آج تم یاد بے حساب آئے ! حکیم ناصر : روایت پسند شاعر 1947تا2007
اسپیشل فیچر
٭...1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کااصل نام محمد ناصر تھا۔
٭... تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آ گئے جہاں وہ دواخانہ چلاتے رہے، ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔
٭... ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔
٭... ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔
٭...حکیم ناصر کی شاعری کی ایک اور خوبی سلاست اور روانی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عنائیت اور رچائو بھی ان کے شاعری کے اہم اوصاف ہیں۔
٭... ان کے اشعار پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
٭...گلوکارہ عابدہ پروین نے ان کی غزل ''جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھاہے‘‘ گائی جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔
٭...28جولائی 2007ء کووہ راہی ملک عدم ہوئے۔
منتخب اشعار
وہ مجھے چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصر
زندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی
.........
گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے
..................
یہ درد ہے ہمدم اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے
.........
آسان کس قدر ہے سمجھ لو مرا پتہ
بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا
..................
وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کے لیے جیتا ہوں
اس کا کیا جانئے کیا حال ہوا میرے بعد
..................
دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیا
ہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو
..................
جس نے بھی مجھے دیکھا ہے پتھر سے نوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں
..................
محرومیوں نے وقت پہ الزام رکھ دیا
مشکل کا نام گردش ایام رکھ دیا
غزل
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہوگی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
غزل
ہماری شمع تمنا بھی جل کے خاک ہوئی
ہمارے شعلوں کا عالم چتاؤں جیسا ہے
وہ بس گیا ہے جو آ کر ہماری سانسوں میں
جبھی تو لہجہ ہمارا دعاؤں جیسا ہے
تمہارے بعد اجالے بھی ہو گئے رخصت
ہمارے شہر کا منظر بھی گاؤں جیسا ہے
وہ ایک شخص جو ہم سے ہے اجنبی اب تک
خلوص اس کا مگر آشناؤں جیسا ہے
ہمارے غم میں وہ زلفیں بکھر گئیں ناصر
جبھی تو آج کا موسم بھی چھاؤں جیسا ہے
٭٭٭
٭٭٭