یہ اتوار کی ایک خوبصورت صبح ہے۔ آنکھ کھلتے ہی ایک تازگی کا احساس ہوا۔ بے ساختہ کھڑکی سے باہر دیکھنے کے لیے پردہ سرکایا تو بیک یارڈ کا دلکش منظر سامنے تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے برطانیہ میں درجہ حرارت منفی 6ڈگری ہے۔ انتہائی ٹھنڈ ہے اور آسمان پر گہرے بادلوں نے ڈیرہ جما رکھا ہے۔ آسمان سے روئی کی طرح برف کے گالے مٹی، گھاس اور منظر میں موجود ہر شے کے حسن کو تبدیل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ درختوں کی خالی شاخوں اور گھروں کی لال اینٹوں پر سفید گالے۔ تھوڑی ہی دیر میں مَیں اس منظر میں کھو گیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ موسموں کے تغیر اور ترتیب سے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے کا ڈسپلن حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ یورپ میں آج کل کرسمس کی رونقیں عروج پر ہیں۔ گھر، شاپنگ مالز، راستے یا شہروں کی سڑکیں رنگوں اور روشنیوں میں نہائی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گورے ڈٹ کر ایمان داری سے کام کرتے ہیں۔ ایسا خود کار نظام ان کی فطرت میں سمویا ہوا ہے کہ کوئی بھی کام سے غفلت اور کوتاہی نہیں برتتا۔ سرد موسموں‘ برطانیہ کی مصروف و مشینی زندگی اور گھڑی کی سوئیوں پر بھاگتے گزرتے شب و روز میں کرسمس کے موقع پر گوروں کی خوشی، جوش و خروش اور تیاریاں دیکھ کر احساس ہوا کہ جو قومیں محنت کرتی ہیں اور خلوص سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں ان کے لیے چھٹیاں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ لوگ کرسمس کی چھٹیوں میں کام کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ سال بھر کی بچت اور چھٹیاں بچا کر رکھتے ہیں۔ ہر سال نئی جگہوں پر بکنگ پہلے سے ہی کرا لیتے ہیں۔ دنیا بھر کے خوبصورت اور دلکش سیاحتی مقامات کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ کروز شپس پر جانا، منزل منزل رکنا اور سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ مختلف قوموں کے کلچر، عادات و اطوار، کھانے، موسیقی اور گلی محلوں میں ریڑھی پر بکنے والی عام اشیائے خورونوش سے لطف اندوز ہونا ہی ان کا کرسمس منانے کا انداز ہے۔ ان کے یہ رویے بے ساختہ ہیں۔ دکھانے یا توجہ حاصل کرنے نہیں بلکہ تجربے اور جستجو کے ساتھ ساتھ یہ مہم جوئی کے بھی شوقین ہوتے ہیں۔ کپڑوں اور دیگر استعمال کی چیزوں کا دکھاوا کرتے ہیں نہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے جتن کرتے ہیں۔
کرسمس میں مالز اور بڑے بڑے برانڈز پر اعلیٰ معیار کی اشیا پر قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کرسمس چونکہ ہمیشہ سردیوں میں اور پچیس دسمبر کو ہی آتا ہے لہٰذا یہاں گرم ملبوسات کی اہمیت اور ضرورت پڑ جاتی ہے۔ بہت اعلیٰ اور معیاری وولن جرسیاں، خالص لیدر کی جیکٹیں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ لوگ اپنی قوم کو گھٹیا اور غیر معیاری اشیائے ضرور یہ نہیں بیچتے۔ ناپ تول میں کمی کا تصور بھی ان میں نہیں پایا جاتا۔ تازہ، صحت مند اور خالص پھل، سبزیاں، گوشت، انڈے، نامیاتی اور غیر نامیاتی کھانے پینے کی اشیا میسر ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا خریدتے ہیں۔ جو بتایا جاتا ہے یا جو شو کیس میں سجایا جاتا ہے‘ وہی بیچا جاتا ہے۔ دودھ ہو یا ڈیری پراڈکٹس‘ ہر شے تازہ، خالص اور صاف ستھری پیکنگ میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
