میری جنریشن کی ایک خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ ہم نے 1970ء کی دہائی کے آخر سے لے کر 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن پر کئی شاہکار ڈرامے نشر ہوتے دیکھے۔ اس طرح ہم پاکستان ٹیلی وژن کے عروج کے چشم دید گواہ ہیں۔ صرف وطنِ عزیز میں ہی نہیں بلکہ وہ لازوال ڈرامے سرحد پار‘ خصوصاً بھارت میں بھی یکساں مقبول تھے۔ جہاں بہت سے قدآور اداکاروں نے اپنی شاندار پرفارمنس کے سبب شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور ناظرین میں بے پناہ مقبولیت پائی‘ وہاں ان کرداروں کو تشکیل دینے والے ان بے مثال تخلیق کاروں نے بھی اپنی قوتِ مشاہدہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے طفیل لاکھوں مداحین کے دلوں پر راج کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے زمانۂ طالب علمی کے اوائل کی سب سے خوبصورت یادیں پاکستان ٹیلی وژن کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ میرے بچپن کا رومان ان شاہکار ڈراموں کے کرداروں، ہدایت کاروں اور تخلیق کاروں کے ساتھ پروان چڑھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ جن دو ڈراموں کے آن ایئر ہوتے ہی سب گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں اور بازاروں میں سناٹے کا عالم ہوتا تھا‘ وہ بلاشبہ ''وارث‘‘ اور ''اندھیرا اجالا‘‘ ہی تھے۔
وارث ڈرامے نے پاکستان کے دیہی معاشرے ، اس کے فیوڈل مائنڈ سیٹ اور نچلے طبقے کے استحصال کی نہ صرف حقیقی طور پر عکاسی کی بلکہ صحیح معنوں میں پِسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کے سبب عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور نئے ریکارڈز قائم کیے۔ اس ڈرامے کے مرکزی کردار چودھری حشمت کے جاہ و جلال، رعب و دبدبے اور شان و شوکت نے ناظرین میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ اسی طرح اس جاندار کہانی کے مصنف جناب امجد اسلام امجدؔ سے صرف میرا تعارف ہی نہیں ہوا بلکہ میں ان کا مداح بھی بن گیا۔ چونکہ میں خود دیہی پسِ منظر اور زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لہٰذا اس کہانی کے سارے کردار مجھے اپنے آس پاس ہی نظر آئے۔ یوں وارث ڈرامہ میرے بچپن کی حسین یادوں کا شاہد ٹھہرا اور اس کے مصنف نے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے سبب میرے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں‘ جب میں گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا تو بخاری آڈیٹوریم میں آئے روز علمی و ادبی تقریبات میں ادب و سخن سے وابستہ قد آور شخصیات کی آمد مجھ ایسے دیہاتی کے لیے باعثِ افتخار بھی تھی اور ان معروف چہروں سے براہِ راست ملاقات کا ایک بہانہ بھی۔ انہی دنوں ایک مشاعرے میں امجد اسلام امجدؔ بھی تشریف لائے اور اپنے دلکش کلام کے ذریعے سامعین سے خوب داد وصول کی۔ مشاعرے کے اختتام پر میں آگے بڑھا اور انہیں نہایت ادب سے سلام کیا‘ جو اس وقت میرے لیے کس اعزاز سے کم نہ تھا۔ جن شخصیات کو آپ صرف ٹیلی وژن پر دیکھتے ہوں‘ انہیں اپنے سامنے پا کر اور ان سے ہاتھ ملا کر ایک طالب علم کتنی بڑی خوشی محسوس کر سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لاہور میں موجودگی کے دوران مجھے متعدد مواقع ملے جن میں امجد اسلام امجد ؔکو براہِ راست سننے کا شرف ملا اور یوں ان کی تحت اللفظ ادائیگی، لہجے کے پیچ و خم اور آواز کے زیر و بم کو قریب سے دیکھنے، جانچنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کو اپنے لیے سعادت جانا۔ ویسے بھی میں گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایم اے انگلش کی تعلیم کے دوران خود بھی تقریری مقابلوں اور دیگر علمی و ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا اور اس طرح ادب و سخن سے گہری وابستگی کے سبب امجد اسلام امجدؔ کے ڈرامے، کالمز اور اشعار مجھے مسلسل متاثر کرتے رہے۔ لاہور سے لے کر کراچی تک پاکستان میں کوئی بھی مشاعرہ اور ادبی محفل امجد اسلام امجدؔ کے بغیر ممکن نہ ہو پاتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ فروری 2002ئمیں جب سی ایس ایس کر کے میں سول سروسز اکیڈمی لاہور پہنچا تو ہم نے مشاعرے میں جن بڑے شعراء کرام کو مدعو کرنے کا پروگرام ترتیب دیا‘ ان میں امجد اسلام امجدؔ کا نام سرِ فہرست تھا۔ شعراء کرام کو مشاعرے کا دعوت نامہ پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی اور میں نے ان تمام بڑی شخصیات کے ٹیلی فون نمبرز ڈھونڈ کر ان سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔ میں نے نہایت ادب سے انہیں اکیڈمی میں منعقد ہونے والے مشاعرے اور اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
مجھے تعجب اس وقت ہوا جب دو سے تین بڑے شعرا نے میرے سامنے مشاعرے کی صدارت کی شرط رکھ دی اور اصرار کیا کہ وہ محض اسی صورت میں تشریف لائیں گے جب انہیں کرسی ٔ صدارت سونپی جائے۔ یہ میرے لیے ایک نیا اور حیرت انگیز تجربہ تھا مگر امجد اسلام امجدؔ وہ واحد قدآور سخن ور تھے جنہوں نے میری گزارش نہ صرف توجہ اور شفقت سے سنی بلکہ بلاتامل مشاعرے میں شرکت کی ہامی بھر لی۔اس پورے عمل کے دوران جہاں چند ''بڑی بڑی شخصیات‘‘ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے میری نظروں میں ان کا قد گھٹتا محسوس ہوا‘ وہاں امجد اسلام امجدؔ کی عاجزی، شفقت اور بڑے پن نے مجھے صحیح معنوں میں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ میری یہ بھی خوش نصیبی رہی کہ امجد اسلام امجدؔ کے برطانیہ میں مستقل اور فراخ دل میزبان چودھری محمد ریاض اور ان کے چھوٹے بھائی چودھری نجف محمود سے میرے دیرینہ مراسم ہیں لہٰذا اس تعلق کی وجہ سے بھی میری ان تک رسائی قدرے آسان رہی۔ ان سے رابطے کا دوسرا مؤثر ذریعہ میرے چھوٹے بھائیوں جیسے اورادارے میں میرے جونیئر رحمان فارس رہے‘ جو خود بھی ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور امجد اسلام امجدؔ کے ساتھ فارس کا تعلق کافی مضبوط تھا۔
انسان دوستی، پُروقار انداز سے تعلقات نبھانا اور چھوٹوں سے شفقت امجد اسلام امجدؔ کی شخصیت کے کلیدی پہلو تھے۔ 2019ئکے اواخر میں ایک مرتبہ پھر مجھے سینئر مینجمنٹ کورس کے دوران ایک مشاعرہ کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی تو میں نے امجد اسلام امجدؔ سے گزارش کی کہ وہ عباس تابش کے ہمراہ ہمارے مشاعرے کو رونق بخشیں جس پر انہوں نے ہمیشہ کی طرح وضعداری سے کام لیا اور لاہور کے ایک آڈیٹوریم میں لگ بھگ دو گھنٹے ہمارے ساتھ گزارے اور ہمیں اپنے شہرۂ آفاق کلام سے نوازا۔
گزشتہ برس جولائی میں میری کتاب ''دیہاتی بابو‘‘ اشاعت کے مراحل طے کر کے قارئین تک پہنچی اور مقبولیت حاصل کی تو اس کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام محترم جناب اصغر زیدی صاحب (وائس چانسلر گورنمنٹ کالج لاہور) نے اپنے ذمے لے لیا۔ اس کتاب پر اظہارِ خیال کرنے والی بڑی شخصیات میں جہاں میزبانِ محفل ڈاکٹر اصغر زیدی کے علاوہ، مجیب الرحمن شامی، منصور آفاق، خالد محمود اور نعیم ثاقب شامل تھے‘ وہیں میری خواہش تھی کہ ان شخصیات کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجدؔ کو بھی مدعو کیا جائے اور وہ بھی اپنے قیمتی الفاظ سے اس تقریب کو چار چاند لگائیں؛ تاہم جب ان سے رابطہ ہوا تو علم ہوا کہ وہ امریکہ میں موجودگی کے باعث اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ مگر اپنی اس غیر حاضری کا ازالہ انہوں نے علالت کے باوجود اس وقت کر دیا جب برادرِ عزیز قاسم علی شاہ نے اپنی فائونڈیشن میں میری کتاب کی تیسری تقریبِ رونمائی منعقد کرانے کا اہتمام کیا۔
یہ 25 اکتوبر 2022ء کی ایک خوبصورت شام تھی اور جناب امجد اسلام امجدؔ میری کتاب کی اس تقریبِ رونمائی میں بطور صدرِ محفل موجود تھے۔ وہ میری کتاب کے بارے میں ایک جاندار تبصرہ لکھ کر لائے تھے جسے انہوں نے نہ صرف سامعین کے سامنے پیش کیا بلکہ بعدازاں اپنے کالم کی صورت میں شائع بھی کیا جو میرے لیے بلاشبہ کسی سند ِ اعزاز سے کم نہ تھا۔ (جاری)