موسمیاتی پیش گوئی کیسے کی جاتی ہے!
بارش کا امکان ہے۔ یہ سادہ سا جملہ آپ کے پکنک کے منصوبے کو تہ و بالا اور خشک سالی کی شکار فصل کو ہرابھرا کر نے کا امکان پیدا کرسکتا ہے۔ ہماری زندگی میں کم ہی چیزیں اتنی عالم گیر ہیں جتنا موسم۔ ہماری فضا میں آنے والے طوفان وغیرہ ہماری روزمرہ زندگی پر مختلف طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ہم نشر ہونے والی خبروں میں موسم کی پیش گوئی سنتے ضرور ہیں لیکن اس پر پوری طرح اعتبار نہیں کرتے۔ شاید آپ نے یہ لطیفہ سنا ہو: موسمیات وہ پیشہ ہے جس میں آپ ہر بار غلط ہونے کے باوجود معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ درحقیقت موسم کی پیش گوئی گزشتہ چند دہائیوں میں بہت زیادہ بہتر ہوئی ہے۔ موسم کی تشکیلپیش گوئی کے عمل سے قبل، یہ سمجھنا ہوگا کہ موسم بنتا کیسے ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ہمیں اوپر کا رخ کرنا پڑے گا۔ زمین کے گرد لپٹی فضا کا بیشتر حصہ نائٹروجن، آکسیجن اور پانی کے بخارات پر مشتمل ہے۔ پانی کی طرح ہوا بھی رواں سیال کی طرح حرکت کرتی ہے۔ ایک مقام سے دوسرے کی جانب سفر کرتے ہوئے ہوا اپنی خصوصیات بھی ساتھ لے جاتی ہے اور نئے مقام پر درجۂ حرارت، نمی وغیرہ کو بدل دیتی ہے۔ سادہ الفاظ میں موسم، ہماری فضا میں پائی جانے والی حدت کے ایک سے دوسرے مقام پر منتقل ہونے کے عمل کی ذیلی پیداوار ہے۔ نسبتاً سرد ہوا کثیف ہوتی ہے اور اس میں زیادہ نمی نہیں ٹھہر پاتی۔ گرم ہوا کم کثیف ہوتی ہے اور اس میں زیادہ پانی گرفت میں رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب مختلف درجۂ حرارت اور کثافت والے فضائی علاقے آمنے سامنے آتے ہیں تو ان کی سرحد کو محاذ یا فرنٹ کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ ابرآلود ٹکراؤ بارش کا سبب بنتے ہیں کیونکہ گرم ہوا ٹھنڈی ہونے پر اپنی گرفت میں آئے پانی کے قطروں کو گرانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ بارش صرف فرنٹ کے سبب نہیں ہوتی۔ ہوا کا ایصال حرارت بھی بارش برسانے کا سبب بنتا ہے۔ گرم، نم دار ہوا اوپر اٹھتے ہوئے ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے، اور اس میں موجود پانی کے قطرے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور بالآخر اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ واپس زمین پر گرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اور آپ چھتری پکڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تشکیل پانے والے طوفان کو اگر زمین یا فضا سے مزید نمی نہ ملے تو آگے بڑھتے ہوئے یہ کمزور ہوتا جائے گا۔ اگر اسے زیادہ گرم ہوا اور نمی مل جائے، جیسا کہ سمندری طوفانوں کو سمندر کے اوپر حرکت کرتے ہوئے ملتی ہے، تو یہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پیش گوئی کی ابجدموسم پر بہت زیادہ عوامل کی مداخلت کے پیشِ نظر یوں لگتا ہے کہ فضاؤں میں موسم کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہوگا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ ایک امریکی ماہر موسمیات کا کہنا ہے کہ موسم کی پیش گوئی ان چند شعبوں میں سے ہے جن میں کسی نظام کی نمو کی درست پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے جبکہ ایسا معیشت یا کھیل کے میدانوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے کا انحصار قابلِ بھروسہ مشاہدات پر ہوتا ہے۔ سائنسی موسمیاتی مشاہدات کا آغاز نشاۃ ثانیہ کے دور میں بار پیما اور تپش پیما یا تھرمامیٹر کی ایجاد کے ساتھ ہوا۔ اس دور کے یورپی سائنس دانوں جیسے گلیلیو نے ان آلات سے پیمائشوں کا آغاز کیا جو بالآخر موسمیاتی کیفیات کی وضاحت کا باعث بنیں۔ 1800ء کی دہائی کے اواخر میں موسم کے خام نقشے عام آنے لگے۔ البتہ ابتدائی موسمیاتی پیش گوئیاں زیادہ تر تسلسل یا سابقہ صورت حال کے پیش نظر کی جاتی تھیں۔ مثلاً اگر ایک شہر میں طوفان آیا اور اس کے بعد اس کے راستے میں آنے والے دوسرے شہر میں بھی آیا تو اسی سمت میں تیسرے شہر میں طوفان کی پیش گوئی کر دی جاتی۔ اگر طوفان پر دیگر عوامل اثرانداز نہ ہو رہے ہوں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسی سادہ تکنیک بدلتے حالات میں کارگر نہیں ہوتی، مثلاً کوئی نیا ’’فرنٹ‘‘ قائم ہو جائے اور درجۂ حرارت بدل دے۔ خوش قسمتی سے اب پیش گوئی کرنے کے نئے اور بہتر راستے موجود ہیں۔ آج موسم کی پیش گوئی، موسمیاتی نقشوں یا گزرنے والے کل کو دیکھ کر نہیں، بلکہ آلات کی مدد سے کی جاتی ہیں۔ جدید موسمیاتی پیش گوئیماہرینِ موسمیات موسم کی شماری پیش گوئی کہلانے والے ایک عمل سے مدد لیتے ہیں، جس میں وہ موجودہ صورتِ حال کو کمپیوٹر کے ماڈلز میں ڈالتے ہیں۔ ان ماڈلز کو جتنی تازہ اور درست معلومات دی جاتی ہیں موسم کی پیش گوئی اتنی ہی بہتر ہوتی ہے۔ زمینی ریڈار، موسمیاتی غبارے، ہوائی جہاز، مصنوعی سیارے، سمندر پر تیرتے آلات اور دیگر ذرائع سے حاصل شدہ کثیر جہتی مشاہدات کو ماڈلز استعمال میں لاتے ہیں۔ اس طرح ماہرین موسمیات کے سامنے وہ روپ آتا ہے جس میں معلوم ہوجاتا ہے کہ فضا میں ہو کیا رہا ہے، اور پھر وہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں، یا بعض ماڈلز کے مطابق چند گھنٹوں میں کیا ہوگا۔ موسمیاتی ماڈلز میں خطوں کی تقسیم بھی ہوتی ہے اور اس میں پورا عالم بھی ہوتا ہے۔ یہ تقسیم ڈبوں یا سیلز کی صورت میں ہوتی ہے۔ اگر یہ بڑے ہوں گے تو ان میں چھوٹے علاقوں کے بارے میں بتانے کی صلاحیت کم ہو گی، لیکن یہ موسم کے وسیع تر رجحان کو طویل عرصے کے لیے بیان کرنے کے زیادہ قابل ہوں گے۔ یہ بڑی تصویر اس وقت مدد گار ہوتی ہے جب کسی بڑے طوفان کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ آئندہ ہفتے کہاں پہنچے گا۔ چھوٹے ڈبوں یا سیلز کا مطلب ہے کہ ان کی ریزولوشن زیادہ ہو گی، اوریہ چھوٹے طوفانوں کی پیش گوئی کر سکیں گے۔ ان ماڈلز میں کمپیوٹر کو زیادہ جانفشانی کرنا پڑتی ہے، اور یہ لوگوں کو مقامی علاقوں میں ایک دو دن میںآنے والے طوفان وغیرہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ماڈلز کی بنیاد تو ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ان کے کمپیوٹر کوڈ میں فرق ہو سکتا ہے۔ بعض ماڈل میں پیش گوئی کے لیے ہوا کی رفتار، درجہ حرارت کی جان کاری پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ انسانوں کا کاماگر کمپیوٹر یہ سارا کام کر رہے ہیں تو انسانوں کے کرنے کو کیا رہ جاتا ہے؟ جہاں تک روزمرہ موسم کی کچھ چیزیں جاننے کا تعلق ہے، جیسا کہ درجۂ حرارت، تو اس میں انسانوں کا کام زیادہ نہیں۔ اب پیش گوئی کے ماڈل اتنے اچھے ہو چکے ہیں کہ انسان کی ضرورت بہت کم رہ گئی ہے۔ لیکن یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انسان غیرضروری ہیں۔ موسمیاتی پیش گوئی کرنے والے ماہرین کمپیوٹر کی بتائی باتوں میں کچھ ردوبدل کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس علاقے کو، جس کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، اچھی طرح جانتے ہوں۔ بعض موسمیاتی حالات کی پیش گوئی کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک صورت حال بارش کی پیش گوئی ہے، جو درجۂ حرارت کی پیش گوئی سے کہیں مشکل ہے۔ ایک ماہر موسمیات بتاتے ہیں کہ درجہ حرارت ایک مستقل شے ہے جو ہر مقام پر ہوتا ہے، لیکن بارش آنے جانے والی شے ہیں، یعنی بہت بڑا علاقہ ایسا ہوتا ہے جہاں یہ نہیں ہوتی، اور بعض مقامات پر بارش یا برف باری بہت تیز ہوتی ہے۔ مقامی جغرافیہ جیسا کہ سلسلۂ کوہ، ساحل یا بڑی جھیل بارش پر کچھ اس طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں کہ ماڈل اسے نہ سمجھ پائے۔ ایسے میں ماہرینِ موسمیات کا تجربہ کام آتا ہے۔ اگر پیش گوئی سے سمندری طوفان، بڑے بگولے یا سیلاب جیسے بڑے واقعات نتھی ہو جائیں تو چیلنج بڑھ جاتا ہے کیونکہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوتا ہے۔ اس دوران درست فیصلہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ امکانات 1950ء کی دہائی اور کمپیوٹر کے استعمال کے بعد زیادہ تیزی اور درستی سے موسم کی پیش گوئی ہونے لگی۔ آج دنیا کے چند سب سے بڑے اور طاقت ور سپر کمپیوٹر اسی کام کے لیے وقف ہیں۔ وہ پیش گوئی اور موسمیاتی تبدیلی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کے مطابق اب پانچ روزہ پیش گوئی تقریباً 90 فیصد مرتبہ درست ہوتی ہے، سات دنوں کی پیش گوئی کا تناسب 80 فیصد ہے جبکہ 10 دنوں کی پیش گوئی کا تناسب 50 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح بڑے طوفانوں کی پیش گوئی بھی خاصی درست کر لی جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آتی جا رہی ہے۔ پیش گوئی کی استعداد تو بہتر ہو رہی ہے لیکن ایک سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ یہ کتنی بہتر ہو سکتی ہے؟ قدرت نے فضا کی فطرت میں بہت ہنگامہ خیزی رکھ چھوڑی ہے، اسی لیے بنائے گئے ماڈلز اور ان کی پیش گوئی کی حدود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہانگ کانگ میں پَر پھڑپھڑانے والی تتلی نیویارک کا موسم بدل سکتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی سی تبدیلیاں موسمیاتی نظام پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتی ہیں۔ (تلخیص و ترجمہ: رضوان عطا)