کنٹرول لائن کوگرم رکھنا بھارتی طے شدہ ایجنڈے کا حصہ
تجزیے
معاملات مذمت سے بڑھتے ،کشیدگی سے ایک نئے دورکا آغازبنتا دکھائی دے رہاخلاف ورزیاں عالمی ا من کیلئے خطرہ،مودی سرکار تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں
(تجزیہ: سلمان غنی)کورونا کی وبا کی صورتحال کے باوجود کنٹرول لائن پر فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی کوئی معمول کا عمل نہیں اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کو گرم کرنا اور گرم رکھنا اس کے کسی طے شدہ ایجنڈا کا حصہ ہے ، پاکستان کی جانب سے بھارتی روئیے کی مذمت بجا مگر اب معاملات مذمت سے آگے بڑھ رہے ہیں، گزشتہ روز بھی بھارتی افواج نے کلیر سیکٹر میں پاک فوج کی چیک پوسٹ فائرنگ کی اور پاکستان کی دو کور کو نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں ہمارا ایک جوان ،سولہ سالہ بچی اور 52 سالہ خاتون بھی شہید ہو گئیں۔ پاکستانی فوج کی جوابی فائرنگ سے بھارتی افواج کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ قونصل جنرل کو بلا کر احتجاج بھی سفارتکاری کا ایک انداز ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ احتجاج بھارتی ڈھٹائی کے آگے کوئی حیثیت نہیں ر کھتا۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہو گیا ہے کہ آخر بھارت کنٹرول لائن کو گرم کرنے اور رکھنے پر کیوں مصر ہے اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اور پاکستان کیلئے اس صورتحال پر بھرپور جواب کے آپشن کے سوا کیا ہوگا۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر پیدا شدہ صورتحال پر عالمی برادری کیونکر خاموش ہے اور کیا وہ اس کے نتائج سے آگاہ نہیں۔ کنٹرول لائن پر خلاف ورزیوں کا یہ سلسلہ بھارت کا روز مرہ کا معمول بن رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاملات اب مذمت سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن کے دورہ کے دوران واضح کیا کہ بھارتی افواج کو جواب ملے گا اور دنیا جان لے کہ بھارتی اشتعال انگیزیاں امن کیلئے خطرہ ہیں۔ بھارت جب بھی اندرونی طور پر مسائل سے دو چار ہوا تو اس نے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کو نشانہ بناناشروع کر دیا اور جب اسے مقبوضہ وادی میں شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے ٹارگٹ کلنگز کا عمل شروع کردیا۔ اس کی کوشش رہی کہ مقبوضہ وادی میں اپنے بھیانک اور مکروہ عمل سے توجہ ہٹانے کیلئے کنٹرول لائن پر غیر معمولی صورتحال طاری رکھی جائے تا کہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ کنٹرول لائن کی صورتحال ہے ۔ کشمیر میں 5 اگست کے بعد ایک نئی صورت گری جاری ہے ، متعدد چھاپہ مار کارروائیوں میں بھارتی افواج کو بھی بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ کشمیر کا جوان بھارت اور اسکی فوج کے سامنے پسپائی کیلئے تیار نہیں ۔ کشمیر کے اندر مختلف مقامات پر بھارتی افواج پر چھاپہ مار حملے مزاحمت کے ایک نئے دور کا پتہ دے رہے ہیں۔ اس نئے رد عمل کے خلاف بھارت نے وہی طاقت کا استعمال شروع کر رکھا ہے ، بلا تحقیق اور بلا امتیاز نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگز انکی بوکھلاہٹ اور جھنجلاہٹ کا ثبوت ہیں، اس صورتحال سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو رہا ہے ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اس کی جگ ہنسائی کے عمل نے اسے کنٹرول لائن کی جانب موڑ دیا ہے اور وہ کشمیر کے اندر اپنی رسوائی سے توجہ ہٹانے کیلئے نیا موڑ مڑا ہے ، مگر اس میں بھی اس کا انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ بھارت کی تاریخ شب خون مارنے کی تاریخ ہے ، جبکہ پاکستان نے ایسی کسی جارحیت کا جواب دن دہاڑے بھرپور اندازمیں دیا۔ لگتا ہے کہ بھارت نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔ ایک مرتبہ پھر وہ پاکستانی فوج اور قوم کا امتحان چاہتا ہے تو اس امتحان میں بھی پاکستان ہی سرخرو ہوگا اور بھارت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ بھارت کی جانب سے طاری کیا جانے والا جنگی ماحول عالمی قوتوں کیلئے چیلنج ہے ،انہیں بھارت کے اس جارحانہ طرز عمل کا نوٹس لینا پڑے گا وگرنہ یہ کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ کا عمل بھارت کو الٹا پڑ سکتا ہے ۔ عالمی برادری کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور بھارت نیوکلیئر پاورز ہیں اور وہ اس طرح دو طرفہ گولہ باری کے عمل کے زیادہ دیر متحمل نہیں ہو سکتے ۔ یہ سلسلہ دراز ہوا تو غیر معمولی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے لہٰذا عالمی برادری بھارت کو باور کرائے اور بتائے کہ اس کا طرز عمل صرف بھارت کیلئے ہی نہیں علاقائی امن کیلئے خطرناک بن سکتا ہے ۔ کشمیر پر ہندوؤں کو لا بٹھانے اور بسانے سے اس کا تسلط یہاں قائم نہیں ہوگا اور کشمیری اپنی سر زمین پر بھارت سے نجات کیلئے آخری حد تک جائیں گے ۔ دنیا کیلئے آج بڑا مسئلہ کورونا ہے مگر جنوبی ایشیا کیلئے آج بھی بڑا مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی سر زمین پر جاری جنگ مزید جنگوں اور حادثات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے ۔ نریندر مودی اس کی سرکار اور ہاشیہ بردار جس ہندوتوا کے نظریہ اور فلسفہ پر گامزن ہیں ضروری نہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہوں ،یہ نظریہ اور فلسفہ ہندوستان کی مزید تقسیم کا باعث بھی بن سکتا ہے جس کیلئے چنگاریاں سلگتی نظر آ رہی ہیں۔