ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

ازدواجی زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جائے ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : غلام حقانی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

مرد وعورت اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھائیں تو ازدواجی زندگی باغ وبہار بن جاتی ہےتفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیےاپنی بیویوں کی ذات سے سکون میسر آنے کے باوجود جو مرد ان کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی منشاء سے واقف کروانے اور اپنی منشاء کے مطابق انسان سے عمل کروانے کیلئے ابتدائے آفرینش ہی سے ’’ہدایت‘‘ کا اہتمام فرمایا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء ورسل بھی بھیجے اور ان پر اپنے احکام پر مبنی صحیفے اور کتب بھی نازل فرمائیں۔ ہمارا زمانہ آخری زمانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے آخری نبی اور رسول خاتم النبیین اور خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا اور ان پر خاتم الکتب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اگر اس دور کے انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننا ہو، اس ارادے کے ساتھ کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد یا اپنے مقصدِ حیات کو ہر حال میں پورا کرے گا تو قرآن مجید اس کے لیے بہترین رہبر، بہترین ہدایت نامہ اور اس کے سفر زندگی کو پوری طرح روشن اور واضح کرنے والی کتاب ثابت ہوگی۔قرآن مجید ایک ایسی شاندار کتاب ہے جس میں دنیاوآخرت کے ہر پہلو کو پوری طرح سے اجاگر اور واضح کردیاگیا ہے۔ ضرورت غوروفکر اور تدبر کی ہے۔ قرآن مجید کے مضامین میں غوروفکر اور تدبر کرنے سے انسان کو اپنے مقصد حیات کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر شوہر اور بیوی کے تعلقات پر مبنی حسب ذیل آیات: سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور سجائی انسان کیلئے اور خود انسان کو بنایا اپنے لیے، لیکن انسان کی پیدائش اور دنیا بسانے کا ذریعہ خود انسان ہی کو بنایا جیسا کہ سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت میں واضح فرما دیاگیا ہے: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔یوں دنیا میں ہر رشتے سے پہلے شوہر اور بیوی کا رشتہ وجود میں آیا۔ اسی لیے یہ رشتہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ شوہر اور بیوی دراصل ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ احسن الخالقین نے ازدواجی زندگی کا ایک بے حد خوبصورت اور مضبوط ڈھانچا بنایا ہوا ہے جس کے مطابق ازدواجی زندگی میں مرد وعورت دونوں کا اپنا مقام ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی ذمے داری اوردونوں کا اپنا اپنا کردار ہے۔ جب مرد وعورت اپنی اپنی ذمے داری اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں تو ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار بلکہ باغ وبہار بن جاتی ہے۔ کیوں کہ دونوں ہی اپنے اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں یا دونوں میں سے کوئی اپنی ذمے داری نہ نبھائے تو وہ اپنے مقصد حیات کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ دو طرح کی تباہی ہے۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اسی لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے لیے کس کس طرح کا کردار پسند فرمایا ہے اور دونوں کو کیا کیا ذمے داریاں سونپی ہیں۔سورۃ النساء کی آیت نمبر34 میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے کردار اور ذمے داریوں کو صرف ایک لفظ ’’قوام‘‘ میں سمو دیا ہے۔ شوہر ’’قوام‘‘ ہونے کے ناتے اپنے خاندان کے معاملات کو، جس کا اہم ترین حصہ بیوی ہوتی ہے، درست حالت میں چلانے، خاندان کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور خاندان کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مرد کا عورتوں پر قوام ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسی لیے دنیا کے صرف مہذب طبقوں ہی میں نہیں بلکہ جاہل اور جنگلی طبقوں میں بھی مرد ہی کو ہمیشہ قوام کا درجہ ملا ہے۔ نئی تہذیب کے بگڑے ہوئے لوگ اور بعض غیر اہم قبائل اس سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺ ابھی مکہ مکرمہ ہی میں تھے۔ حج کے موقع پر سترہ سے زیادہ افراد کا وفد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آیا اور انھوں نے اصرار کیا کہ آپ ﷺمدینہ ہجرت فرمائیں۔ اس ضمن میں اس وفد سے چند اہم امور پر بیعت لی گئی۔ اس بیعت کی آخری دفعہ کے تعلق سے سرورِ عالمﷺنے فرمایا: ’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کروگے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘۔ اس پر حضرت براءؓ بن معرور نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ’’ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے ہم یقینا اس چیز سے آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔یہاں تو جہ طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے باشندوں کو جو نئے نئے اسلام کی آغوش میں چلے آئے تھے، یہ بات پہلے ہی سے معلوم تھی کہ مرد اپنی بیوی بچوں کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں، کسی مذہبی قانون کی بنا پر نہیں بلکہ بالکل فطری طور پر۔ اس ذمے داری کے علاوہ مرد پر، ’’قوام‘‘ ہونے کی حیثیت سے اور بھی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:(1)گرمی، سردی، بارش اور موسمی اثرات، چوروں، غنڈوں سے حفاظت کیلئے اور اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے سکون واطمینان حاصل کرنے کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق وہ ایک مکان فراہم کرے۔(2)اپنی استطاعت کے مطابق کھانے پینے کا بندوبست کرے۔ اکثر یہ ذمے داری دو حصوں میں بانٹی جاتی ہے، کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کی ذمے داری مرد پر اور پکوان کی ذمے داری عورت پر۔(3)اپنی استطاعت کے مطابق بیوی بچوں کے لئے لباس کا بندو بست کرے۔ لباس کا بندوبست کرتے ہوئے نہ مرد بخل سے کام لے اور نہ عورت مرد کی استطاعت سے بڑھ کر فرمائش کرے۔(4)بیماریوں سے بچنے کیلئے جو بھی احتیاطی تدابیر ممکن ہوں، اختیار کرے۔ بیوی بچوں میں سے کوئی بھی بیمار پڑجائے تو علاج معالجے میں کسی طرح کی بے پروائی نہ برتے۔