پنجاب 4دن لاک ڈاؤن:فیصلہ بتا رہا ہے صورتحال ٹھیک نہیں
تجزیے
کراچی اور لاہور میں تو کورونا کی صورتحال خطرے کا نشان عبور کرتی نظر آ رہی ہے ایس او پیز پر عملدرآمد لازم بنایاجائے ورنہ حالات گرفت سے باہر ہو جائیں گے
(تجزیہ:سلمان غنی)پنجاب حکومت کی جانب سے وفاق اوردیگر صوبوں کے برعکس ہفتے میں چار دن لاک ڈاؤن میں نرمی اور تین دن مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ ظاہرکر رہا ہے کہ پنجاب میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ’ اس کے اثرات اور شرح اموات کے حوالہ سے صورتحال بہتر نہیں اور حکومت نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی غیر معمولی صورتحال سے بچنے کیلئے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے ، جن میں لاہور’ فیصل آباد’ ملتان’ گوجرانوالہ’ راولپنڈی’ گجرات شامل ہیں۔ ان شہروں میں 31مئی تک جزوی لاک ڈاؤن جاری رہے گا اور یہ پابندی کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ یہ شہر خطرناک زون میں شامل ہیں اور کورونا وائرس کے سدباب کیلئے یہاں لاک ڈاؤن کو ہی ناگزیر قرار دیا گیا ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایک جانب تو حکومت کی جانب سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ پابندیاں نرم کرتے ہوئے چھوٹی مارکیٹیں اور دیگر کاروبار صبح سے شام 5 بجے تک کھولنے کا اعلان ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ ہفتہ میں دو دن چھٹی اور چھٹی کے روز لاک ڈاؤن جاری رہے گا تو دوسری جانب پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت 48گھنٹے کے اندر وفاق کے فیصلے پر نظرثانی پر کیوں مجبور ہوئی۔ کورونا وائرس اس کے اثرات’ شرح اموات اور اس کے سدباب کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف لاک ڈاؤن کا عمل بھی جاری تھا تو دوسری طرف متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا لیکن حکومت پر آنے والے معاشی دباؤ اور خصوصاً کاروباری تنظیموں اور انجمنوں کے مطالبات اور دیہاڑی داروں کو اپنا گھر بار چلانے کیلئے دیہاڑی کے حصول کے سامنے حکومت نے سرنڈر کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیالیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باوجود اگر متاثرین اور شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے تو لاک ڈاؤن میں نرمی سے کیا اثرات ہوں گے ۔گزشتہ 72 گھنٹے میں متاثرین اور شرح اموات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ خصوصاً کراچی اور لاہور میں تو صورتحال خطرے کا نشان عبور کرتی نظر آ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ا یک جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاق کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر مکمل عملدرآمد کا اعلان کیا اور دوسری جانب پنجاب میں حکومت نے اپنے معروضی حالات کی بنا پر یہاں خصوصاً شہروں میں لاک ڈاؤن کو بھی ضروری قرار دیا اور اس کی بنیاد ان رپورٹس کو بنایا گیا جو ان شہروں سے بھجوائی گئی اور بتایا گیا کہ متاثرین کی بڑھتی تعداد کا ہسپتالوں پر دباؤ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے ۔ خصوصاً لاہور میں ایک ہی روز میں تقریباً ساڑھے چار سو متاثرین کا اضافہ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے اور ایک حکومتی ذریعہ تو یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ لاہور پر یونہی دباؤ رہا تو یہاں کرفیو ناگزیر ہو جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کی جانب سے دو روز کے لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے جواب میں پنجاب نے یہ لاک ڈاؤن تین روز کا کر دیا اور بقیہ چار روز میں بھی جو مارکیٹیں’ بازار کھلیں گے وہاں ایس او پیز پر موثر عملدرآمد کیلئے انتظامی مشینری کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔معاملہ دراصل گھمبیر ہے اس لئے کہ ایک جانب بھوک ننگ’ بے روزگاری کا خوف ہے تو دوسری جانب کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا انتباہ لہٰذا حکومت نے اپنے اوپر آنے والے معاشی دباؤ سے نکلنے کیلئے لاک ڈاؤن تو نرم کر دیا مگر اس وائرس کا پھیلاؤ کا سدباب نہ ہوا اور ایس او پیز پر عملدرآمد ممکن نہ بن سکا تو پھر حکومت کے پاس سخت لاک ڈاؤن اور کرفیو کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا لہٰذا اب ذمہ داری پنجاب حکومت پر ہے کہ بڑے شہروں میں وائرس کے اثرات سے بچنے کیلئے ایس او پیز پر عملدرآمد اور ماسک کی پابندی لازم بنائی جائے ورنہ حالات اس کی گرفت سے باہر ہو جائیں گے ۔