ضدی عمران خان۔۔۔۔ کامیاب خوش نصیب کپتان
اسپیشل فیچر
جاوید میانداد کی آپ بیتی سے اقتباس*************’’ عمران خاصے چالاک بائولرتھے، انہوں نے اپنی گیندبازی میں ایسی حرکتیں کرنا سیکھ لی تھیں جن کی بلے باز بہت کم توقع کیا کرتے تھے۔ مثلاً وہ کریز کی چوڑائی کا فائدہ لیکر اس کے باہر کی طرف سے گیند پھینکتے جو اندر کی طرف آتے ہوئے پرے چلی جاتی۔ اسی زمانے میں انہوں نے ریورس سوئنگ کا نادر فن سیکھا۔ عمران کبھی اپنی کامیابیوں اور کارناموں پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ جاتے بلکہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتے۔ اسی لئے انہوں نے کبھی کرکٹر کی حیثیت سے اپنا آگے بڑھنے کا سفر تھمنے نہیں دیا۔ جب وہ اپنی گیندبازی میں مہارت پیدا کرچکے تھے تو وہ اپنی بلے بازی کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بلے بازی کی طرف بھی ایک حقیقی باقاعدہ بلے باز کی حیثیت سے گئے اور خود میں بلا کا اعتماد، طریقہ اور تکنیک پیدا کی۔ یہاں بھی کاؤنٹی کرکٹ نے اْن کی بڑی مدد کی۔ انہوں نے سسکس کے لئے مڈل آرڈر بلے باز کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور ایک ذمہ دار روایتی بلے باز بن گئے۔ عمران بلاشک و شبہ اپنے زمانے کے بہترین آل راؤنڈر تھے اور یہ کوئی کم اہم بات نہیں کہ جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ہم عصروں میں کپیل دیو، رچرڈ ہیڈلی،آئن بوتھم جیسی مایہ ناز شخصیتیں شامل تھیں، عمران ان سب میں بہترین بلے باز تھے اور گیند بازکے طور پر بھی وہ کسی سے کم نہیں تھے اس کے ساتھ وہ ایک کامیاب کپتان بھی تھے۔ انگلش میڈیا نے این بوتھم کو آل راؤنڈرز کا حرف آخر قراردیا مگر میرے مطابق وہ غلطی پر تھے۔ سلپ کیچنگ میں معمولی غلطیوں سے ہٹ کر ہر لحاظ سے عمران خان بوتھم سے بہترتھے۔عمران پاکستان کے لئے جہاں ایک انتہائی کامیاب کپتان تھے، وہاں وہ ایک خوش نصیب کپتان بھی تھے۔ وہ اکثر خطروں سے کھیلتے ہوئے بلے بازی کرتے اور سرخروہوجاتے۔ کم ازکم میرا تجربہ یہی کہتا ہے وہ ایک سننے والے کپتان بھی تھے۔ میدان میں ہمیشہ ہم دونوں صلاح مشورہ کرتے رہتے اور وہ ہمیشہ میری تجویزوں کو اہمیت دیتے تھے۔سچی بات ہے وہ سخت تقاضا کرنے والے کپتان بھی تھے۔ ان کو مجھ سمیت ہرایک سے بڑی بڑی توقعات رہتی تھیں اور اگر آپ ان کی توقع پر پورے نہیں اترتے تو وہ صاف صاف سنا دینے، ڈرتے نہیں تھے۔ وہ کھلے لفظوں میں مگر بڑے حساب کتاب سے تنقید کرتے۔ وہ کھلاڑیوں کو جس طرح سخت سست کہتے اس میں ایسی کوئی خاص بات ہوتی کہ کوئی بھی ان کی بات کا برا نہیں مانتا بلکہ اْن کی تنقید کو مثبت انداز سے لیتااور اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش کیا کرتا۔ یہ صلاحیت کسی بھی کپتان کے لئے انتہائی موثر تحفہ ہوسکتی ہے۔ میں مجموعی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ عمران کسی بھی کھلاڑی کی خوبیوں کو صحیح صحیح ناپنے والے غضب کے جج تھے۔ کبھی کبھار وہ کسی کھلاڑی میں کوئی خاص بات دیکھ لیتے تو اس کھلاڑی کا ساتھ دیتے اور اسے آگے لانے میں مدد دیتے۔ خواہ وہ کھلاڑی خراب ہی کیوں نہ کھیل رہا ہوتا اس کے لئے ایک مشہور معاملہ منصور اختر کا ہے۔ جن کو عمران ان کی پے در پے ناکامیوں کے باوجود ٹیم میں شامل کرتے رہے۔اس سے ان کی شخصیت کا ’’ضدی‘‘پہلوجھلکتا تھا۔‘‘