(5) مرد وعورت سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی بیوی بچوں کو، حسب استطاعت، اس حال میں رکھے کہ انھیں سماج میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔(6) تفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔(7)بچوں کی تعلیم وتربیت مرد وعورت دونوں کی ذمے داری ہے لیکن تعلیم کے سارے اخراجات کی ذمے داری مرد پر ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر وہ ذمے داری جس میں مال خرچ کیا جاتا ہے یہ فرماکر مرد کو سونپ دی کہ ’’اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ اگر کوئی مرد استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر اپنے اس منصب ’’قوام‘‘ کو نہ نبھائے تو وہ اسلامی آئین، اسلامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب اوراللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مستحق ہوجاتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے انسانیت سے خارج بھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو خاندان میں ’’قوام‘‘ کا منصب عطا فرمایا اور خاندان کی دیکھ بھال کی ساری ذمے داری اْس کو سونپ دی۔ اسی لیے خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کے لیے مرد کا حکم مانا جائے گا۔ اپنا فرض یا ڈیوٹی نبھانے کے لیے، محکومیت کے طور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض کی ادائی کے تعلق سے بھی سورۃ النساء کی اس آیت میں اپنی منشاء اور مرضی کو یوں ظاہر فرمایا ہے:’’پس صالح عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں اور مردوں کے غیاب میں، اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگرانی میں اْن کے (شوہروں کے) حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔یہاں قرآن حکیم کایہ اعجاز توجہ طلب ہے کہ عورتوں کو براہ راست یہ حکم نہیں دیاگیا کہ شوہروں کی فرماں برداری کریں، شوہروں کی اطاعت شعار بن کر رہیں بلکہ یہی بات عورتوں تک پہنچانے کیلئے ایک انتہائی موثرکن اسلوب اختیار کیاگیا، وہ یہ کہ اگر عورتیں صالحات ہوں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، ربوبیت ،الوہیت اور اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر حاکمیت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ اللہ کے رسولوں ، اللہ کی کتابوں، اللہ کے فرشتوں، یوم آخرت، دوزخ اور جنت کے تعلق سے ان کاایمان مستحکم ہوگا اوراسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ہر ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے میں کسی بھی قسم کی بے پروائی او رغفلت کو بالکل بھی جگہ نہیں دیں گی۔ بلکہ ہر دم اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی ہی کو مقدم رکھتی ہوں گی تو ایسی عورتوں کیلئے یہ سمجھ لینا بالکل بھی دشوار نہیں ہوگا کہ شوہر کی فرماں برداری ، شوہر کی اطاعت شعاری بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی ہی میں شامل ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری سے ایمان کی لذت ، سکون واطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کو پورا کرنے کیلئے شرعی حدود کے اندر، اندر شوہر کی اطاعت و فرماں برداری سے بھی ایمان کی لذت، سکون و اطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فرماں بردار ی کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم کا درجہ دینے کیلئے نہیں بلکہ خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کیلئے ہے اور ایک صحت مند خاندان ، صحت مند سماج کا ضامن ہوتا ہے۔یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر34کے صرف چند الفاظ کے ذریعے شوہر اور بیوی کے رشتے کے تعلق سے سارے رہنما نہ خطوط ، شوہر اور بیوی کے رشتے کے سارے مقتضیات اولوالالباب یا عقل مندوں کیلئے روز روشن کی طرح واضح کردیے گئے، جن پر عمل پیرا ہونا انتہائی خوش نصیبی اور دنیوی زندگی کو جنت نشان بنانے کیلئے کافی ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ بھی۔ اور اگر شوہر یا بیوی یا دونوں ہی اس آیت مبارکہ میں دیے ہوئے رہنمایانہ خطوط کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں، شوہر اور بیوی کے رشتے کے مقتضیات پر بالکل بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تو وہ حقیقت میں اللہ عزوجل کی ’’عبادت‘‘ سے منھ موڑ رہے ہوتے ہیں، بلکہ انجانے میں شیطان کی ’’عبادت‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے اور اولوالالباب یا عقلمندوں کی فہرست سے خارج کر رہے ہوتے ہیں۔(2)خالق کائنات نے شوہر اور بیوی کے رشتے کی جاذبیت اور ایک دوسرے کی جانب فطری میلان، فطری جھکاؤ اور ایک دوسرے کے لیے فطری ہمدردی کے راز پر سے سورۃ الروم کی آیت نمبر21 میں اس طرح پردہ اٹھایا ہے اور اس کو اپنی نشانی کا درجہ عطا فرمایا ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔ انسان کی تخلیق کے موقع پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات عورت کی فطرت میں رکھ دی کہ اس کی ذات سے مرد یعنی شوہر کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور اسی طرح تخلیق ہی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں ہی کے درمیان محبت بھی رکھ دی ، رحمت وہمدردی اورلگائو کے جذبات بھی رکھ دیے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی کسی دوسرے کی ذرا سی پریشانی سے خود بھی بے چین اور پریشان ہوجائے۔ اور یہ انسان کے لیے اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نشانیوں میں شمار فرمایا۔ اگر مرد وعورت ازدواجی زندگی کے ان فطری قواعد کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں تو وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی زندگی باغ وبہار بنی رہتی ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اگر عورت مرد کے ساتھ کچھ ایسا برتائو اپناتی ہے کہ مرد کو عورت کی ذات سے سکون و اطمینان حاصل ہونے کی بجائے کوفت، جھنجھلاہٹ، تلخی اور کڑواہٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو یہ اسی بات کی واضح علامت ہے کہ عورت اپنی فطرت سے روگردانی کر رہی ہے اور اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال و تباہ کر رہی ہے۔ اسی طرح مرد و عورت دونوں ہی کے درمیان محبت، رحمت اور ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم پائے جاتے ہیں یا کسی میں پائے جاتے ہیں کسی میں نہیں تو یہ بھی فطرت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے :’’ہم نے نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے یا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔ (سورہ التین:4)یعنی صورت بھی بہترین عطا کی اور سیرت بھی بہترین۔ لیکن مرد وعورت یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنی من مانی کرکے، ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات، اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’اسفل سافلین‘‘ یعنی پستی کی انتہا میں پہنچادیتے ہیں اور اپنی زندگی کو دنیا ہی میں جہنم بنادیتے ہیں۔’’وہ خواتین جو اپنے شوہروں کے سکون کا باعث بننے کی بجائے ان کا سکون غارت کرکے رکھ دیتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی باہمی محبت اور رحمت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے یا وہ مرد جن کو اپنی بیویوں کی ذات میں سکون میسر آنے کے باوجود بیویوں کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟ پھر وہ عقلمندوں یا اولوالالباب کے زمرے میں یا انسانیت کی فہرست میں کس طرح شامل رہ سکتے ہیں؟ آئے دن جہیز کیسز میں اضافہ کیا ازدواجی زندگی کو منھ نہیں چڑا رہا ہوتا؟ اسلام نے تو مرد و عورت کو وہ سب کچھ دیا جس سے زندگی میں بہار لائی جاسکتی ہے۔ لیکن مسلم مرد اور مسلم عورت نے اسلام ہی سے منھ موڑ لیا اور اپنے آپ کو طاغوتی طوفان کے حوالے کردیا۔ اسلام پر ایک بڑا دھبا، انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر رہ گئے۔(3)احسن الخالقین نے شوہر او ربیوی کے باہمی رشتے کی اہمیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر187 کے چند الفاظ : ’’وہ تمھارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘۔کے ذریعے کس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے اس کی مثال ملنی ناممکن ہے۔مرد اپنے لباس کو اپنے لیے باعثِ زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتے ہیں اسی لیے اپنے لباس کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ لباس دھول، داغ دھبوں سے محفوظ رہے۔ لباس کو غلطی سے بھی ہلکی کھروچ تک نہ آنے پائے۔ لباس کو پھاڑنے یا تار تار کرنے کا تو تصور تک نہیں کیاجاتا۔ بل کہ لباس کو خوشبو میں بسایاجاتا ہے۔ لباس ہی کی طرح بیوی مرد کے لیے باعث زینت اور اس کی شخصیت کا نکھار ہوتی ہے اور اسی لیے پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی حقدار بھی۔ مرد پر لازم ہے کہ اپنے لباس ہی کی طرح اپنی بیوی کو غیر ضروری شک وشبہ یا الزام تراشی کے داغ دھبوں اور دھول سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان یا اپنے کسی عمل سے بیوی کے دل پر ہلکی سی کھروچ تک نہ آنے دے۔ اپنے ظلم یا اپنی زیادتیوں کے ذریعے بیوی کے دل کو تار تار کرنے کا تصور تک نہ کرے۔ عورت کو ہمیشہ اپنی محبت کی خوشبو میں بسائے رکھے تو یہ عمل مرد ہی کیلئے نشان امتیاز ہوگا اور کامیاب ازدواجی زندگی کی علامت بھی اور اگر کوئی مرد ایسانہیں کرتا تو گویا وہ اپنا لباس خود ہی گندہ میلا کر بیٹھتا ہے ، خود ہی اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ کر تارتار کررہا ہوتا ہے۔ کسی بھی مرد سے پوچھیے کیا وہ ایسی بدحالی کو برداشت کر پائے گا؟ لیکن کتنے ہی مرد ہیں جو ایسی بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔عورت تو اپنے لباس کو اپنے لیے کچھ زیادہ ہی باعث زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتی ہے۔اسی لئے کوئی بھی عور ت اپنے لباس پر مرد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے اور اپنے لباس کی دھول داغ دھبوں یا کھروچ وغیرہ سے کچھ زیادہ ہی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے لباس کو پھاڑنے یا تارتار کرنے کا تصور ہی اس کے دل کی دنیا کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اگر بیوی اپنے لباس ہی کی طرح اپنے شوہر کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کرے ، اپنی بدکلامی یا اپنی تلخ کلامی ، اپنی بدتمیزی یا بے رخی کے ذریعے مرد کے دل کو تار تار نہ کرے تو عورت ہی کی زندگی خوشگوار اور محبت کی خوشبو سے معطر ہوجائے گی۔ وہ بیوی کیسی لگتی ہوگی جو خود ہی اپنے لباس کو میلا، گندہ کردے، اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ ڈالے اوراس کے جسم پر بہترین زینت وزیبائش والے لباس کی جگہ چیتھڑے جھول رہے ہوں؟ کیا کوئی بھی عورت اس طرح کی بدحالی کو برداشت کرسکتی ہے ؟ لیکن کتنی ہی عورتیں ہوتی ہیں جنھیں اپنی بدحالی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ حقیقت کے آئینے میں اپنے آپ کو کبھی دیکھتی ہی نہیں اور نہ انھیں کسی طرح کی شرمندگی کا احساس ہی ہوتا ہے۔ صاحبِ قرآن محمد مصطفیﷺکی زوجہ محترمہ اْم المومنین خدیجہؓ کی ازدواجی زندگی میں ہر کسی کیلئے بہترین نمو نہ ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کو صاحب عرش نے نہ صرف یہ کہ پسند فرمایا اور شرف قبولیت بخشا بلکہ اپنی پسند اور شرف قبولیت کو دنیا والوں پر ظاہر بھی فرما دیا۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے رسولﷺ ! یہ خدیجہؓ تشریف لارہی ہیں۔ ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ ﷺ کے پاس آپہنچیں تو آپ ﷺ انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی اور تکان۔یہ درجہ اْم المومنین کو صرف اور صرف اس لیے ملا کہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آپ ﷺ پر جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے، دل پاش پاش ہوجاتا تو آپﷺ کو اْم المومنین حضرت خدیجہ ؓ کی معیت میں سکون واطمینان ملتا، راحت ملتی، چین ملتا اور یہ ’’لِتَسکْنْوا اِلَیہَا‘‘ کی بہترین تفسیر ہوتی۔ اْم المومنین حضرت خدیجہؓ اپنے والہانہ تعلق خاطر کے ذریعے ’’مودۃ ورحمۃ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھیں۔ ہر عقد کے موقع پر دعا ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ! اس نئے شادی شدہ جوڑے کے درمیان ایسی ہی الفت رکھ دے جیسی الفت سیدنا محمد مصطفیﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان رکھی تھی۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
’’ستھین جو آستان‘‘ خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ

’’ستھین جو آستان‘‘ خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ

گئے وقتوں میں زمینیں مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھیں اور مملکت بادشاہوں، نوابوں اور راجاؤں کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس لئے شہر اور قصبے بسانا بادشاہوں اور حکمرانوں کا اختیار ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے شہروں کے نام ملتے ہیں جن کے محل وقوع یا قدرتی حسن نے چلتے چلتے وقت کے شہنشاہوں کو پہلی نظر میں متاثر کیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد سرسبز ویرانہ ایک خوبصورت وادی میں بدل چکا ہوتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان شہر سے لگ بھگ 85 کلومیٹر کی دوری پر قدرتی حسن سے مالا مال، با لخصوص سرسبز پہاڑوں اور جنگلات سے آراستہ ایک علاقہ ''فورٹ منرو‘‘ کا ہے۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے تپتی گرمیوں میں بھی اس کا درجۂ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ برطانوی دور میں اسے آباد کیا گیا کیونکہ سرکاری افسران اپنے عملے اور دفاتر سمیت یہاں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اسے جنوبی پنجاب کا ''مری‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک وادی پنجاب کے ضلع خوشاب کی ''سون سکیسر‘‘ ہے جہاں سے اپنے دور کے عظیم فاتح ظہیر الدین بابر کا گزر ہوا۔وہ اس وادی کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی دن تک اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالے رکھا۔ اس شہر کے حسن میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بابر نے یہاں متعدد باغات لگانے کا حکم دیا تھا۔ ایسے ہی قدیم وادیٔ سندھ میں بھکر، روہڑی اور سکھر کے درمیان قلعہ نما، ایک قدیم شہر ہوا کرتا تھا۔جس کی صبحیں روشن اور شامیں دلفریب اور پورے برصغیر میں مشہور تھیں۔دریا، پہاڑ اور صحراؤں کے ملاپ نے بھکر کو وادیٔ سندھ کا ایک حسین مرکز بنا دیا تھا۔ بھکر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے خطے میں نمایاں حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا ۔تقریباً چھ سو سال تک بھکر دفاعی حیثیت سے سندھ کا دفاعی مرکز رہا۔ بھکر، پرانے سندھ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سکھر ، بنیادی طور پر بھکر ہی کا بگڑا ہوا نام ہے۔سولہویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستان ، بشمول سندھ پر مغلوں کا راج تھا۔ ابو قاسم المعروف نمکین خان بھکر کے گورنر تھے۔ ایک دن گورنر نمکین خان کا قافلہ روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھا، یہ مغرب کا وقت تھا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔اس دوران نمکین خان کی نظر اچانک روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سرسبز و شاداب چھوٹی سی پہاڑی پر پڑی، جہاں ڈوبتے سورج کے اس دلکش منظر نے مکین خان کوکچھ اس طرح مسحور کر دیا کہ اس نے اس چھوٹے سے جزیرے پر جسے بعد میں ''بھکر آئی لینڈ‘‘ کے شہرت ملی ، اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ جگہ تاریخ میں ''ستھین جو آستان‘‘ کی شہرت رکھتی ہے جو بنیادی پر سات کنواری ، پاکباز بیبیوں کی سات قبروں کے حوالے سے آباد ہے۔کچھ روایات میں یہ سات بیبیاں، سات بہنوں کی شناخت جبکہ بعض حوالوں سے سات سہیلیوں کی شناخت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ تاریخ ان بیبیوں کی اصل شناخت بارے مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مقام کو جسے ''ستھین جوآستان‘‘ کی شہرت حاصل ہے تاریخی حیثیت دلانے میں گورنر بھکر ، ابوقاسم نمکین خان کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ جسے انہوں نے سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کرایا تھا۔ ستھین جو آستان ہے کیا؟ دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع ستھین جو آستان اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکشی کے سبب دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ ''ستھین جو آستان‘‘ کے لفظی معنی سات بہنوں یا سات سہیلیوں کے آستانے کے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ جگہ ایک بہت بڑے قدیم قبرستان پر مشتمل ہے جہاں سو سے زائد قبروں کا سراغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت ایک ساتھ، ایک جیسی ان سات قبروں کی ہے جو روایات کے مطابق سات بیبیوں کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بھکر کے گورنر ابو قاسم عرف نمکین خان کی قبر بھی ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے وقف کرا رکھا تھا۔یہ مقام ابوقاسم کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ وصیت کر دی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں اور ان کے عزیز و اقارب کو بھی یہیں اسی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ یہیں پر سات قبروں کے پہلو میں ایک شاندار بارہ دری بھی بنی ہوئی ہے جو حادثات زمانہ کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے اب زبوں حالی کی ایک داستان بن چکی ہے۔ یہ درگاہ یاآستانہ ، سکھر اور روہڑی کے درمیان موجود ایک قدیمی قبرستان میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع ہے۔ اس قدیمی قبرستان سے سیکڑوں داستانیں اور روایات جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن جو اہمیت اس قبرستان میں موجود '' ستھین جو آستان‘‘کے حصے میں آئی ہے وہ شاید ہی کسی اور تاریخی عمارت یا ورثے کو ملی ہو۔ ستھین جو آستان کی وجۂ شہرت دراصل ان سات بہنوں یا سات سہیلیوں کی قبریں ہیں جن کے بارے روایت ہے کہ یہاں سات پاکباز اور نیک لڑکیاں رہتی تھیں جن پر کبھی کسی مرد کی نظر نہیں پڑی تھی۔ بعض روایات میں بتایا جاتا ہے کہ ایک دن اچانک راجہ داہر کی ان پر نظر پڑ گئی ، چنانچہ اس نے ان ساتوں کو اپنے دربار میںطلب کر لیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے رب سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا مانگی۔کہتے ہیں آناً فاناً زمین پھٹی اور وہ زمین میں دھنس گئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سات بیبیوں کی قبریں ہیں۔ اس آستانے کے نیچے ایک بڑا تہہ خانہ بنایا گیا تھا جہاں ایک بڑے ہال سمیت چار کمرے ہیں، جہاں اکثر و بیشتر دور دراز سے آئے زائرین رہتے ہیں۔ ان قبروں کا طرز تعمیر بتاتا ہے کہ ان کی تعمیر اور آرائش و زیبائش مغلیہ دور میں کی گئی ہو گی جن میں مغلیہ دور کی طرز تعمیر جھلکتی صاف نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ستھین جو آستان جہاں عقیدت مندوں کیلئے ایک روحانی مرکز کا درجہ اختیار کر چکا ہے وہیں یہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ ستھین جو آستان میں سارا سال عقیدت مندوں اور منت ماننے والوں کا ہجوم رہتا ہے جو پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی من مرادوں کی تکمیل بالخصوص اولاد کی طالب بانجھ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ سیتھین جو آستان کا غار نما زیر زمین حصہ صرف خواتین کیلئے مختص ہے۔یہی بنیادی طور پر اس آستانے کا مرکزی حصہ ہے۔یہاں مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ، چنانچہ خواتین کے ساتھ آئے مردوں کو اوپر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے اولاد اور بانجھ خواتین کو یہاں مزار کے اندر ایک ہجرے میں ایک رسم ادا کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خواتین کی کمر پر تالا باندھا جاتا ہے۔اس کے بعد بچوں کے لٹکتے جھولوں میں خواتین کو مختلف رنگوں کے دھاگے باندھنا ہوتے ہیں ۔ منت ماننے والی ان خواتیں کو ہر اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے۔  

متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت کے بانی منگول

متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت کے بانی منگول

گھڑسواری اور تیراندازی میں ان کی مہارت حیران کن تھی سلطنت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت رہی ہے۔ یہ دنیا کے 26 فیصد حصے پر پھیلی لیکن یہ سلطنت بکھری ہوئی تھی اور اس کے بہت سے علاقے ایک دوسرے سے متصل نہیں تھے۔ ایک دوسرے سے متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت منگولوں نے قائم کی۔ منگول سلطنت کا بانی مشہور فاتح چنگیز خان تھا۔ کسی بھی سلطنت کی فتوحات کے پس پشت مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، لیکن اس میں عسکری طاقت اور حکمت عملی کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ آخر کیا سبب تھا کہ بہت سے خطوں کی افواج منگولوں کی یورش کا مقابلہ نہ کر پائیں؟منگول خانہ بدوش تھے اور ایشیا کے وسیع گھاس کے میدانوں میں رہتے تھے۔یہاں تیز ہوائیں چلتیں اور سرد موسم عموماً شدید ہوتا۔ منگولوں کا رہن سہن اپنے علاقے کے حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔دیگر خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی مویشی پالتے تھے تاکہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ ان میں بھیڑ، بکریاں، اونٹ اور یاک شامل ہیں۔ پالتو جانوروں کے دودھ سے وہ دہی اور پنیروغیرہ بنا کر کھاتے اور ان جانوروں سے بنے گرم کپڑے انہیں سردی سے محفوظ رہنے میں مدد دیتے۔ منگول گوشت کو بھون کر کھانے کے بجائے ابال کر کھاتے تھے۔ سوکھا ہوا گوشت سفر کرنے والوں اور محاذجنگ میں شریک ہونے والوں کے ساتھ ہوتا، کیونکہ یہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ منگول جانوروں کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ہڈیوں کو ابال کر ان کا گودا کھایا جاتا تھا۔شکار کیلئے بعض ہنر چاہئیں تھے، یہ تھے گھڑسواری اور تیر اندازی۔ ان میں منگولوں کی مہارت حیران کن تھی۔ منگول بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی گھڑسواری اور تیر اندازی سکھا دی جاتی اور وہ جلد اس میں مشاق ہو جاتے۔ اس فن میں ایک روایت مزید نکھار لاتی اور اسی سے منگولوں کو جنگ اور اس کی حکمت عملی کی تربیت ملتی۔ منگول سردیوں میں کم از کم ایک ماہ کیلئے اور کبھی کبھار تین ماہ کیلئے اکٹھے شکار کھیلتے۔ یہ شکار بہت منظم انداز اور بڑے پیمانے پر کھیلا جاتا۔ منگول مردوں کی اکثریت اس میں حصہ لیتی۔ شکار کے اس طرز کو Nerge کہا جاتا، جس کیلئے متبادل لفظ جرگہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ریت منگول فوج کی تربیت گاہ کا کام کرتی۔ اس سے شکار بھی ہاتھ آتا اور مورال بھی بلند ہوتا۔ جنگ میں مقام، تنظیم، ربط، وقت اور لڑنے کی استعداد سب چاہئیں، منگول ایک اجتماعی سرگرمی سے اسے پا لیتے۔ اس سرگرمی میں ہر ایک اپنے ذمے افعال سرانجام دیتا، کسی نے تیرچلانے ہوتے تو کسی نے تیر پہنچانے ہوتے، کوئی کھانے کا اہتمام کرتا تو کوئی خیمے لگاتا۔ شکار کیلئے کسی وسیع و عریض مقام کا تعین کیا جاتا جس کے گرد کم و بیش 130 کلومیٹر پر منگول ایک خاص ترتیب میں جمع ہوتے۔ سب سے بڑا اجتماع ''تومن‘‘ کہلاتا اور 10 ہزار پر مشتمل ہوتا، ان کے جھنڈے مختلف مقامات پر گاڑے ہوتے۔ سیکڑوں میل دور اختتام مقام کا تعین کر دیا جاتا۔ سربراہ کا اشارہ ملنے پر مسلح شرکاء آگے بڑھنے لگتے اور گھیرا تنگ کرتے جاتے۔ اس کے سامنے آنے والے جنگلی جانور بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگلے چند ہفتوں میں گھیرا تنگ ہوجاتا اور جانوروں کی تعداد بڑھ جاتی یوں اس وسیع اجتماع جو کسی فوج کی صورت ہوتا، کے حصے آگے بڑھ کر جنگلی جانوروں کے قریب آتے۔ اس طرح جانوروں کو مارنا آسان ہو جاتا۔ اس مقصد کیلئے گھڑسوار شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ اگر کسی سے جانور نکل جاتا تو اسے سخت سزا دی جاتی۔ منگولوں کے گھوڑے اگرچہ چھوٹے ہوتے تھے لیکن سخت جان ہوتے اور ان کا سٹیمنا بھی اچھا ہوتا۔ لکڑی، بانس یا سینگ سے بنے ان کے تیر بہت مضبوط ہوتے۔ انہیںتیر کو نشانے پر پھینکنے کی خاص مہارت حاصل تھی۔ جب جانوروں کی نشان دہی ہو جاتی تو پہلا تیر منگولوں کاخان چلاتا۔ کسی دوسرے کے تیر چلانے کا مطلب اس کی موت ہو سکتا تھا۔ آخر میں کچھ جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا تاکہ ان کی نسل قائم رہے۔ اس کے بعد9 دن تک جشن منایا جاتا۔ قبلائی خان کے دور میں مارکوپولو نے شانگڈو شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس نے اپنی 1298ء میں منظرعام پر آنے والی کتاب ''دی ٹریولز‘‘ میں شکار کے اس طریقے کی تفصیل بیان کی ہے۔ شکار کی یہ طویل مشق اسی طرح ہوتی جس طرح منگول دشمن پر حملہ آور ہوتے۔ یہی حکمت عملی منگول جنگوں میں اپناتے تھے۔ اس میں تیز رفتار گھڑسواروں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی۔ بعض اوقات گھڑسوار اتنا پھیل جاتے کہ پوری دشمن فوج کو گھیر لیتے۔ اس کے بعد جو نکلنے کی کوشش کرتا اس کا بے رحمی سے شکار کیا جاتا۔ منگول فوج کی تقسیم اور ترتیب کم و بیش شکار والی ہوتی۔ نظام میں سب سے نیچے ''اربان‘‘ ہوتے، یہ 10 جنگجوپر مشتمل ہوتا۔ 10 اربان سے ایک ''جاگون‘‘ بنتا جس میں 100 جنگجو ہوتے۔ 10 ''جاگون‘‘ میں ایک ہزار ہوتے اور ان سے منقان بنتا۔ ایک تومن 10 منقان پر مشتمل ہوتاجس میں 10 ہزار افراد ہوتے۔ ساری فوج تین حصوں میں تقسیم ہوتی۔ دایاں، بایاں اور مرکزی یا کلیدی حصہ۔ مارکوپولو اس بارے میں مزید تفصیل بتاتا ہے: جب تاتاری (منگول) شہزادہ جنگ کیلئے جاتا، وہ اپنے ایک لاکھ گھڑسوار لے جاتا۔ لیکن ہر 10، سو، ہزار اور 10 ہزار پر ایک آفیسر تعینات کرتاتاکہ اس کے احکامات صرف 10 افراد کو دینے کی ضرورت پیش آئے، ان 10 کو اگلے 10 کو ، اور اسی طرح کسی کو 10 سے زیادہ افراد کو احکامات دینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہر کوئی اپنے آفیسر کو جواب دہ ہوتا۔ نظم و ضبط کا یہ نظام شاندار تھاکیونکہ یہ اپنے سرداروں کے بہت فرمانبردار تھے۔ اگرچہ مارکوپولو نے فوجی تنظیم کے بارے میں قبلائی خان کے زمانے میں لکھا لیکن یہ وہی تنظیم تھی جو چنگیز خان کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ منگولوں کی عسکری فتوحات میں ان کے اجتماعی شکارکی ریت کا عمل دخل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  

