تصویر، ایک مسافر ایک حسینہ، کھلونا، آنچ، بزدل، داستان، لوری، معصوم،آپ کا خادم، طلاق، خاندان اور پلکوں کی چھائوں نمایاں ہیں۔
٭...سرکاری ٹی وی پر بچوں کے موسیقی کے پروگرام ''ہم کلیاں ہم تارے‘‘ شروع کیا جس کی میزبان نیئرہ نور تھیں۔ اسی طرح بچوں کا ایک دوسرا پروگرام ''آنگن آ نگن تارے‘‘ بھی کرتے رہے جس میں حدیقہ کیانی ان کی معاون ہوتی تھیں۔
٭... ''وطن کی مٹی گواہ رہنا‘‘، ''ساتھیو ،مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘، ''ملت کا پاسباں ہے، محمد علی جناحؒ‘‘ اور ''ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘‘ سمیت متعدد ملی نغمات کی موسیقی دی، جو آج تک روز اوّل کی طرح مقبول ہیں۔
٭...غزل'' انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ کی موسیقی مرتب کی، جسے استاد امانت علی خاں نے گایا اور 1978ء میں یہ پی ٹی وی سے نشر ہوئی۔
٭...مشہور زمانہ غزلوں ''ہونٹوں پہ کبھی ان کے، میرا نام بھی آئے‘‘ اور ''جلے تو جلائے گوری، دیپ کا الاؤ گوری‘‘ کی موسیقی بھی ان کی مرتب کردہ تھی۔
٭...زندگی کے آخری ایام گمنامی میں گزارے،21 جولائی 1997ء کو وفات پائی اور ان کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ہے۔
سپرہٹ گیت
٭...''جب رات ڈھلی، تم یاد آئے‘‘ (کنیز)
٭...''نہ چھڑا سکو گے دامن ، نہ نظر بچا سکو گے‘‘(دامن)
٭...''خداوندا ، یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں‘‘ (لوری)
٭...''میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں ، میرا دل بھی گا رہا ہے‘‘(لوری)
٭...''ہرقدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ‘‘(میرے محبوب)
٭...''قصہ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے‘‘ (داستان)
٭...''اے مصور ، تیری تصویر ادھوری ہے ابھی‘‘ (آنچ)
٭...''قدموں میں تیرے جینا مرنا، اب دور یہاں سے جانا کیا‘‘ (طلاق)
٭...''آئے ہو ابھی، بیٹھو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو‘‘(خاندان)