یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے انسان مکمل طور پر بے بس ہے۔ کسی بھی طور قدرتی آفت کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ کیا عجب کہ جن تین عناصر میں ربِ کائنات نے انسان کیلئے زندگی کے بنیادی اسباب میسر کیے ہیں اور جن کے وجود سے تمام مخلوق کے زندہ رہنے کے اسباب ممکن ہوئے ہیں‘ انہی کے اندر خالقِ دو جہاں نے موت کا بندوبست بھی کر رکھاہے۔ ہوا ہمیں آکسیجن فراہم کرتی ہے اور اسی سے ہماری سانسیں چلتی ہیں۔ سانس کا رک جانا انسانی زندگی کے خاتمے کا موجب بھی بن جاتا ہے۔ کورونا وبا کے دنوں میں آکسیجن کی کمی اور اس کی قلت دور کرنے کیلئے مصنوعی آکسیجن کے سلنڈرزکتنے اہم تھے، یہ ہم سب نے خود دیکھ لیا تھا۔ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح انتہائی نگہداشت وارڈ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریض روزانہ کی بنیاد پرآکسیجن کی فراہمی اور سانسوں کی بحالی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہی ہوا جب زیادہ زور پکڑ جائے تو طوفان اور سائیکلون بن کر زندگی کے سارے نظام کو مفلوج کر دیتی ہے۔بڑے بڑے مضبوط درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں، سمندر کی لہریں بحری جہازوں کو الٹا دیتی ہیں اور ساحلی علاقوں پر موجود کنکریٹ سے بنی عمارات لمحوں میں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح آگ کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں مگر یہی آگ جب قہر آلود ہو جائے اور اسے ہوا کے شانے میسر آ جائیں تو یہ پلک جھپکتے میں سینکڑوں میلوں پر پھیلے جنگلات اور ان میں موجود جنگلی حیات کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ یہی حال پانی کا ہے جو ہماری زندگی کی بقا کا ضامن ہے مگر بپھر جائے تو اس کے غیظ و غضب کے سامنے کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا۔ گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان میں ہم سب نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کس طرح ہنستے بستے گھرانے لمحات میں سب کچھ گنوا بیٹھے اور کس طرح وادیٔ سوات سے لے کر کالام تک کے علاقے اجڑے ہوئے چمن کی تصویر بن گئے۔ شاندار رہائشی اور کمرشل عمارات چند منٹوں‘ چند گھنٹوں میں کھنڈرات میں بدل گئیں۔
مگر یہاں سب سے زیادہ غور طلب نکتہ انسانی رویے اور ہمارے ردِ عمل کی مختلف شکلیں ہیں۔ قدرتی آفات کے وقت بہترین انسانی قدریں اور پاکیزہ جذبے آشکار ہوتے ہیں‘ اسی طرح دوسری طرف بدترین انسانی رویوں، اخلاقی پستی اور گراوٹ کی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں۔ مجموعی طور پر کسی بھی حادثے، انسانی المیے اور قدرتی آفت کے دوران پانچ قسم کے انسان سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں متاثرین کی بے بسی اور لاچارگی سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ بے کسی اور بے بسی کی عملی تصویر بنے ہر طرح کی انسانی ہمدردی، امداد اور حسنِ سلوک کی التجا کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اپنے پیاروں کے کھو جانے کا غم انہیں بے حال رکھتا ہے تو دوسری طرف خود ان کے لیے نہ سر پر چھت رہ جاتی ہے اور نہ مال و اسباب ہی باقی بچتا ہے۔ وہ بے یار و مددگار‘ کھلے آسمان تلے اپنے معصوم بچوں کو گود میں لیے اشیائے خورو نوش اور ادویات تک کی بنیادی چیزوں کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں سب سے قابلِ رحم حالت متاثرین کی ہوا کرتی ہے۔ دوسری قسم ان نام نہاد مبصرین کی ہوتی ہے جنہیں مشکل میں گھرے انسانوں کے المیے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔وہ بس اس کڑی آزمائش کے اسباب، محرکات اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تاریخ کے اوراق کھوج کر اور اسی طرح کے حادثات اور آفات کے حوالے دے کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ خالی خولی الفاظ اور کھوکھلے دعوے اُن کے تبصروں کا پہناوا بنتے ہیں۔ کوئی فیس بک پر ان بے بس متاثرین کی تصاویر لگاتا ہے تو کوئی ان پر وی لاگ بنا کر اپنے فالورز بڑھانے کی سعی میں جت جاتا ہے۔ یہ نام نہاد مبصرین دراصل متاثرین کو اپنے تبصروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جذباتِ ہمدردی سے یکسر عاری یہ افراد عملی طور پر کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھانے سے ہمیشہ پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔ تیسری قسم میں وہ ریاستی منتظمین آتے ہیں جو آگے بڑھ کر ان کڑے وقتوں میں مصائب کے سامنے ڈھال بنتے ہیں۔ اپنی زندگی خطروں میں ڈال کر انسانی المیے اور قدرتی آفت کی کڑی آزمائش سے دو چار افراد کیلئے اپنے جذبات کو عملی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ بپھرے پانی کی قہر ڈھاتی لہروں میں کود کر انسانی جانیں بچاتے ہیں اور کہیں آگ میں گھرے انسانوں کو بچانے کیلئے خود آگ کے الائو میں اتر جاتے ہیں۔ ناگہانی حالات سے لڑنے والے یہی لوگ انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں جو اپنے فرائضِ منصبی کو ایسے ڈھنگ سے نبھاتے ہیں کہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید نمونہ اور قابلِ رشک مثال بن جاتے ہیں۔ بلوچستان میں لسبیلہ کے آس پاس جب سیلاب نے اپنی تباہ کاریاں شروع کیں تو سول اداروں اور رضاکار تنظیموں کے ساتھ ساتھ کور کمانڈر کوئٹہ خود آگے بڑھے۔ ریلیف آپریشن کے دوران ہی وہ اپنے دیگر پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہوئے۔ حالیہ سیلاب نے چاروں صوبوں میں ملک کا لگ بھگ 60 فیصد علاقہ متاثر کیا ہے۔ 1300سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ کروڑوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنا مال و زر گنوا بیٹھے ہیں۔ منتظمین کی اس کیٹیگری میں ہمیں نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر کی جرأت، بہادری اور فرض شناسی کو نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے گھر گھر جا کر لوگوں کو بروقت سیلاب کے خطرات سے آگاہ کیا، مساجد میں اعلانات کیے اور دن رات ایک کر کے نوشہرہ اور اس کے مضافات کو محفوظ بنایا۔
میری نظر میں چوتھی قسم مفسدین کی ہے جو قدرتی آفات اور المناک انسانی المیوں کو بھی لوٹ مار اور اخلاق سوز حرکات کا ایک موقع گردانتے ہیں۔ یہ انسان کے روپ میں پھرنے والے وہ درندے ہیں جو تڑپتے افراد کی قیمتی گھڑیاں، انگوٹھیاں، زیورات اور بیگ و پرس وغیرہ لے اڑتے ہیں۔ جو شہروں میں انتشار اور ہنگاموں کے وقت اے ٹی ایم مشینوں پر حملہ آور ہو کر کیش چرا لیتے ہیں۔ فساد اور شر انگیز کارروائیوں میں مصروف یہ درندہ صفت قدرتی آفات اور حادثات کی اعصاب شکن گھڑیوں میں بھی اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھاتے اور انسانیت کی بدترین تصویر پیش کر کے اخلاقی پستی کی مثال بن جاتے ہیں۔ پانچویں اور آخری قسم مصلحین کی ہے جو اصلاحِ احوال کی ہر ممکن صورت کو یقینی بنانے کیلئے اپنا تن من دھن لگا دیتے ہیں۔ ایسے رضاکار افراد، فلاحی ادارے اور تنظیمیں حقیقت میں لائقِ تحسین ہیں جو مشکل میں گھرے انسانوں کے درد کو اپنا درد بنا لیتے ہیں اور ان کی تکالیف اور مسائل کو اولین ترجیح دے کر ان کے ازالے کیلئے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دن رات کام کرتے ہیں۔ یہی لوگ انسانیت کی معراج کے مسافر ہیں اور یہی وہ خوش نصیب افراد ہیں جنہیں ربِ کائنات نے ایسے قابلِ تحسین کارناموں کیلئے منتخب ہے۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں ہمیں مذکورہ پانچ اقسام کے افراد ہی دیکھنے کو ملے ہیں اور اب سب چہروں کی پہچان آسان ہو گئی کہ کون کیا ہے۔
حادثات ہوں یا قدرتی آفات‘ میری نظر میں یہ مواقع انسانی کردار کی پختگی اور اخلاقی اقدار کی پہچان کا سبب بھی بنتے ہیں۔ افراد ہوں یا معاشرے، اقوام ہوں یا ممالک ‘کڑے امتحانات کی بھٹی میں جل کر ہی کندن بنتے ہیں۔ مصلحین ہی وہ لائقِ تقلید طبقہ ہیں جنہیں ہم مشعلِ راہ بنا کر دکھی انسانیت کے غموں کا مداوا کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وقت رکتا نہیں‘ گزر جاتا ہے مگر اپنے پیچھے انسانی رویوں اور اخلاقی قدروں کے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ کڑی آزمائش کی گھڑی میں ہم کس رویے کا مظاہرہ کر کے اپنا نام کس فہرست میں لکھواتے ہیں۔ یہ قدرت کا کھیل ہے کہ جسے چاہے مشکلات میں ڈال دے اور جسے چاہے آسانیاں عطا کر دے مگر ہمارا امتحان کڑے لمحات میں ہمارے ردِعمل اور رویے کے اظہار سے متعلق ہے اور یہی ہماری کڑی اور اصل آزمائش بھی ہے۔