’’ستھین جو آستان‘‘ خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ

اسپیشل فیچر
گئے وقتوں میں زمینیں مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھیں اور مملکت بادشاہوں، نوابوں اور راجاؤں کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس لئے شہر اور قصبے بسانا بادشاہوں اور حکمرانوں کا اختیار ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے شہروں کے نام ملتے ہیں جن کے محل وقوع یا قدرتی حسن نے چلتے چلتے وقت کے شہنشاہوں کو پہلی نظر میں متاثر کیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد سرسبز ویرانہ ایک خوبصورت وادی میں بدل چکا ہوتا تھا۔
ڈیرہ غازی خان شہر سے لگ بھگ 85 کلومیٹر کی دوری پر قدرتی حسن سے مالا مال، با لخصوص سرسبز پہاڑوں اور جنگلات سے آراستہ ایک علاقہ ''فورٹ منرو‘‘ کا ہے۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے تپتی گرمیوں میں بھی اس کا درجۂ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ برطانوی دور میں اسے آباد کیا گیا کیونکہ سرکاری افسران اپنے عملے اور دفاتر سمیت یہاں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اسے جنوبی پنجاب کا ''مری‘‘ کہا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک وادی پنجاب کے ضلع خوشاب کی ''سون سکیسر‘‘ ہے جہاں سے اپنے دور کے عظیم فاتح ظہیر الدین بابر کا گزر ہوا۔وہ اس وادی کے حسن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی دن تک اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالے رکھا۔ اس شہر کے حسن میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بابر نے یہاں متعدد باغات لگانے کا حکم دیا تھا۔
ایسے ہی قدیم وادیٔ سندھ میں بھکر، روہڑی اور سکھر کے درمیان قلعہ نما، ایک قدیم شہر ہوا کرتا تھا۔جس کی صبحیں روشن اور شامیں دلفریب اور پورے برصغیر میں مشہور تھیں۔دریا، پہاڑ اور صحراؤں کے ملاپ نے بھکر کو وادیٔ سندھ کا ایک حسین مرکز بنا دیا تھا۔ بھکر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے خطے میں نمایاں حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا ۔تقریباً چھ سو سال تک بھکر دفاعی حیثیت سے سندھ کا دفاعی مرکز رہا۔ بھکر، پرانے سندھ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سکھر ، بنیادی طور پر بھکر ہی کا بگڑا ہوا نام ہے۔
سولہویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستان ، بشمول سندھ پر مغلوں کا راج تھا۔ ابو قاسم المعروف نمکین خان بھکر کے گورنر تھے۔ ایک دن گورنر نمکین خان کا قافلہ روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھا، یہ مغرب کا وقت تھا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔اس دوران نمکین خان کی نظر اچانک روہڑی کے قریب دریائے سندھ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت سرسبز و شاداب چھوٹی سی پہاڑی پر پڑی، جہاں ڈوبتے سورج کے اس دلکش منظر نے مکین خان کوکچھ اس طرح مسحور کر دیا کہ اس نے اس چھوٹے سے جزیرے پر جسے بعد میں ''بھکر آئی لینڈ‘‘ کے شہرت ملی ، اپنے قافلے سمیت یہاں پڑاو ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ یہ جگہ تاریخ میں ''ستھین جو آستان‘‘ کی شہرت رکھتی ہے جو بنیادی پر سات کنواری ، پاکباز بیبیوں کی سات قبروں کے حوالے سے آباد ہے۔کچھ روایات میں یہ سات بیبیاں، سات بہنوں کی شناخت جبکہ بعض حوالوں سے سات سہیلیوں کی شناخت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ تاریخ ان بیبیوں کی اصل شناخت بارے مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس مقام کو جسے ''ستھین جوآستان‘‘ کی شہرت حاصل ہے تاریخی حیثیت دلانے میں گورنر بھکر ، ابوقاسم نمکین خان کا کردار نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ جسے انہوں نے سولہویں صدی کے آخر میں تعمیر کرایا تھا۔
ستھین جو آستان ہے کیا؟
دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک جزیرے پر واقع ستھین جو آستان اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکشی کے سبب دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ ''ستھین جو آستان‘‘ کے لفظی معنی سات بہنوں یا سات سہیلیوں کے آستانے کے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ جگہ ایک بہت بڑے قدیم قبرستان پر مشتمل ہے جہاں سو سے زائد قبروں کا سراغ ملا ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت ایک ساتھ، ایک جیسی ان سات قبروں کی ہے جو روایات کے مطابق سات بیبیوں کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بھکر کے گورنر ابو قاسم عرف نمکین خان کی قبر بھی ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے وقف کرا رکھا تھا۔یہ مقام ابوقاسم کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ وصیت کر دی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں اور ان کے عزیز و اقارب کو بھی یہیں اسی قبرستان میں دفن کیا جائے۔
یہیں پر سات قبروں کے پہلو میں ایک شاندار بارہ دری بھی بنی ہوئی ہے جو حادثات زمانہ کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے اب زبوں حالی کی ایک داستان بن چکی ہے۔
یہ درگاہ یاآستانہ ، سکھر اور روہڑی کے درمیان موجود ایک قدیمی قبرستان میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع ہے۔ اس قدیمی قبرستان سے سیکڑوں داستانیں اور روایات جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن جو اہمیت اس قبرستان میں موجود '' ستھین جو آستان‘‘کے حصے میں آئی ہے وہ شاید ہی کسی اور تاریخی عمارت یا ورثے کو ملی ہو۔
ستھین جو آستان کی وجۂ شہرت دراصل ان سات بہنوں یا سات سہیلیوں کی قبریں ہیں جن کے بارے روایت ہے کہ یہاں سات پاکباز اور نیک لڑکیاں رہتی تھیں جن پر کبھی کسی مرد کی نظر نہیں پڑی تھی۔ بعض روایات میں بتایا جاتا ہے کہ ایک دن اچانک راجہ داہر کی ان پر نظر پڑ گئی ، چنانچہ اس نے ان ساتوں کو اپنے دربار میںطلب کر لیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے رب سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا مانگی۔کہتے ہیں آناً فاناً زمین پھٹی اور وہ زمین میں دھنس گئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سات بیبیوں کی قبریں ہیں۔ اس آستانے کے نیچے ایک بڑا تہہ خانہ بنایا گیا تھا جہاں ایک بڑے ہال سمیت چار کمرے ہیں، جہاں اکثر و بیشتر دور دراز سے آئے زائرین رہتے ہیں۔
ان قبروں کا طرز تعمیر بتاتا ہے کہ ان کی تعمیر اور آرائش و زیبائش مغلیہ دور میں کی گئی ہو گی جن میں مغلیہ دور کی طرز تعمیر جھلکتی صاف نظر آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ستھین جو آستان جہاں عقیدت مندوں کیلئے ایک روحانی مرکز کا درجہ اختیار کر چکا ہے وہیں یہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ ستھین جو آستان میں سارا سال عقیدت مندوں اور منت ماننے والوں کا ہجوم رہتا ہے جو پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنی من مرادوں کی تکمیل بالخصوص اولاد کی طالب بانجھ خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔
سیتھین جو آستان کا غار نما زیر زمین حصہ صرف خواتین کیلئے مختص ہے۔یہی بنیادی طور پر اس آستانے کا مرکزی حصہ ہے۔یہاں مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ، چنانچہ خواتین کے ساتھ آئے مردوں کو اوپر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
بے اولاد اور بانجھ خواتین کو یہاں مزار کے اندر ایک ہجرے میں ایک رسم ادا کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خواتین کی کمر پر تالا باندھا جاتا ہے۔اس کے بعد بچوں کے لٹکتے جھولوں میں خواتین کو مختلف رنگوں کے دھاگے باندھنا ہوتے ہیں ۔ منت ماننے والی ان خواتیں کو ہر اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے۔