آج کا دن

آج کا دن

سڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دنسڑکوں پر رہنے والے بچوں کا عالمی دن (International Day for Street Children) ہر سال 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔2011ء میں شروع ہونے والے اس دن کو منانے کا مقصدسڑکوں پر رہنے والے بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنا،حکومتوں اور اداروں کو ان بچوں کے حقوق دلانے کیلئے توجہ دلانا اور دنیا بھر میں ایسے بچوں کو تعلیم، صحت، تحفظ اور ایک بہتر زندگی کا حق دلانے کی کوشش کرناہے۔'' سٹریٹ چلڈرن ‘‘انہیں کہا جاتا ہے جوبچے اپنے خاندانوں سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں، یاوہ جو گھروں کے باہر سڑکوں، پارکوں، اسٹیشنز یا فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔دنیا بھر میں لاکھوں بچے سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ بچے جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے پاس شناختی دستاویزات، تعلیم یا قانونی تحفظ نہیں ہوتا۔ یوری گاگرین نے خلا میں زمین کے گرد چکر لگایا1961ء میں آج کے روز سوویت خلا باز یوری گاگرین کو خلا کا سفر کرنے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ ''ووستوک 1‘‘ مشن کا حصہ تھے جس نے زمین کے گرد ایک چکر لگایا۔ یہ دن اب دنیا بھر میں ''انٹرنیشنل ڈے آف ہیومن اسپیس فلائٹ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔انہیں سوویت یونین کے سب سے بڑے اعزاز''ہیرو آف دی سوویت یونین‘‘ سے نوازا گیا۔یوری گاگرین کا انتقال ایک تربیتی پرواز کے دوران 27 مارچ 1968ء کو ہوا، جب ان کا لڑاکا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس وقت وہ صرف 34 سال کے تھے۔400رنز، برائن نے عالمی ریکارڈ قائم کیا12 اپریل 2004 ء کو ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز برائن چارلس لارا نے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔لارا نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 400 رنز ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگز کھیلی۔یہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز تھی، اور یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لارا نے اس سے پہلے بھی 1994ء میں 375 رنز بنا کر انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جو بعد میں آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن نے 2003 ء میں 380 رنز بنا کر توڑا۔لیکن پھر برائن لارا نے ایک سال بعد 2004ء میں اپنا ہی ریکارڈ واپس لے لیا اور 400 ناٹ آؤٹ کے ساتھ دنیا کو حیران کر دیا۔ 

معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

اگر چہ پاکستان کو قدرت نے نمک کے بہت وسیع ذخائر سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان نمک کے ان ذخائر کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں 24 لاکھ ٹن سالانہ کے ساتھ دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں چین سالانہ 6 لاکھ کروڑ ٹن کی نمک کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پاکستان میں صنعتی شعبہ کمزور ہونے کے باعث بھی نمک سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔نمک کا تکنیکی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) ہے۔ بظاہر کم قیمت اور معمولی سمجھا جانے والا نمک در حقیقت قدرت کا انتہائی اہم معدنی تحفہ ہے جو کھانوں کو ذائقہ بخشنے کے علاوہ بہت سے صنعتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں نمک کے 6 ارب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ ضلع جہلم میں کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے پاکستان میں کھیوڑہ کے علاوہ نمک کی کانیں واڑچھا ضلع خوشاب، کالا باغ ضلع میانوالی اور بہار خیل ضلع کو ہاٹ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی نمک کی شناخت ''ہمالین سالٹ ‘‘کے نام سے ہے۔ اس کو ''پنک سالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا نمک 99 فیصد خالص ہے اس میں کیلشیم میگنیشیم ، زنک، آئرن اور کئی دوسرے منرلز پائے جاتے ہیں۔نمک کا سب سے اہم استعمال کھانوں کی تیاری میں ہوتا ہے جو نہ صرف کھانوں کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ جسمانی نظام اور صحت کو برقرار رکھنے میں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نمک خلیوں کی کارکردگی اور فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بطور الیکٹرولائٹ بھی بہت ضروری ہے نمک جسمانی توازن اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئیوڈین والا نمک جسم میں آئیوڈین کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جس سے تھائرائیڈ ہارمون بنتا رہتا ہے اور گلہر کی بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر نمک انسانی جسم کے افعال کے لیے اس قدراہم ہے کہ ڈائیریا کے مرض کی وجہ سے جسم میں نمکیات اور پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ نمک کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ نمک کی زیادتی ہائی بلڈ پر یشر اور دل کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔نمک کا استعمال صرف کھانوں کی تیاری تک محدود نہیں۔ نمک بہت کسی کیمیائی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو صنعتی پیمانے پر کاسٹک سوڈا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا صابن اور سرف بنانے کے لئے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دیگر صنعتی اشیاء تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا بنانے کے عمل سے ہی کلورین بھی پیدا ہوتی ہے۔ کلورین کو بڑے پیمانے پر پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اور کلورین کے علاوہ بھی نمک کو کیمیکل انڈسٹری میں بہت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تقریباً آدھے سے زائد کیمیکلز کی تیاری میں کسی نہ کسی مرحلے پر نمک لازماً استعمال کرنا پڑتا ہے۔نمک کو پینٹ ، رنگ اور ڈائیاں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، پولی ایسٹر ، ربڑ، پلاسٹک اور کپڑے کی صنعت میں بھی نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی نمک کو جانوروں کی کھالوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتیں جو ملکی معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، نمک کے بغیر نہیں چل سکتیں۔صنعتوں سے باہر بھی نمک بہت سے اہم کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو تیل کے کنویں کی مٹی کو پائیدار بنانے اور کنویں کو گرنے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نمک سٹرکوں پر جمی برف ہٹانے، کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دھاتیں صاف کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ نمک کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سیلائن سولیوشنز ، گولیاں اور آئنمنٹس بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نمک کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو مراعات دی جائیں اور جن صنعتوں میں نمک استعمال ہوتا ہے ان کوٹیکس میں خصوصی چھوٹ دی جائے تا کہ پاکستانی اشیاء عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں اور ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہی اقدامات سے ممکن ہو سکے گا کہ پاکستان اللہ کے دیئے گئے نمک کے تحفے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ 

