ایک تقریب میں چند دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہی روز مرہ کے معاملات اور مصروف زندگی میں ملنے ملانے کے لیے وقت اور وسائل زیرِ بحث رہے۔ وہاں موجود ایک شخص نے کہا: جپہ صاحب! میری رہنمائی کریں‘ موجودہ دور میں بچوں کی پرورش اور تربیت ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے‘ خاص طور پر ان والدین کے لیے جو دونوں ورکنگ ہیں۔ سب کی توجہ ہم دونوں پر مرکوز ہو گئی۔ موضوعِ گفتگو بہت اہم تھا۔ ہر ایک نے حسبِ توفیق اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کرنے کی کوشش کی۔ میرے ذہن کے پردے پر اپنے والد صاحب اور اپنی امی جان کی شکلیں ابھریں۔ ان کا اندازِ گفتگو محبت اور شفقت سے لبریز مگر پُر وقار تھا۔ ان کی ہر بات پر پختہ یقین اور ہر نصیحت پلے سے باندھ کر رکھنے کے قابل تھی۔ امی جان کی فکر مندی، توجہ، محبت اور احتیاط بھری تشویش یاد آگئی۔ ہم سب اپنے بچوں کی پرورش کے دوران اپنے والدین کے انداز سے متاثر ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کی پرورش اپنے ماں باپ کی طرح ہی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم نے والدین کی بدولت ہی زندگی کے مفہوم کو سمجھا۔ ان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ ان کی آنکھوں نے ہمیں محبت کے معنی سکھائے، اونچ نیچ، اچھائی برائی میں فرق اور زندگی میں اہداف بنانے اور پھر ان کے حصول میں مسلسل محنت کو شعار بنانے کی تلقین کی۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اب اچھی چیزیں‘ جو میری‘ آپ کی‘ ہم سب کی شخصیت میں ہیں وہ ہمارے والدین ہی کی وجہ سے ہیں۔ میں نے اس شخص کی آنکھوں میں جھانکا‘ اس کی فکر اور سوچ کو دل ہی دل میں سراہا۔ بچوں کی نشو و نما اور ارتقا کے کئی مرحلے ہیں۔ پیدائش سے پہلے، پیدائش کے بعد ابتدائی پانچ سال اور پھر نو برس تک کا بچپن۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ جسمانی، ذہنی و نفسیاتی جذبات اور معاشرتی اقدار اور رویوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اپنی منفرد پہچان، والدین، خاندان اور کمیونٹی کے ساتھ روابط کو سمجھتا، پرکھتا اور ان کو قبول کرتا ہے۔ اس کی فطرت کا بنیادی ڈھانچہ بھی انہی برسوں میں تشکیل پاجاتا ہے۔
وہ شخص میری باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔ پیدائش سے پہلے کی دنیا حیرت انگیز ہے‘ جہاں ایک بچہ دنیا میں آکر جینے کی تیاری کرتا ہے۔ اس کا دماغ، دل، چہرہ، نین نقش جسم کے سارے اعضا بنتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بچے اور ماں کا بانڈ شروع ہوتا ہے۔ کمیونیکیشن شروع ہوتا ہے۔ محبت، تکلیف، خوشی سب اکٹھے سہتے ہیں۔ بچوں کی زندگی کے ابتدائی پانچ برس بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ جسمانی نشو و نما، سوچنے کی مہارت اور کمیونیکیشن سِکلز سیکھنے میں ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا اور بڑھتا ہے۔ بچے ابتدائی برسوں میں چیزوں کو بہت جلد سیکھ لیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان سیکھنے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے لہٰذا تیزی سے اس کے حواسِ خمسہ کام کرنے لگتے ہیں۔ وہ شخص حیرت سے پوچھ رہا تھا ''کیا سب بچوں میں یہی اصول کار فرما ہوتا ہے؟‘‘۔ جی بالکل! بچے فطرت کے اصولوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن ان کی جبلتوں اور قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیتوں سے مربوط ہو کر تقویت پاتا ہے۔ سب لوگ ہماری گفتگو میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اب بحث اس نکتے پر جاری تھی کہ والدین بچے کی زندگی میں اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں۔ میں نے سوچا یہی وہ سرا ہے جس کی تلاش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ذمے اولاد کی پرورش، تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری رکھی ہے۔ جو والدین اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں ان کے بچے دنیا میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں۔ اللہ کے فرمانبردار اور رسول اللہﷺ کے اطاعت گزار ہونے کی بنا پر آخرت میں ان کے لیے اجر و جزا کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ میں نے سورۃ التحریم کی اس آیت کی تلاوت کی، (ترجمہ) ''اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘ (آیت: 6)۔ والدین پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ بچوں کو توحید کا درس دے کر اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا تصور ان کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی نبوت اور آپ کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل پر انہیں پختہ کیا جائے۔ بچوں کی تربیت سے متعلق رسول اللہﷺ کا یہ فرمان مبارک پیشِ نظر رکھا جائے کہ ''تم میں سے ہر شخص راعی (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے قیامت کے دن اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ (سنن ابودائود)
