کورونا کا پھیلائو ،آنے والے حالات اطمینان بخش نہیں
تجزیے
اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کوئی بھوک سے نہ مرے ،اس کے بچے بلکتے نظر نہ آئیں حکومت مشکل صورتحال میں خود کو سیاسی مفادات اور ترجیحات سے بلند کرے
(تجزیہ: سلمان غنی)وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کے خلاف جنگ کو ایک لمبی جنگ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس حوالہ سے غلط فہمی دور کر لینی چاہئے اور اس جنگ کو لڑنے کیلئے سب کو اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کرنا ہوگا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائی جانے والی اپنی رپورٹ میں رواں ماہ کے متاثرہ اور متوقع کیسز سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 25 اپریل تک کنفرم کیسز کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے لیکن یہ تعداد یورپ سے کم ہوگی۔ وزیراعظم کے انتباہ اور حکومت کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے صورتحال کسی بھی حوالہ سے اطمینان بخش نہیں بلکہ تشویشناک ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے دیکھنا ہوگا حکومت کو کیا کرنا ہے ۔ عوام الناس نے کس حکمت عملی پر گامزن ہونا ہے اور مخیر حضرات کو اس وائرس کے حوالہ سے کیا کردار ادا کرنا ہے ۔ کورونا وائرس کے اثرات اور اس حوالہ سے خدشات اور خطرات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نظر نہ آنے والا دشمن انتہائی خطرناک ہے اور کوئی بھی کسی وقت بھی اس ان دیکھے دشمن کے وار کا شکار ہو سکتا ہے ۔ یہ وبا کوئی مقامی نہیں نہ ہی اس کے اثرات علاقائی ہیں۔ یہ وبا عالمی ہے اور اس کی تباہ کاریوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپ اور ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو اس وبا سے محفوظ ہو۔ انسانی تاریخ میں ایسا بحران اور طوفان پہلی مرتبہ آیا ہے جس نے دنیا کو بیک وقت مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور دنیا بھر کے ماہرین، ڈاکٹر ابھی تک یہ کھوج لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ یہ وبا کہاں سے آئی۔ اس کے پھیلاؤ کے اسباب کیا ہیں اور کب اس پر قابو پایا جائے گا۔ اس وبا نے دنیا بھر میں ہر طرح کی معاشی’معاشرتی اور تجارتی سرگرمیاں معطل کر کے رکھ دی ہیں ۔ دنیا کے حکمران اس نظر نہ آنے والے دشمن کے خلاف لڑائی کو عالمی جنگ قرار دے رہے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا وائرس نے دنیا میں سائنس ٹیکنالوجی اور ہر طرح کی ترقی کے دعوؤں کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا ۔ اس معمولی سے جرثومے نے انسانی بے بسی کو عیاں کر دیا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے پاکستان جیسے ملک میں ہمیں کیا کرنا ہے اس میں ایک بات سب سے اہم ہے کہ اس کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار تو حکومت کا ہے ۔ اسے اس وائرس سے نمٹنے کیلئے ممکنہ اقدامات اٹھانے ہیں لیکن اس کیلئے حکومت کے ساتھ حکومتی اداروں’معاشرے کے بااثر طبقات’سماجی انجمنوں اور خصوصاً عوام سب نے اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ۔ یہاں ایک تاثر یہ عام ہو رہا ہے کہ شاید پاکستان میں اس وائرس کے اثرات دیگر کے مقابلہ میں کم ہیں اور ابھی تک عوام الناس اس سارے عمل کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔ اللہ پر توکل کے ساتھ اس کیلئے ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہے اور آنے والے حالات کسی طور پر بھی اطمینان بخش نہیں بلکہ اس وائرس کے اثرات کم ہونے کے بجائے بڑھنے ہیں اور ان کو بڑھنے سے روکنے کیلئے اگر حکومت دہائی دیتی نظر آ رہی ہے تو اسے سیاست نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ وائرس نے کسی پر حملہ اس کی جماعتی یا کسی اور شناخت کی بنا پر نہیں بلکہ انسان ہونے کے ناطے کرنا ہے ۔ حکومت کے اپنے کرنے کے بہت سے کام ہیں کیونکہ انہیں صرف کورونا سے ہی نہیں نمٹنا بلکہ اس کیلئے معیشت’معاشرت پر اثرات بھی بہت بڑا چیلنج ہے ۔ کورونا کے اثرات کے نتیجہ میں پورے ملک میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے براہ راست معاشرے کے عام طبقات متاثر ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر دہاڑی دار’دکانوں’ کارخانوں میں ملازمت کرنے والے ’ریڑھی لگانے والے ’ رکشہ چلانے والے کس کس کی بات کی جائے کہ ان کے گھروں پر تو ایک قیامت نہیں ، کئی قیامتیں آئی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روز کماتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ حکومت جن پیکجز کا اعلان کرتی نظر آ رہی ہے ہو سکتا ہے اگلے دو چار روز میں ان کو مل جائے لیکن یہ اقدامات کافی نہیں۔ اس کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی شخص گلی محلوں’ قصبات اور دیہات میں بھوک سے نہ مرے ۔ اس کے بچے بلکتے نظر نہ آئیں۔ حکومت کیلئے لازم ہے مشکل صورتحال میں خود کو سیاسی مفادات اور ترجیحات سے بلند کرے ۔ اپنے مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کا عمل اس صورتحال میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گا۔ جو ٹائیگر فورس وزیراعظم ریلیف کیلئے میدان میں اتار رہے ہیں ان کی ذمہ داری خود حکومت کو لینا ہوگی کیونکہ اس پر سیاسی قوتوں نے تحفظات ظاہر کئے ہیں اور یہ فورس جن مقاصد کیلئے بنائی گئی ہے کیا یہ انہیں مقاصد تک محدود رہے گی۔