کورونا:سارا کاروبار غیراعلانیہ کھل گیا،جن کا بوتل میں جانا مشکل
تجزیے
ایم او یوز کی خلاف ورزیاں عروج پر ،ڈاکٹروں ،ماہرین کے حکومتی پالیسی کو کوسنے عوام نے پروا نہ کی تو آئندہ دن خطرناک ،حکومت کیلئے ابھی غور کاوقت ہے
کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ایک ہی دن میں ریکارڈ 50اموات اور مریضوں میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس وائرس کے حوالے سے خطرناک زون میں پہنچ چکے ہیں ، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگرمارکیٹوں’بازاروں اور پلازوں کیلئے جاری مروجہ طریقہ کار پر عملدرآمد کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ وائرس تباہی کا باعث بنے گا اور اس جن کوبوتل میں بند کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ حکومت کی جانب سے شروع دن سے ہی وائرس کے اثرات اور معاشی سرگرمیوں میں بیلنس قائم رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ خصوصاً وزیراعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آئے کہ ہمیں مشکل کی اس صورتحال میں ان کروڑوں افراد کے حالات کو پیش نظر رکھنا ہوگا جن کا روزگار مستقل نہیں بلکہ وہ دہاڑی دار ہیں ،احساس پروگرام کے تحت ایسے افراد کو12 ہزار روپے کا پیکیج بھی دیا گیا لیکن تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود نہ تو لاک ڈاؤن نظر آ رہا تھا اور نہ ہی کاروبار زندگی چلتا دکھائی دے رہا تھا لہٰذا حکومت پر تاجروں’ صنعتکاروں اور رائے عامہ کے رہنماؤں کا دباؤ تھا کہ مارکیٹیں اور دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ دہاڑی دار اپنی آمدن کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں لہٰذا حکومت نے اس دباؤ کے پیش نظر تجارتی مراکز’ پلازوں اور بازاروں کو کھولنے کی اجازت دے دی۔ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب یہ لیا گیا کہ عوام کا جم غفیر بازاروں اور مارکیٹوں میں نظر آنے لگا اور اس طرح سے وائرس کے جن کو جو حکومت کے مستقل اقدامات خصوصاً لاک ڈاؤن کے ذریعہ قابو کر رکھا تھا وہ کھل کر سامنے آ گیا اور اب یہ جن واپس بوتل میں جاتا نظر نہیں آ رہا۔ غیراعلانیہ طور پر سارا کاروبار زندگی کھل چکا ہے ۔ ایم او یوز کی پابندی کے باوجود اس کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں اور ڈاکٹرز اور ماہرین اس ساری صورتحال پر حکومتی پالیسی کو کوستے نظر آ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس خطرناک وبا اور بلا کے خلاف کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ لہٰذا حکومت نے تاجروں اور صنعتکاروں کے دباؤ کے سامنے سرنڈر کیا ہے تو اب انہیں اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنا پڑے گی۔ڈاکٹرز مزید سر کھپانے اور خدمات سرانجام دینے پر تیار نظر نہیں آتے اور وہ بار بار اور ہر سطح پر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وائرس کو جس سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے تھا نہ ہی حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور نہ ہی عوام الناس نے اس کی پروا کی، یہی وجہ ہے کہ آنے والے دن اس کے خطرات اور اموات کے حوالہ سے اچھے نہیں اور خود عدالت عظمیٰ نے کورونا اور اس کے اثرات کے حوالہ سے بہت سارے حقائق کھول کر سامنے رکھ دئیے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے لاک اپ کی طرح کے لاک ڈاؤن کو رد کر کے رکھ دیا ہے ۔ ابھی وقت ہے کہ حکومت عیدالفطر کے بعد کی اپنی حکمت عملی پر غور وخوض شروع کرے تاکہ وائرس کے حوالہ سے غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال میں حالات اور معاملات ہمارے ہاتھ سے نہ نکلیں ۔