کشمیر پر پاکستان کا ردعمل ٹویٹس اور بیانات تک محدود
تجزیے
اہم ایشو پر وہ سنجیدگی اور یکسوئی نظر نہیں آ رہی جو اس کی متقاضی ہےپاکستان کی شہ رگ آج دشمن کے پنجے میں ،بھارتی مکروہ چہرہ سامنے آچکا
(تجزیہ: سلمان غنی) کشمیر کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں کشمیریوں نے بھرپور انداز میں یوم الحاق پاکستان منا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی پر بھارت کا تسلط قبول نہیں کریں گے اور طاقت اور قوت کا بے بہا استعمال اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے خلاف ہماری جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ اس کا ثبوت ہے ، ہماری تاریخ ساز جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمیں حق خودارادیت نہیں مل جاتا ، وہ دن دور نہیں جب کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ حقیقت بنے گا اور کشمیر پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا ،لہٰذا اس موقع پر اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ مقبوضہ وادی میں ریاستی دہشت گردی کا بے دردی سے استعمال آزادی کشمیر کی جدوجہد پر کس حد تک اثرانداز ہوا۔ کیا کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں کوئی فرق آیا اور کئی ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور کرفیو کا عمل کشمیریوں پر بھارتی تسلط قائم کر سکا۔ تقریباً ایک سال کے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود کسی کشمیری کے دل سے آزادی کا جذبہ اور پاکستان کی محبت نہیں نکالی جا سکی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ 5 اگست سے شروع ہونے والے واقعات سے بھارت کا مکروہ اور پرفریب چہرہ پہلے سے کہیں زیادہ بھیانک صورت میں دنیا کے سامنے آ چکا ہے ۔ اب وہ یہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر اتر آیا ہے ،اس نے جموں و کشمیر کو اپنی نو آبادی بنانے کیلئے اپنی نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بھی نکال دیا ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس گھناؤنے اقدام پر ماتم کرنے کے بجائے خوشیاں منا رہے ہیں ۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس بھی گواہ ہیں ، جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے باوجود بھارتی افواج کشمیر پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکیں اور یہاں کشمیریوں کی ان کے خلاف نفرت عروج پر ہے اور وہ آزادی سے کم کسی قیمت پر تیار نہیں ۔دس لاکھ فوج اور ان کے ہاتھوں میں پکڑی بندوقوں کے باوجود ان پر کشمیریوں کے ردعمل کا خوف سوار ہے اور وہ ہر نوجوان کو برہان سمجھتے ہوئے اس پر پل پڑتے ہیں ،لیکن ردعمل ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جہاں تک پاکستان کے کردار کا سوال ہے تو پاکستان کا ردعمل اور احتجاج محض ٹویٹس’ بیانات اور قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ جس پاکستان سے ملنے کی خاطر کشمیری اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اس پاکستان میں اس اہم ایشو پر وہ سنجیدگی اور یکسوئی نظر نہیں آ رہی جو اس کی متقاضی ہے ۔ 5اگست کے بعد کشمیر کیلئے حکومتی اور ریاستی پالیسی کے طور پر آخری گولی، آخری سانس اور آخری جوان تک کے بیان سے عملاً ہم انحراف کئے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کشمیر جیسے انسانی اور ملی ایشو پر ہماری مجرمانہ غفلت پر تاریخ ہمیں کسی صورت معاف نہیں کرے گی ، نہ ہی ہماری نسلیں محفوظ رہیں گی ۔ یہ کشمیریوں کی زمین کا مسئلہ نہیں ، پاکستان کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ اس پر سار ی اقتصادی اور معاشی مضبوطی کا انحصار ہے کشمیر سے آنے والا پانی ہماری زراعت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر سے آنے والے پانی میں کشمیریوں کے خون کی سرخی بھی شامل ہے جو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ قائداعظم نے جس کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا آج وہ شہ رگ دشمن کے پنجے میں ہے ۔جہاں تک کشمیریوں کا سوال ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ جو قوم پورے عزم’ ولولے اور نظم و ضبط کی بنا پر اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑی ہو اور مال و جان کی قربانیوں سے عار نہ کرے ،اسے کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی ۔