تصوف اور سندھ

تصوف اور سندھ

اسپیشل فیچر

تحریر : جمیل جالبی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

مسلمانوں کے عروج و زوال اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ساری داستان تاریخ تصوف سے مرتب کی جا سکتی ہے۔ ارباب تصوف نے نہ تو شمشیرو سناں استعمال کی اور نہ ننگی تلواریں لے کر اسپ تازی پر سوار منگولوں کی طرح ملکوں کو تباہ و برباد کرتے پھرے۔ ان کا طریقہ سب سے الگ تھا۔ وہ محبت، انسانیت، مساوات، رواداری، حسن اخلاق اور وسیع النظری سے لوگوں کے دلوں میں محبت اور سچائی کے جذبات پیدا کر کے ان کی زندگیوں کی کایا کلپ کر دیتے تھے۔ ہر سچا انقلاب پہلے انسان کے دل و دماغ میںپیدا ہوتا ہے اور بعد میں وہ خارجی روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ انقلاب جو اس کے برعکس شروع ہوتا ہے بہت جلد سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ تصوف کی تاریخ انسان کے دل و دماغ کے انقلاب کی تاریخ ہے۔ عرفانِ ذات اور خود آگاہی سے انسان ’’حقیقت‘‘ کو سمجھنے لگتا ہے اور جب عرفانِ ذات کے ذریعہ انسان حقیقت کو ’’دیکھنے‘‘ بھی لگے تو یہ وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سے فلسفہ اورعمل ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت سے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ابن سینا جب نیشا پور میں حضرت ابوسعیدابوالخیر سے ملے تو دوران ملاقات انہوں نے کہا کہ ’’جو کچھ میں جانتا ہوں وہ آپ دیکھتے ہیں۔‘‘ یہ فقرہ بظاہر بہت معمولی سا دکھائی دیتا ہے لیکن عرفان ذات کی اس عظیم ترین بلندی کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ’’حقیقت‘‘ فرد کی ذات کا جزو بن جاتی ہے۔ شیخ علی ہجویریؒ نے ’’کشفُ المحجوب‘‘ میں عرفانِ ذات کی اسی عظمت کو ’’حقیقت‘‘ کی آخری منزل قرار دیا ہے۔ مولانا رومؒ نے اس مسئلہ پر یوں روشنی ڈالی ہے کہ تصوف تلاش حقیقت کے عمل کا نام ہے، علم باطن تصوف کی بنیاد ہے اور عشق و محبت اس کا اصل مقام۔ علم اور عمل، عرفانِ ذات اور خود آگاہی کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنا تصوف کی معراج ہے۔ ابتدا میں تصوف پر خالص شریعت کا غلبہ تھا لیکن جیسے جیسے اسلام مختلف ملکوں میں پھیلتا گیا ویسے ویسے مختلف اثرات طریقت میں شامل ہوتے ہو گئے اور انہیں اثرات نے نئے نئے تصورات کی شکل اختیار کر کے مختلف سلسلوں کی بنیاد ڈالی۔ کوئی نقشبندیہ کہلایا اور کوئی قادریہ اور چشتیہ کہلایا۔ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ میں تصوف پر ویدانت او ر نو افلاطونی فلسفہ کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ اس طرح تصوف نے ہر ملک و قوم کے مزاج، اس کے رسم و رواج اورفلسفہ سے اچھے اور کارگر عناصر لے کر اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونک کر اسے ذہنِ انسانی کے فہم سے قریب تر کردیا اور اس میں ایسی کشش اور گہرائی پیدا کر دی کہ تصوف ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا جس نے انسانی قلوب پر حکمرانی کر کے بڑے بڑے سلاطین کو اپنے آستانے پر جھکنے پر مجبور کیا۔ مولانا رومؒ کے والد مولانا بہاالدین یکتائے روزگار تھے۔ امیرو غریب ان کے حلقہ بگوش تھے۔ محمد خوارزم شاہ بھی اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ ایک دن جو پہنچا تو دیکھا کہ سینکڑوں ہزاروں کا مجمع لگا ہے۔ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ امام رازیؒ کے ساتھ تھے۔ فرمانے لگے ’’اگر اس کا تدارک ابھی نہ کیا گیا تو پھر مشکل پڑے گی۔‘‘ خوارزم شاہ نے قلعہ اور خرانے کی کنجیاں بھجوا دیں اور کہلا بھیجا کہ اسبابِ سلطنت میں سے صرف یہی میرے پاس رہ گئی ہیں وہ آپ کی نذر ہیں۔ اربابِ تصوف کا یہی وہ اثر تھا جس سے وہ لوگ شاہِ وقت کے مقابلے میں ایک نئی قوت بن گئے تھے۔ اربات تصوف کا یہ کمال رہا کہ انہوں نے عرفان ذات اور داخلیت پرزور دینے کے باوجود کبھی تصوف کو نہ تو منفی رجحانا ت کا حامل بننے دیا اور نہ کبھی فراریت اور ترک دنیا کی طرف مائل کیا اور جب اقتدار زمانہ سے اس میں منفی انداز فکر اورترکِ دنیا کا تصور داخل ہوا تو اس کا یہ اثر زائل ہو گیا اور اس کی قوت ضعیف ہو گئی۔ 750ء میں خلافت بنو امیہ سے بنوعباس میں پہنچ گئی اور دارالخلافہ دمشق کے بجائے بغداد قرار پایا۔ اسی زمانے میں عربوں کا نیا دارالسلطنت سندھ کے قریب ہو گیا۔ اس سے سندھ کی زندگی میں گہما گہمی پیدا ہو گئی اور اسلامی علما و حکما اور بزرگان دین مختلف علاقوں سے سمٹ کر یہاں جمع ہونے لگے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد بو علی سندھی جیسے بزرگ ہمیں اس سرزمین پر نظر آنے لگتے ہیں۔ بو علی سندھی وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق مولانا جامیؔ نے حضرت بایزید کے حوالہ سے ’’نفحات الانس‘‘ میںلکھا ہے کہ ’’میں نے علم توحید اور فنا بو علی سندھی سے سیکھے اور اسلامی توحید بو علی سندھی نے مجھ سے سیکھی۔‘‘ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد سے مسلمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ اور بڑھ گیا اور جب شہاب الدین محمد غوری نے دہلی پر قبضہ کیا اور یہاں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت مستحکم ہو گئی تو مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ سے بھی علما اور مفکرین وغیرہ آکر جمع ہونے شروع ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وسطیٰ ایشیا میں منگولوں کے حملوں نے ہر طرف تباہ کاری مچا رکھی تھی۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کے ہر گوشے میں صوفائے کرام اور بزرگان دین اپنے حسن اخلاق رواداری اور انسان دوستی کے ذریعہ اشاعت اسلام کرتے نظر آ رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

