بزدار حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہیں ،عمران حق میں بڑی چٹان
تجزیے
ق لیگ وفاق سے تحفظات کے باوجود ساتھ کھڑی، ن لیگ کو بھی بوجوہ قبولسیکرٹری ، کمشنر لاہور کیساتھ صوبائی وزیر کی برخاستگی نے پوزیشن کو کمزور کیا
(تجزیہ:سلمان غنی)
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اصل طاقت وزیراعظم عمران خان کی تائید و حمایت ہے اور جب تک انہیں ان کی تائید حاصل ہے وہ اس منصب پر رہیں گے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اپنے انتخاب کے بعد سے اب تک وزیراعلیٰ عثمان
بزدار اپنے سیاسی کردار کے حوالہ سے خبروں میں رہے ہیں جبکہ اس مرتبہ تو کابینہ کے اندر تائید و حمایت کی قرارداد کی ضرورت تک محسوس کی گئی ہے ،واقفان حال کا کہنا ہے وزیراعظم عمران خان کا دورہ لاہور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے مستقبل کے حوالہ سے اہم تھا، جہاں انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تھپکی دے کر خطرہ ٹالا وہیں اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات میں انہوں نے بعض سوالات پر کرپشن کو ٹارگٹ کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو تنبیہ بھی کی ،اسی دورہ میں ان کی جانب سے پنجاب کے ایک سیکرٹری اور کمشنر لاہور کے ساتھ صوبائی وزیر اسد کھوکھر کی برخاستگی کے عمل نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی پوزیشن کو کمزور کیا، کیونکہ مذکورہ ذمہ داران ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے ،لہٰذا اس دورہ کے بعد یہ ضروری تھا کہ ان کی پوزیشن کی بحالی کیلئے کوئی عمل کیا جاتا جس پر پیش رفت وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کابینہ میں یہ ثابت کر کے کی کہ ہمیں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرنا چاہیے
ان کے اس اعلان کی تائید میں راجہ بشارت، علیم خان، محمودالرشید و دیگر نے بھی تائید کی اور پھر ان پر باضابطہ اعتماد کا اظہار کر دیا گیا،وزیراعلیٰ کے منصب کے حوالہ سے اگر وزیراعظم عمران خان کی سوچ اور اپروچ کا ادراک کر لیا جائے تو پھر شاید عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ محمود خان کے کردار کے حوالہ سے ہمیشہ کیلئے خطرات کا ازالہ ہو جائے ، دیکھنے کی بات ہے کہ جس سوچ اپروچ کی بنیاد پر ان دونوں کا انتخاب کیا گیا کیا وزیراعظم عمران خان نے اسے تبدیل کر لیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ابھی ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں ، ان کے انتخاب پر ہی ایک بات اعلیٰ سطح پر واضح ہو چکی تھی کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا کو اسلام آباد کے ذریعہ چلایا جائے گا اور عملاً دیکھا جائے تو اس پر دو آرا نہیں کہ جس بنا پر دونوں کا انتخاب ہوا ہے انہوں نے اس پر کبھی پریشانی یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا،پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حق میں ایک بڑی بات یہ جا رہی ہے کہ اپوزیشن خصوصاً ن لیگ اور ق لیگ انہیں بوجوہ قبول کئے ہوئے ہیں
ن لیگ سمجھتی ہے کہ ایک کمزور وزیراعلیٰ ان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ باوجود اپوزیشن میں ہونے کے ان کے مفادات کو زیادہ زد نہیں پڑی اور لوگ آج بھی عثمان بزدار سے زیادہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو یاد کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ق لیگ وفاقی حکومت کے حوالہ سے تحفظات کے باوجود وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ ان کے زیادہ مفادات پنجاب اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں ہیں جہاں انہیں ہر طرح سے اکاموڈیٹ کیا گیا ہے ، اس کے عوض وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو کم از کم پنجاب اسمبلی کی سطح پر اپنے خلاف کسی سازش کا کوئی خطرہ نہیں
کیا یہ پنجاب کی سیاست کا دلچسپ پہلو نہیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کمزوری ہی اس کی مضبوطی کا جواز ہے ، ان کے خلاف ہونے والی کسی بھی پیش رفت کا تعلق اپوزیشن کے بجائے خود ان کی اپنی جماعت سے ہوتا ہے جس کے نتیجہ خیز ہونے میں بڑی رکاوٹ خود وزیراعظم عمران خان ہیں ،وزیراعظم عمران خان ان کے خلاف ہونے والی سازشوں میں ان کے حق میں بڑی چٹان ثابت ہوئے ہیں، اب بھی ایسا ہوا ہے ، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں البتہ جماعت کے اندر اور خصوصاً ان کی کابینہ میں موجود جو افراد جو ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں انہیں فی الحال پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہوگا۔