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان کے لیے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت مشکل ترین کام ہے۔ آج کے پیچیدہ ڈیجیٹل دور میں یہ کام ایک مزید مشکل چیلنج بن چکا ہے اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تیاری کا کوئی تصور بھی موجود نہیں۔ شادی کی تیاریوں میں مصروف والدین کی توجہ جہیز، کھانوں، شادی ہالوں کی بکنگ، کپڑوں، میک اَپ اور دیگر سامانِ آرائش و زیبائش وغیرہ پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے وہ ہے نو بیاہتا جوڑے کی بطور والدین ذمہ داری اور تربیت کے لیے ضروری معلومات اور علم کا مہیا کرنا۔ سب حاضرین نے اس بات پر اپنے سروں کو اثبات میں ہلایا۔ بچے کی زندگی میں والدین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد خاندان آتا ہے۔ بدقسمتی سے مشرق کی اقدار میں سب سے بڑی قدرِ مشترکہ خاندان کا ایک مضبوط ادارہ تھا۔ ہم نے جن بری چیزوں کو مغرب سے مستعار لیا ان میں سے ایک مشترکہ خاندانی نظام سے الگ ہونا بھی تھا۔ اس کو ہم نے سینے سے لگا کر اپنی زندگیوں میں یوں نافذ کیا کہ گویا زہر ہلاہِل کا تریاق تلاش کر لیا ہو۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں اب خالصتاً گھریلو ملازمین پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ملازمت کرنے والی خواتین اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹرز میں بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت فرمائی‘ اسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان فرمایا ''(اور لقمان نے کہا تھا کہ) بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمینوں میں کہیں چھپی ہوئی ہو‘ اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک ہے باخبر ہے۔ بیٹا نماز قائم کرنے کا حکم دے۔ بدی سے منع کر۔ اور جو مصیبت بھی (تجھ پر)پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز کو ذرا پست رکھ۔ یقینا سب آوازوں سے زیادہ بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ (سورہ لقمان، آیات 16تا 18)
بچے خود کو والدین کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہمارے الفاظ، آواز کی ٹون، باڈی لینگویج اور ہمارا ہر تاثر اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ یہی وہ معمولات ہیں جو بچوں میں عزتِ نفس کو ابھارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔جب بچے غلطی کریں تو ان پر بے جا غصہ نہ کریں بلکہ انہیں واضح الفاظ میں رہنمائی فراہم کریں۔ بچوں کے ساتھ کھانا کھائیں اور سیر و تفریح پر جائیں۔ انہیں کھیل کود کا ماحول مہیا کریں۔ ان کے ساتھ بات چیت کریں، انہیں سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ بچوں سے کمیونیکیشن گیپ نہ پیدا ہونے دیں۔ بچوں کی تربیت مختلف سرگرمیوں اور رویوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی کوئی ماسٹر چابی نہیں کہ اسے گھمائیں تو پسندیدہ دروازہ کھل جائے۔ یہ ایک صبر آزما کام ہے‘ جو کوئی بھی اکیلے سرانجام نہیں دے سکتا۔ بچے نے بالآخر گھر سے باہر جانا ہے۔ اسے رشتہ داروں‘ دوستوں سے ملوائیں اور تقریبات میں ساتھ لے کر جائیں تا کہ وہ معاشرتی زندگی کی روایات اور اقدار کو برت سکے اور ان کی پاسداری اور اہمیت سے آگاہی حاصل کرے۔ دنیا کے ٹاپ فیشن ہائوس کی بنیاد رکھنے والے مشہور فرنچ ڈیزائنر کرسچین ڈی آور نے کہا تھا ''حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے۔ بیش قیمت ملبوسات، حیران کن زیبائشی اشیا اور خیرہ کن حسن کی عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں‘‘۔ مختصراً یہ کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزاریں‘ ان کے دوست اور غمگسار بنیں‘ ان کی نفسیات کو سمجھیں‘ ان کی سطح پر آ کر سوچیں۔ اب وقت بہت بدل گیا ہے‘ تھوڑا سا خود کو بھی بدلیں۔