ہمارا یہ کرۂ ارض اس قدر وسیع، عریض اور عجیب و غریب ہے جس کے ہر کونے میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا ہو رہا ہوتا ہے۔ انوئک نامی ایسا ہی ایک قصبہ کینیڈاکے شمال مغرب میں آرکٹک کے برفیلے علاقے میں واقع ہے۔ آرکٹک کے اس علاقے کا شمار دنیا کے سرد ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں کا موسم گرما ٹھنڈا اور موسم سرما انتہائی سرد ہوتا ہے۔ موسم سرما کا اوسط درجۂ حرارت منفی 37ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ یہ بعض اوقات منفی 68 ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہاں موسم گرما کے 50 سے 55 دن سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور یوں سارا دن روشنی رہتی ہے جبکہ موسم سرما کے 30 دن سورج طلوع ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سارا دن اندھیرا رہتا ہے۔ یہاں سردیوں کا دورانیہ انتہائی طویل جبکہ گرمیوں کا موسم بہت مختصر ہوتا ہے۔ انوئک کی آبادی لگ بھگ 3500 نفوس پر مشتمل ہے جس میں 120 کے لگ بھگ مسلم برادری کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کے مسلمان اپنی اسلامی اقدار اور دین کے ضابطوں پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں سخت اور تکلیف دہ موسموں سے مسلم برادری کو متعدد مسائل کا سامنا سارا سال رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کی واحد خوبصورت مسجد ''مڈ نائٹ سن مسجد ‘‘ میں پانچ وقت با جماعت نماز اور ماہ صیام میں افطار کے وقت یہاں کے مسلم باسیوں کا اجتماع قابل دید ہوتا ہے۔ماہ صیام کے حوالے سے آج سے کچھ سال پہلے تک یہاں کی مسلم برادری کو خاص طور پر موسم گرما میں اپنی عبادات کو قائم رکھنے کیلئے بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب موسم گرما میں 50سے 55 دنوں تک ہر وقت سورج چمکتا رہتا تھااور ایسی ہی مشکل ان کیلئے موسم سرما میں ہوتی تھی جب سارا دن مسلسل اندھیرا رہتا تھا۔ چنانچہ اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے یہاں کی مسلم برادری نے متفقہ طور پر اپنے نظام اوقات جن میں نمازیں اور روزے شامل ہیں ان کو سعودی عرب کے شہر مکہ سے منسلک کردیا ہے۔چنانچہ اب یہاں کی نمازوں کے اوقات اور روزوں کے شیڈول کو مکہ کے اوقات کار کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ ماہ صیام میں آدھی رات کے وقت سورج چمک رہا ہوتا ہے اور یہاں کی واحد مسجد میں اس قصبے کے سارے مسلمان اپنے اپنے گھروں سے لائے کھانوں سے مل کر روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔ جو یہاں کی مسلم برادری کے اتفاق، اتحاد اور بھائی چارے کی دلیل ہے۔ یہاں قائم خوبصورت '' مڈ نائٹ سن مسجد‘‘ کو 2010ء میں 4000 کلومیٹر کی دوری سے کینیڈا کے صوبے مینی ٹوبا کے شہر ونی پیگ میں تیار کر کے ایک بہت ٹرالے کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا۔یہاں کے مسلمانوں کو اب کچھ عجیب نہیں لگتا کہ سال کے بیشتر دنوں میں وہ پانچوں وقت کی نمازیں چمکتے سورج کے سائے میں یا بعض اوقات مکمل اندھیرے میں ادا کرتے ہیں۔اسی طرح اب وہ اس بات کے بھی عادی ہو گئے ہیں جب سورج چمک رہا ہوتا ہے یا بعض اوقات نصف شب کے وقت مکمل اندھیرے میں وہ روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔یہاں زیادہ تر مسلمان کینیڈا کے وہ مہاجر مسلمان ہیں جو دنیا کے مختلف کونوں سے کینیڈا کی شہریت لے کر آباد ہوئے ہوتے ہیں اور پھر تلاش رزق انہیں انوئک لے آتی ہے۔ یہاں چونکہ آرکٹک کے آس پاس معدنیات تلاش کرنے والی کمپنیاں سارا سال اپنا کام جاری رکھے ہوتی ہیں اس لئے یہاں آئے مسلمان بھی کم و بیش اسی سلسلے کی کڑی ہوتے ہیں۔ انوئک کا تاریخی پس منظر انوئک 1953ء سے دریائے میکنزی کے کنارے اکلاوک نامی وادی میں آباد چلے آ رہے تھے جب رفتہ رفتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سیلاب یہاں کا معمول بنتے چلے گئے۔ جس کے سبب یہاں کے باسی یہاں سے ہجرت کر کے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوئے ، جسے نیو اکلاوک کانام دیا گیا۔ 1958ء میں اس قصبے کا نام بدل کر انوئک رکھ دیا گیا۔ رفتہ رفتہ آبادی میں اضافہ ہوا تو 1959ء میں یہاں پہلا سکول قائم کیا گیا جبکہ 1960ء میں یہاں ایک اسپتال، سرکاری دفاتر اور ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔1967 ء تک انوئک ایک دیہات کے طور پر جانا جاتا تھا جبکہ 1969ء میں اسے ایک گاؤں کا درجہ دے دیا گیا۔ 1970ء میں آبادی کے اضافے کے ساتھ اسے باقاعدہ طور پر ایک قصبے کا درجہ دے کر یہاں کیلئے ایک مئیر اور کونسل کا انتخاب کیا گیا۔1979ء میں انوئک کو بذریعہ شاہراہ کینیڈا کی ڈمپسٹر ہائی وے سے ملا دیا گیا جہاں بذریعہ شاہراہ گرمیوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔سردیوں میں دریائے میکزی پر بننے والے برفانی پل کے ذریعے اس قصبے تک پہنچا جا سکتا تھا۔یہاں کا سفر زیادہ تر پلوں اور کشیوں کا محتاج ہوتا ہے۔لیکن عام طور پر یہاں کی شاہراہ کو تین ماہ کیلئے اکتوبر سے دسمبر تک بند رکھا جاتا ہے تاکہ برف اچھی طرح جم جائے اور لوگ آسانی سے برفانی راستوں پر سفر کر سکیں۔اسی طرح جب موسم گرما میں برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو مئی اور جون میں ایک مرتبہ پھر اس سڑک کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران زمینی ذرائع سے یہ علاقہ ملک کے باقی حصوں سے کٹ جاتا ہے۔

