ماں تجھے سلام!
اسپیشل فیچر
قدرت اللہ شہاب مرحوم اُردو کے ادیبوں اور دانشوروں میں ایک منفرد مقادم رکھتے ہیں میری نظر میں ان کی ایک اور حیثیت ایک ایسے افسر کی ہے جو اپنی قابلیت ایمانداری فرائض منصبی سے لگائو اور اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی ایک اور بڑی حیثیت میں سمجھتا ہوں ایک ایسے انسان کے طور پر ہے جو دنیا میں رہ کر دنیا سے لاتعلق اپنے کاروبار، ریاست میں بہت سے اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ایک عامیانہ زندگی گذارتے رہے اور آج کل کے افسران کیلئے ان کا درجہ میرے خیال میں ایک ولی سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ انہوں نے معاشرے میں اپنا مقام خود بنایا۔ اور اگر کسی شخص نے دنیا میں رہ کر دنیا کی خوب خدمت کرتے ہوئے بھی دنیا سے بے رغبتی اور بے اعتنائی دیکھنی ہے تو وہ مرحوم قدرت اللہ شہاب کو دیکھ لے۔ میرے حساب سے جہاں وہ ایک اعلیٰ عہدے کے افسر تھے وہیں دنیائے تصوف میں بھی عصر حاضر میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب’’شہاب نامہ‘‘ اردو ادب میں ایک اعلیٰ مقام کی حامل کتاب ہے۔ لیکن ان کے ساتھ ان کی چھوٹی چھوٹی دو کتابیں اور بھی میری نظر سے گذری ہیں ان دنوں میں جس کتاب کا ذکر میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہے’’ماں جی‘‘چھوٹی سے ایک کتاب ہے لیکن اپنے اندر ایک بہت بڑا اور اہم موضوع رکھتی ہے یہ کتاب پاکستان میں ادبی ایوارڈ یافتہ ہے ۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے یہ کتاب انہوں نے اگرچہ اپنی زندگی کے ذاتی رخ کے حوالے سے لکھی ہے لیکن ’’ماں‘‘ کے لفظ پر بہت ہی پیاری اور بامعنی کتاب ہے اور واقعی دلچسپ اور دل موہ لینے والی کتاب ہے یہ ایک تہمید تھی اس مختصر سی کہانی کی جومیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔ تہمید اس لیے ضروری سمجھی ہے کہ ایک عامیانہ سی گفتگو کو اگر ایک عظیم دانشور کی تصنیف کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ گفتگو سمجھنے میں بھی آسانی رہتی ہے اور ماں جیسے اہم رشتے کی اہمیت اور تقدس کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔ آئیے اب اس کہانی بلکہ واقعے کی طرف جو میں آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں۔ چند دن پہلے میں موٹرسائیکل پر اپنے گھر جا رہا تھا میرا سفر نہر کے ساتھ تھا مسکین پورہ کے سٹاپ سے چند قدم آگے ایک ضعیف شخص کھڑا تھا لباس اور وضع قطع سے دیہاتی لگ رہا تھا وہ ہر جانے والے سے ہاتھ کے اشارے سے روک کر لفٹ مانگ رہا تھا میں اپنے دھیان میں اس سے کچھ آگے نکل گیا لیکن پھر یکایک خیال آیا کہ یار یہ شخص کوئی مجبور آدمی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کی بات سن کر کچھ ثواب ہی کمایا جائے۔ بعض اوقات ایسے چھوٹے چھوٹے ثواب کے ٹکڑے دل کیلئے تسکین اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں میں واپس مڑا اور اس بوڑھے شخص کے پاس جا کر موٹر سائیکل روک دی اور پوچھا کہاں جانا ہے کہنے لگا ہربنس پورہ پل پر جانا ہے میں نے اس شخص کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور سوچا کہ اگرچہ اس کا مطوبہ سٹاپ میرے گھر سے کچھ آگے ہے میں اس کو اس کی منزل تک پہنچا کر نیکی کمائوں۔ ہو شخص موٹر سائیکل پر بیٹھا اور ہم چل دیے جلد ہی ہمارے گفتگو شروع ہو گئی کیونکہ میں پہلے ہی تیز رو نہیں ہوں اس لیے سفر بڑا اچھا محسوس ہونے لگااس شخص نے اور بھی باتیں کی لیکن ایک بات جو میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ آجکل کے معاشرے اور خصوصاً بچوں اور ان کے بگڑتے ہوئے اخلاق کی بابت تھی۔ کہنے لگا بابوجی یہ ’’چوسنی‘‘ نے سب بیڑاہ غرق کیا ہے۔ اب بات تو بڑی معمولی سی اور عجیب سی ہے لیکن ایک لفظ چوسنی نے اس کا سارا تجربہ اور دانش مجھ پر وا کر دیا۔وہ شخص اس ایک لفظ میں جو نہایت ہی سادہ اور عامیانہ سا تھا وہ سب کچھ کہ گیا جس پر بڑے بڑے دانش اور نکتہ دان بڑی بڑی کتب تحریرفرما چکے ہیں اس کا کہنا تھا ’’چوسنی‘‘ جو عرف عام میں فیڈر کہلاتی ہے کیا آئی اس نے اس معاشرے سے ماں کو رخصت کر دیا ماں بچے کو دودھ پلاتی تھی تو اپنی گود میں بچے کی خوب تربیت کرتی تھی اور نسل در نسل روایات اور عادات کو اپنے بچے میں منتقل کرتی تھی قدرت شہاب کی مرحوم والدہ جسکو وہ ماں جی کہا کرتے تھے ایک فرد نہیں ایک ادارہ تھی آجکل کے محقق اور صاحب عقل لوگ کہتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں جو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور انسان کی مجموعی شخصیت ساری پچاس سے اسی فیصد حصہ رکھتی ہیں وہ انسان اڑھائی سال سے پانچ سال کی عمر میں ہی اپنے اندر سمو لیتا ہے اب دیکھیں اس عمر میں انسان کہاں ہوتا ہے بلکہ میں تو ماضی کی بات کرتا ہوں جب یہ عمر ماں کی گود میں گذرتی تھی تو کیسے کیسے بیٹے ماں کی گود سے بار آور ہوئے آج بڑے بڑے محقق ، کیمیا دان اور دیگر طرح کے دانشور تو ہیں لیکن نہ بیٹا کہیں نظر آتا ہے نہ بھائی اور نہ ہی باپ وجہ کہ اپنا اصلی مقام کھو بیٹی اور افراد کی تربیت کا عظیم بوجھ نہیں اٹھا سکتی بلکہ چند سکوں کی خاطر اس نے بچے کو’’چوسنی‘‘ کے سپرد کر کے خود آج کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں مرد کے ہم پلہ ہونے کی کوشش تو کر دیتی ہیں لیکن ماں کا عظیم مرتبہ اس نے خود ہی خود فریب میں مبتلا ہو کر کھو دیا یہاں پر میں ایک بات اور عرض کر دوں جو میرا ذاتی مشاہدہ اور بہت سے لوگ اس بات سے متفق ہوں جیسے کہ عظیم دانشور قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب میں اس بات کا ثبوت دے چکے ہیں وہ بات بہت سادہ سی ہے لیکن حقیقت پر مبنی ہے۔ میری مرحوم والدہ محترمہ ایک ایسی خاتون تھیں جو دوسروں کے یا آج کی نام نہاد لیڈر عورتوں کی نظر بالکل عام سی عورت تھیں سکول کی شکل نہ انہوں نے دیکھی ہو گی نہ کسی عہدے پر فائز تھیں اور نہ ہی کسی خدمتی ادارے کی رُکن لیکن میں یہ بات بڑے فخر اور پورے اعتماد کیساتھ کہہ رہا ہوں کہ جو تربیت انہوں نے ہماری کی آج ان کی بہو بیٹیاں بلکہ پوتیاں نواسیاں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور عورتوں کے حقوق کی علمبردار بھی ہیں اس عظیم کام کا عشر عشیر بھی انجام نہیں دے پا رہی۔ آج کتنے بیٹے ہیں جو ماں بہن یا بیٹی کے نام پر کٹ مرنے والے ہیں اور کوئی نظر آئے تو یقین کر لیں اس کی ماں ماں ہو گی اور وہ آج بھی اس عظیم عزت و مرقبت کی مستحق ہے جس کا اسلامی تعلیمات میں بڑی اہمیت کیساتھ ذکر کیا تعلیم و ترقی کی اہمیت سے کسی کو واقعی انکار نہیں لیکن اگر یہ تعلیم و ترقی انسان کو مشین بنا کر دنیا کے کارخانے میں اعلیٰ اور اہم پرزے بنا کر اس کی اہمیت تو بڑھا دے لیکن اس کے اندر انسانیت نہ ہو تو بھی مشین ہو یا حیوان انسان کی خدمت گار تو ہیں لیکن انسانیت کے بلند رتبے سے یقیناً کمتر ہیں ’’چوسنی‘‘ کو ایک طرف پھینک کر اپنے بچوں کو ماں کی شخصیت اور محبت بھری گود واپس کرنی ہو گی، ورنہ نہ ماں ہو گی اور نہ بیٹے اور بس مشین ہی مشین ۔٭…٭…٭