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

شمالی افریقہ میں خلیج تیونس کے کنارے ایک تکونی جزیرہ نما واقع ہے۔ اس پر قدیم زمانے میں فونیقی قوم نے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا تھا۔ اس کا نام قرطاجنہ (Carthage) تھا۔ یہ شہر ترقی کر کے ایک شہری ریاست بن گیا تھا۔ قرطاجنہ کے ابتدائی آبادکار جو فونیقی شہر صور (Tyre) سے تعلق رکھتے تھے، پہلے پہل بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ ان کا مقصد ایک نوآبادی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسباب تجارت کے لیے ایک منڈی تلاش کرنا بھی تھا۔ تعمیر روم کے افسانے کی طرح قرطاجنہ کی تعمیر بھی افسانوی طور پر 814 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس افسانوی روایت کے مطابق صور کی شہزادی ڈیڈو (Dido) جب اپنے بھائی شاہ پگمالیون (صور کی تاریخ میں اس نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے) کے مظالم سے بھاگ کر شمالی افریقہ پہنچی تو اس نے خلیج تیونس کے کنارے اس مقام پر ایک شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے ایک کھال کے برابر جگہ حاصل کی، پھر شہزادی نے چالاکی سے کھال کو باریک اور پتلی پٹیوں میں کاٹنے کا حکم دیا۔ بعدازاں ان باریک پٹیوں کی مدد سے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسی رقبے پر قرطاجنہ کی تعمیر ہوئی۔ قرطاجنہ شہر کے عین درمیان میں ایک چٹان پر ایک قلعہ تھا جو بیرصہ (Byrsa) کہلاتا تھا۔ اسی قلعے کے اردگرد قرطاجنہ کا پورا شہر آباد تھا۔ یہ شہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا کا ایک اہم شہر بن گیا اور روم کے ہمسر کے طور پر ابھرا۔ رومی اس شہر کے باشندوں کو پیونی (Poeni) کہتے تھے، جو فونیقی (Phoenician)کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اسی لفظ کی وجہ سے بعدازاں روم اور قرطاجنہ کے درمیان تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں لڑی جانے والی جنگیں پیونک جنگیں کہلاتی ہیں۔ قرطاجنہ کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مذکورہ تاریخ غالباً خود قرطاجنی باشندوں نے اپنی مبالغہ آرائی سے قائم کی تھی۔ جدید آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ اس تاریخ سے موافقت نہیں رکھتے۔ اثریاتی کھدائیوں سے کوئی چیز ایسی دستیاب نہیں ہوئی جس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے آخر سے پہلے کے زمانہ سے بنتا ہو۔ قرطاجنہ کے بارے میں سب سے قدیم حوالہ ہمیں 509 قبل مسیح میں ملتا ہے، جب روم اور قرطاجنہ میں تجارتی مراعات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اہل قرطاجنہ نے سسلی فتح کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اہل روم سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ بعد میں سسلی ہی پر اہل قرطاجنہ کی یورشوں سے پیونک یا قرطاجنی جنگیں پیش آئیں۔ ان کے آخر میں 146 قبل مسیح میں رومی جنرل سیپیوایفرایکٹس اصغر نے قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور شہر کو جلا کر مسمار کرایا۔ 122 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے دو رومی امیروں گایوس گریکس (Gaius Gracchus) اور مارکوس فلویس فلیکس کو قرطاجنہ کے کھنڈرات پر ایک رومی نوآبادی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جولیس سیزر نے روم کے ایسے شہریوں کو یہاں آباد کیا جن کے پاس زمینیں نہ تھیں۔ 29 قبل مسیح میں شہنشاہ آگسٹس نے افریقہ میں رومی مقبوضات کے انتظامی امور کے لیے قرطاجنہ کا انتخاب کیا۔ اس کا آباد کردہ قرطاجنہ (Colonia Julia Carthago) کہلاتا تھا۔ جلد ہی یہ قرطاجنہ سکندریہ اور دوسرے کئی رومی نوآبادیاتی شہروں سے زیادہ ترقی کر گیا اور ان کا ہم پلہ قرار پایا۔ اگرچہ کسی بھی رومی شہنشاہ نے یہاں قیام نہیں کیا مگر بیشتر رومی شہنشاہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد روم کی سلطنت کے زوال تک قرطاجنہ کی تاریخ پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی کے آخر تک یہاں عیسائیت اتنی پھل پھول چکی تھی کہ یہاں کی کلیسائی شخصیات میں فادر ترتولین (Father Tertullian) اور سینٹ سائپرین کے نام نمایاں ہیں۔ 439ء میں ونڈال حکمران گائیسرک بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ طور پر قرطاجنہ میں داخل ہو گیا اور یہاں ونڈال سلطنت قائم ہو گئی، جو تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ گیلمیر یہاں کا آخری ونڈال حکمران تھا۔ اسے 533ء میں بازنطینی جنرل بیلیساریوس (Belisarius) نے شکست دی۔ 705ء تک یہاں بازنطینی حکومت قائم رہی اور اس سال اس تاریخی شہر کو مسلم عربوں نے فتح کیا جس کے بعد اس کے ایک قریبی شہر تیونس کو عروج حاصل ہوا اور یہ شہر گہناتا چلا گیا۔ رومی قرطاجنہ بھی قدیم شہر کی طرح بالآخر تباہ ہو گیا مگر اس کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثاروں میں رومی آبراہ اور کئی قلعوں کے آثار نمایاں ہیں۔ سابقہ قلعہ بیرصہ کے مقام پر رومی عہد میں جو پیٹر اور مزوا دیوی کا مندر تعمیر ہوا، اس کے علاوہ یہاں ایک غلام گردش بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس غلام گردش کے آثار سے رومی عہد کی سنگ تراشی کے بہترین نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ قرطاجنہ کے بازنطینی عہد میں یہاں کئی خوبصورت کلیسا بھی تعمیر ہوئے تھے، مگر اب ان کے آثار مفقود ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

جرمنی کاڈنمارک پر قبضہ9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک اور ناروے پر حملہ کرتے ہوئے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ حملہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جرمنی نے ناروے پر فرانس اور برطانیہ کے قبضے کو دیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حملہ کیا ہے۔اس منصوبے کو ''پلان4R‘‘کا نام دیا گیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جغرافیہ، محل وقوع اور آب و ہوا میں نمایاں فرق نے فوجی کارروائیوں کو بھی بہت مختلف بنا دیا۔اس حملے کے دوران جرمنی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام1945ء میںآج کے دن امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔اسے عام طور پر ''AEC‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ایک ایجنسی تھی جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کانگریس نے ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی اور امن کو فروغ دینے اور کنٹرول کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے 1946ء میںاٹامک انرجی ایکٹ پر دستخط کیے اور جوہری توانائی کا کنٹرول فوج سے سویلین حکومت کو منتقل کردیا۔یہ حکم یکم جنوری 1947 سے نافذ العمل ہے۔''بوئنگ 737‘‘نے پہلی اڑان بھری 9اپریل 1967ء کوبوئنگ 737 نے اپنی پہلی اڑان بھری۔ یہ ایک تنگ جسامت والا ہوائی جہاز تھا، جسے بوئنگ کمپنی کی جانب سے واشنگٹن میں تیار کیا گیا۔ فروری 1968ء میں Lufthansa کی طرف سے اسے کمرشل سروس میں شامل کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب لمبی جسامت والا 737 کمرشل سروس میں شامل ہوا۔ یہ چار مختلف اقسام میں تیار کیا گیا۔ جس میں 85 سے 215 مسافروں تک کو لے جانے والی مختلف اقسام مارکیٹ میں پیش کی گئیں۔جارجیا نے آزادی کا اعلان کیا9 اپریل 1991ء کو جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سوویت یونین کے ٹوٹنے سے کچھ دیر پہلے کیا گیا۔ جارجیا کی سپریم کونسل نے 31 مارچ 1991ء کو منعقدہ ریفرنڈم کے بعد پوری دنیا کے سامنے خود کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پیش کیا۔26 مئی 1991 ء کو '' زویاد گامسخردیا‘‘ آزاد جارجیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ واضح رہے کہ سوویت فوج کی مداخلت کے باعث جارجیا اپنی آزادی کھو بیٹھا تھا اور سوویت یونین کا حصہ بن گیا تھا۔