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI) کو جدید ٹیکنالوجی کا سب سے انقلابی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف صنعتوں کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ معاشروں کے سماجی اور معاشی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایک اہم سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا AI کے پھیلاؤ سے ملازمت کے مواقع کم ہوں گے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا؟ اس مضمون میں ہم AI کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں گے، نوکریوں کے ضائع ہونے اور نئے مواقع کے درمیان توازن تلاش کریں گے، اور مستقبل کے لیے تجاویز پیش کریں گے۔ نوکریوں کا ضیاع: خطرات اور شواہد AI کی بنیاد پر مشین لرننگ، روبوٹکس، اور آٹومیشن نے پہلے ہی کئی شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر: مینوفیکچرنگ: روبوٹس تیزی سے اسمبلی لائنوں پر کام کر رہے ہیں۔ کسٹمر سروس: چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس انسانی نمائندوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن: خودکار گاڑیوں سے ڈرائیوروں کی مانگ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ مک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں 40 سے 80 کروڑ افراد کو نوکریاں بدلنے یا نئی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ خاص طور پر وہ کام جو بار بار دہرائے جاتے ہیں (جیسے ڈیٹا انٹری، سادہ حساب کتاب)، AI کے ذریعے آسانی سے خودکار ہو سکتے ہیں۔ نئے مواقع AI کا دوسرا رخ ہر ٹیکنالوجی کی طرح AI کابھی دہرا کردار ہے۔ جہاں یہ کچھ پیشوں کو ختم کرے گی وہیں نئی صنعتیں اور ملازمت کے شعبے پیدا بھی کرے گی۔ مثال کے طور پر سافٹ ویئر انجینئرز، ڈیٹا سائنٹسٹس اور AI ماہرین کی مانگ بڑھے گی۔ مشینوں کی دیکھ بھال اور ٹربل شوٹنگ کے لیے نئے ٹیکنیشنز درکار ہوں گے۔ AI کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹرز مریضوں کی بہتر تشخیص کر سکیں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2025ء تک AI اور آٹومیشن سے نو کروڑ70 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، خاص طور پر ٹیکنالوجی، صحت، اور توانائی کے شعبوں میں۔ نوکریوں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مستقبل کی لیبر فورس کو نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی۔ ری سکلنگ اور اپ سکلنگ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پرہر شعبے میں کم از کم بنیادی AI اور ڈیٹا انالیٹکس کی سمجھ ضروری ہوگی۔ مشینوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسانوں کو تنقیدی سوچ، تخلیقی حل اور جذباتی ذہانت پر توجہ دینی ہوگی۔ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں خصوصاً STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) پر توجہ بڑھائیں۔ AI کے معاشی اثرات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ معاشرے اس تبدیلی کو کتنی احتیاط سے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر آمدنی اور مواقع میں عدم مساوات بڑھی تو سماجی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم (UBI) یعنی خودکار معیشتوں میں شہریوں کو بنیادی آمدنی کی ضمانت اس کاممکنہ حل ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں AI سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کر کے ری ٹریننگ پروگراموں کو فنڈ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر صنعتی انقلاب (سٹیم انجن، بجلی، کمپیوٹر) نے ابتدا میں بے روزگاری کا خوف پیدا کیا لیکن نئی صنعتوں نے زیادہ نوکریاں دیں۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی میں کھیتی باڑی کی جگہ فیکٹریوں نے لی مگر لوگوں نے نئے ہنر سیکھے۔ اسی طرح AI بھی انسانوں کو زیادہ پیچیدہ اور تخلیقی کاموں پر مرکوز ہونے کا موقع دے سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں لیبر فورس زیادہ اور مہارتیں کم ہیں AI کا اثر مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کال سینٹرز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آٹومیشن سے بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔ تاہم ان ممالک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور تعلیمی اصلاحات پر توجہ دی جائے تو وہ AI سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جیسے زراعت میں AI کے استعمال سے پیداوارمیں اضافہ وغیرہ۔ AI کے استعمال میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی اور ملازمت کے تحفظ کے قوانین بنائیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں اور حکومتیں مل کر ری ٹریننگ پروگرام چلائیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اگرچہ کچھ نوکریاں ختم کرے گی لیکن نئے شعبے بھی جنم دے گی۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی لیبر فورس کو اس قابل بنائیں کہ وہ تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملا سکے۔ تعلیم، حکومتی پالیسیاں اور سماجی شعور ہی وہ ستون ہیں جو AI کے دور میں بے روزگاری کے طوفان سے بچا سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کا بنایا ہوا ایک آلہ ہے، اس کا استعمال ہمارے ہاتھ میں ہے۔