برطانیہ میں سردی کا موسم شدید ہوتا ہے، اس کی وجہ یخ بستہ ہوائیں ہیں۔ ہوا جس رفتار سے چلتی ہے لگتا ہے بدن کو چیر رہی ہے۔ سرد موسم کے انسانی زندگی پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی سردی کے موسم میں جسم کے پٹھے اور ہڈیاں سکڑ جاتی ہیں۔ اگر غور کریں تو انگوٹھیاں انگلیوں میں ڈھیلی محسوس ہوتی ہیں۔ ہمارا جسم زیادہ کیلوریز جلاتا ہے تاکہ اندرونی درجہ حرارت کو برقرار رکھا جا سکے۔ اکثر دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ دل کے دورے کا خطرہ بھی شدید سرد موسم میں بڑھ جاتا ہے۔ سردی آنکھوں، جلد اور بالوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ نفسیاتی طور پر بھی سرد موسم مایوسی اور تنہائی کا احساس بڑھا دیتا ہے۔ سورج کی روشنی کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے جو ذہنی استعداد کو کم کر دیتی ہے اور سستی و کاہلی لاتی ہے۔ باہر نکلنے اور چلنے پھرنے کا دورانیہ بھی سکڑ جاتا ہے۔ موسم کا تغیر و تبدل موڈ اور مزاج پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ اسی لیے سخن شناس ادیبوں اور شعرا نے سردی کو ہجر، اداسی، کھو جانے اور زندگی کے خاتمے سے تعبیر کیا ہے۔ خزاں رُت میں اشجار سے پتوں کی جدائی کو زندگی کے خاتمے اور برف کو کفن کے سفید رنگ سے تشبیہ دی ہے لیکن پی بی شیلے اور جان کیٹس نے خزاں کی وحشتوں اور اداسی کو امید سے تعبیر کیا ہے۔ پتے جہاں سے جھڑتے ہیں، وہاں شاخ پر نشان چھوڑ کر جاتے ہیں‘ جہاں پر آنے والی بہار میں نئے شگوفے نے آنکھ کھولنا ہوتی ہے۔ خزاں کے مزاج شاہانہ اور امیرانہ ہوتے ہیں۔یہ کمال سخاوت سے زمین کے سینے پر بیجوں کو نچھاور کرتی جاتی ہے۔ جو سرد موسم میں برف اور کہر کی تہہ میں زندگی اور نمو پاتے ہیں۔ بہار کے آتے ہی نئی کونپلیں زمین کے سینے پر سبزہ و گل کے رنگ بکھیر دیتی ہیں۔
یوں سرد رُت اپنے حصے کے غم اور خوشیاں دامن میں سمیٹ کر سرد ہوائوں کی ہمراہی میں رخصت ہو جاتی ہے۔ سرد مہری کے رویے اور اپنوں کے لگائے ہوئے گہرے گھائو وقت کے ساتھ ساتھ بھر تو جاتے ہیں مگر لاکھ دل بڑا کر کے بھلانا چاہیں‘ خیال کو جھٹک دینا چاہیں‘ بہت مشکل و بھاری لمحے اور برف کی ڈلی سے زیادہ سرد لہجے ماضی میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے سے گہرے گھائو بھی بھر جاتے ہیں۔ زخموں نے تو بھرنا ہی ہوتا ہے یہ فطری تقاضا ہے مگر روح پر لگے بے حسی کے نشتر ہمیشہ درد کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ زخم اپنے پیچھے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ وقت ان پر مرہم رکھتا ہے اور یادوں کے چراغ زخموں کو لو دیتے رہتے ہیں۔ انسان سرد ہوائوں کے تھپیڑوں کو برداشت کر لیتا ہے۔ مخالف ہوائوں کا سامنا بے فکری سے کرتا ہے مگر رویوں کی بد صورتی اکثر یاد کے در کھٹکھٹانے آ جاتی ہے۔ یادیں خوشگوار ہوں یا تکلیف دہ‘ پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ اچانک احساس ہوا کہ نجانے کتنے لمحے یادوں کے بے مہر راستوں کی مسافت میں گزر گئے۔
کھڑکی عقبی صحن میں موسم سرما کی پہلی برفباری کے سبب کہیں اور کھلتے ہوئے دکھائی دی۔ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا کھڑکی کے اس پار دیکھتے۔ بعض کھڑکیاں من کے اندر کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔ ہم لمحۂ موجود میں جینے کا ہنر سیکھنے میں یادوں کے در بند کرتے رہتے ہیں۔ ناہموار رویوں، چبھتے لہجوں، نارسائی کے دکھ، ادھوری خواہشات اور آرزوئوں کو دانستہ شکست دیتے ہیں۔ سرد موسم تو اپنے ساتھ زندگی کا پیغام، اپنے پیچھے آنے والی بہاروں کی نوید ساتھ لاتا ہے لیکن سرد مہری کے موسم ہمیشہ رہتے ہیں، کچوکے لگاتے اور منہ چڑاتے ہوئے۔ بقول واصف علی واصف ''اپنے کون ہوتے ہیں؟ وہ جو اپنے آپ کو سمجھتے ہوتے ہیں، جو نہیں سمجھتے وہ پرائے! پرائے تو پھر چھوٹ جاتے ہیں‘‘۔ چھوٹ جانے کی اذیت اور بھی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ رشتوں پر سے اعتبار اٹھا جاتی ہے۔ بے اعتباری دل میں تسلی اور سکون نہیں آنے دیتی۔ مہر و وفا اعتبار دلاتا ہے۔ اپنا ہونے کا یقین پختہ ہونے لگتا ہے جس سے دل میں آس کے جگنو چمکنے لگتے ہیں۔ ہزاروں میل دور پردیس میں اپنوں کی یاد اور وطن کی مٹی کی خوشبو، سرسوں کے پھولوں سے سجے کھیت، فضا میں امرودوں کے باغات سے اٹھتی خوشبو اور فیصل آباد کے پاس‘ پینسرہ انٹر چینج سے گائوں کو جاتی سڑک، برطانیہ میں کھڑکی کے باہر اس برفباری نے مجھے عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان ایک بے قرار پرندہ ہے جسے اڑنے کو نئے آسمانوں اور جہانوں کی ہمیشہ آرزو رہتی ہے اور شاید یہی اصلِ زندگی ہے۔