رمضان کے پکوان:لقمی سموسہ

رمضان کے پکوان:لقمی سموسہ

اجزاء: میدہ ایک کلو، گھی آدھا کلو، قیمہ ایک کلو، مرچ سیاہ، نمک، پیاز، لہسن حسب ضرورت ترکیب:میدہ میں گھی ملا کر خوب ملیے اور دودھ سے گوندھئے۔ ایک کلو قیمہ کو دو پیازہ کی طرح پکایئے۔ تیاری کے بعد مصالحہ سادہ تیار کر کے میدہ کی پوریاں بنا کر دوپارہ کر لیجیے اورآدھی پوری میں بھرکر ہر ایک پوری کے دو سموسے بنا لیجیے۔ اگر میوہ ڈالنا ہو تو قیمہ کی بجائے کشمش ثابت اخروٹ، پستہ اور بادام کو کوٹ کر کے بھر دیجیے۔ویجیٹیبل میکرونی پیکٹساجزاء:ابلی ہوئی میکرونی ایک پیالی، نمک حسب ذائقہ، گاجر ایک عدد، ہری پیاز دو عدد، ہری مرچیں دو سے تین عدد، سموسے کی پٹیاں حسب ضرورت، کوکنگ آئل حسب ضرورت۔ترکیب: ابلی ہوئی میکرونی میں باریک کٹی ہوئی گاجر، ہری پیاز، نمک اور باریک کٹی ہوئی ہری مرچیں ڈال کر ملائیں۔ سموسے کی چوکور پٹیاں لے کر اس کے درمیان میں ایک کھانے کا چمچ تیار کیا ہوا مکسچر رکھیں اور اسے چاروں کونوں سے اٹھا کر پیکٹ کی طرح فولڈ کر لیں آٹے کی لئی سے چسپکا لیں اور کڑاہی میں گرم کوکنگ آئل میں سنہری فرائی کر لیں۔

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حکایت سعدیؒ:نصیحت

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ حاکمِ شیراز تکلہ بن زنگی نے ایک دن ندیموں کی مجلس میں یہ اعلان کیا کہ میں تختِ حکومت چھوڑ کر باقی عمر یادِ خدا میں بسر کروں گا۔ بادشاہ کی یہ بات سنی تو ایک روشن ضمیر بزرگ نے ناراض ہو کر کہا کہ اے بادشاہ! اس خیال کو ذہن سے نکال دے۔ دنیا ترک کر دینے کے مقابلے میں تیرے لیے یہ بات کہیں افضل ہے کہ تو عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے اور اپنے اچھے کاموں سے خلقِ خدا کو فائدہ پہنچائے۔ یاد رکھ! عبادت خلقِ خدا کی خدمت کے سِوا کچھ نہیں۔ تسبیح و سجادہ تو یہ مقصد حاصل کرنے کے ذریعے ہیں۔ صاحبِ دل بزرگوں کا یہ دستور رہا ہے کہ گو ان کے جسم پر بہترین قبا ہوتی تھی لیکن وہ قبا کے نیچے پرانا کُرتا پہنتے تھے۔ تُو بھی یہی طریق اختیار کر۔ صدق و صفا کو اپنا اور شیخی اور ظاہر داری سے بچ۔اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے دنیا سے تعلق کے بارے میں صحیح اسلامی تصور پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان دنیا سے کنارہ کش نہ ہو۔

آج کا دن

آج کا دن

باربی ڈول متعارف کرائی گئی1959ء میں آج کے روز معروف کارٹون اور کھلونا گڑیا باربی ڈول کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا گیا۔ اس گڑیا کو امریکی کھلونا ساز کمپنی نے جرمن گڑیا''بائلڈ لی لی‘‘ سے متاثر ہو کر بنایاتھا۔ باربی ڈول کا شمار دنیا کے مشہورترین کرداروں میں ہوتا ہے۔اب یہ گڑیا ایک فیملی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس فیملی کے اراکین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہٹلر کا نئی فضائیہ بنانے کا اعلان9مارچ1935ء کوایڈولف ہٹلر نے ورسائیلس معاہدے کی خلاف ورزی پر جرمنی کی فوجی طاقت کو دوبارہ مضبوط کرنے کااعلان کیا۔اسی عرصے میں دنیا دوسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی تھی اور عالمی حالات دن بدن خراب ہو رہے تھے۔ ہٹلر نے تقریباً5لاکھ فوجی بھرتی کرنے اور جرمنی کیلئے ایک نئی فضائیہ بنانے کا اعلان بھی اسی دوران کیا۔ایستونیا پر بمباریدوسری عالمی جنگ کے دوران ایستونیا پر شدید بمباری کی گئی۔ پہلی بمباری1941ء میں کی گئی جو ''آپریشن باربروسہ‘‘ کا حصہ تھی۔ اس کے بعد ایستونیا کے دارالحکومت تالین پر9مارچ 1944ء کو سوویت یونین کی جانب سے کی جانے والی بمباری سب سے زیادہ تباہ کن تھی، اسے ''مارچ بمباری‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین نے دو دن کے دوران ہزاروں بم برسائے۔بدترین ہوائی حادثہ1957میں ٹرانس ورلڈ ائیر لائنز کی پرواز نمبر553حادثے کا شکار ہوئی۔یہ فلائٹ ہوا میں پرواز کے دوران ایک دوسرے جہاز سے ٹکرا گئی ۔اس حادثے کا شمار دنیا کے بدترین ہوائی حادثات میں ہوتا ہے ۔ اس حادثے میں26افراد لقمہ اجل بنے۔اس حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور کنٹرول ٹاور دونوں کو ٹھہرایا گیا۔ فلم ''چراغ جلتا رہا‘‘ ریلیز ہوئی9مارچ 1962ء کو عید الفطر کے موقع پر پاکستان فلم انڈسٹری کی سپرہٹ فلم ''چراغ جلتا رہا‘‘ سینما گھروں کی زینت بنی ۔یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم اس لحاظ سے ایک یادگار فلم تھی کہ اس کے ذریعے 4 باکمال فنکاروں محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی نے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔

8مارچ خواتین کا عالمی دن

8مارچ خواتین کا عالمی دن

عالمی یومِ خواتین ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن خواتین کی جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات کے فروغ، خواتین کے حقوق کی حفاظت اور انہیں مزید بااختیار بنانے کے عزم کو دہرانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔عالمی یومِ خواتین کا آغاز 1908ء میں نیویارک میں محنت کش خواتین کی ایک تحریک سے ہوا، جہاں انہوں نے بہتر کام کے حالات، کم اوقاتِ کار اور مساوی اجرت کے حق میں آواز بلند کی۔ 1910ء میں کوپن ہیگن میں سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران پہلی بار خواتین کے عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔ بالآخر 1977ء میں اقوامِ متحدہ نے باضابطہ طور پر 8مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے طور پر تسلیم کر لیا۔یہ 8 مارچ 1907ء کی بات ہے جب نیویارک کی ملبوسات بنانے والی صنعت سے منسلک خواتین نے پہلی بار 10 گھنٹے کام کرنے کے خلاف اور مزدوری کی اجرت میں اضافہ کیلئے آواز اٹھائی۔ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آئیں تو پولیس نے ان پر سخت تشدد کیا۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔ایک سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے خواتین کے پہلے قومی دن کا اعلان کیا تاہم اسے بین الاقوامی بنانے کا خیال سب سے پہلے کلارا زیٹکن نامی خاتون کے ذہن میں آیا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انہوں نے 1910ء میں کوپن ہیگن میں ''انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن‘‘ میں یہ خیال پیش کیا 8 مارچ کو دنیا بھر میں ''محنت کش‘‘ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔ وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔یہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911ء میں منایا گیا۔ اس کی صد سالہ تقریب 2011ء میں منائی گئی لہٰذا، تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 114 واں عالمی دن منانے جا رہے ہیں۔ پہلے یہ دن صرف سوشلسٹ ممالک میں منایا جاتا تھا مگر برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے بعد یہ دن عورتوں کے اقوام متحدہ پر زور ڈالنے پر دنیا بھر کی خواتین کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منایا جانے لگا۔ اب ساری دنیا کی عورتیں 8 مارچ کو عورتوں کی یکجہتی، برابری اور حقوق کے حصول کی جدوجہد کے دن کے طور پر مناتی ہیں کیونکہ اب یہ جدوجہد پوری انسانیت کے ساتھ جوڑی جا چکی ہے۔ عورتوں کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔ صنفی مساوات کی اہمیتصنفی مساوات کا مطلب ہے کہ ہر مرد اور عورت کو یکساں مواقع، حقوق اور سہولیات میسر ہوں۔ ایک متوازن معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ خواتین تعلیم، صحت، معیشت، سیاست اور سائنس جیسے شعبوں میں اپنی مہارت کا لوہا منوا چکی ہیں، مگر آج بھی کئی مقامات پر انہیں امتیازی سلوک، کم اجرت، گھریلو تشدد اور تعلیمی مواقع کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو، جن میں مردوں کے ساتھ پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں، برابری کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا آدھا حصہ خواتین ہیں۔ جب تک خواتین کو برابر کا حق نہیں ملتا، خاص طور پر تعلیم، صحت، معاشی اور معاشرتی زندگی میں انہیں مردوں کے برابر کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ''دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ قوم کے مردوں کے ساتھ خواتین بھی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ حصہ نہ لیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کی حفاظت فرمائے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب بحث چھڑی ہوئی ہے، اس میں چند خواتین ایسی ہیں جو اس دن ''عورت مارچ‘‘ کے نام سے ریلی نکالتی ہیں اور اس میں مختلف قسم کے بینرز اور پلے کارڈ وغیرہ اٹھاتی ہیں جن پرکئی نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ یہ نعرے ان مارچ کرنے والی خواتین کے خیالات، جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں احتجاج کا حق ہر کسی کو ہوتا ہے اس لیے خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج کریں۔ خواتین کے حقوق اور ہماری ذمہ داریعالمی یومِ خواتین ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ اور رویے بدلنے ہوں گے۔ خواتین کو تعلیم، صحت، ملازمت، وراثت اور فیصلہ سازی کے مواقع دینے سے ہی ایک بہتر اور خوشحال معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ حکومت، نجی اداروں اور عام شہریوں کو مل کر خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔عالمی یومِ خواتین صرف ایک دن منانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک ہے جو ہمیں خواتین کے حقوق اور مساوات کے لیے عملی اقدامات کرنے کی یاد دلاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نہ صرف 8 مارچ بلکہ سال بھر خواتین کی ترقی کے لیے کام کریں، تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں ہر عورت عزت، آزادی اور برابری کے ساتھ زندگی گزار سکے۔تو آئیے، مل کر ''اقدامات میں تیزی‘‘ لائیں اور خواتین کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں! خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دنخواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دن ہے، بشمول روس کے جہاں 8 مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازموں کو نہیں دیتیں۔اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایت کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا۔امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔اقدامات میں تیزی عالمی یوم خواتین 2025کا تھیم عالمی یومِ خواتین 2025ء کی مہم کا موضوع''اقدامات میں تیزی‘‘ لانا ہے۔ہم سب مل کر صنفی مساوات کے لیے اقدامات میں تیزی لا سکتے ہیں۔8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین (IWD) 2025ء کے موقع پر یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں اوراقدامات میںتیزی لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ورلڈ اکنامک فورم کے اعداد و شمار کے مطابق، موجودہ رفتار سے ترقی جاری رہی تو مکمل صنفی مساوات حاصل کرنے میں 2158ء تک کا وقت لگے گا، جو آج سے تقریباً پانچ نسلوں بعد کا سال ہے۔اقدامات میں تیزی پر توجہ مرکوز کرنے کا مطلب ہے کہ صنفی مساوات کے حصول کیلئے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں خواتین کو درپیش رکاوٹوں اور تعصبات کو دور کرنے کیلئے تیز تر اور مؤثر پیش رفت کرنی ہوگی، چاہے وہ ذاتی زندگی میں ہوں یا پیشہ ورانہ میدان میں۔تو آئیے، مل کر اقدامات میں تیزی لائیں تاکہ دنیا بھر میں ترقی کی رفتار کوتیز کیا جا سکے!عورتعلامہ محمد اقبال ؒوجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگاسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوںشرف میں بڑھ کے ثریّا سے مشت خاک اس کیکہ ہر شرَف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوںمکالماتِ فلاطوں نہ لِکھ سکی، لیکناسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں (ضربِ کلیم)