جگاڑکے ’’فضائل‘‘

سیانے کہتے ہیں کہ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے اور ظاہری بود و باش سے متاثر ہو کر کوئی بھی اہم فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ ابتدائی زمانۂ طالبعلمی ہی میں یہ مشہور محاورہ پڑھ لیا تھا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ سونا نہیں تو چاندی تو ضرور ہوتی ہوگی مگر کسی چمکدار چیز کا رنگ روپ زنگ آلودہ لوہے کی طرح بھی ہو سکتا ہے،یہ میں نے کبھی گمان تک نہیں کیا تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں سیانوں کے اقوال اور آفاقی سچائیوں کا جو ہلکا پھلکا ادراک ہوا اسے اپنی عملی زندگی کا سرمایۂ حیات بنا کر کوشش کی کہ چمک دمک اور ظاہری بنائو سنگھار کو خاطر میں نہ لایا جائے اور چیزوں کی اصلیت اور پرکھ پڑتال کر کے ان کے بارے حتمی رائے قائم کی جائے۔ اسی طرح ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اہم امور طے کرنے کے لیے عقلی اور منطقی پہلوئوں کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کیے جائیں۔ اس احتیاط کی بدولت میں اس سلسلے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بھی ظاہری بود و باش اور جاہ و حشم نے متاثر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کسی کا چہرا لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے سرخ کرنے کی کوشش کی۔ ہاں‘ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ مستند ہے کہ کوئی بھی شخص غلطیوں سے مبرا نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا دعویٰ کرے تو وہ یقینا مبالغہ آرائی سے کام لے گا۔ لہٰذا آج میں ایک اہم اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نہایت ذاتی راز افشا کرنا چاہتا ہوں جسے گزشتہ لگ بھگ ایک برس سے میں اپنے سینے سے لگائے پھرتا ہوں۔ ایک ایسی خفت مٹانا چاہتا ہوں جسے میں اب مزید چھپانے کا قائل نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں آج اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں اور بالآخر وہ سچ آپ سب پر آشکار کردوں جسے آپ سننے کے لیے بے تاب ہوں گے۔
آئیے! آگے بڑھتے ہیں اس راز کی طرف جس نے مجھے گزشتہ کئی ماہ سے بے چین کر رکھا ہے۔ دراصل میں گزشتہ سال اپنے چند ''نیم مخلص‘‘ احباب کے بہکاوے میں آگیا تھا اور ان کے پُرزور اصرار پر میں نے برطانیہ کی ایک سرکردہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلے کا ارادہ بنا لیا۔ پروپوزل بنانے کے لیے تقریباً دو ماہ خوب ریسرچ کی، ماہرینِ تعلیم سے ملاقاتیں کیں، انہیں اپنا ڈرافٹ چیک کروایا اور اس مضمون پر دسترس رکھنے والے دو‘ چار ریسرچ سکالرز سے باقاعدہ مشاورت کر کے متعلقہ یونیورسٹی میں نہ صرف درخواست جمع کرائی بلکہ اس کی طرف سے اعلان کردہ سکالر شپ کے لیے بھی تمام ضروری لوازمات پورے کیے۔ پھر ایک روز مجھے ای میل پر اطلاع ملی کہ میرا ریسرچ پروپوزل کئی کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد انٹرویو کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے اور انٹر ویو کے لیے مجھے کم و بیش دس روز پیشتر ہی ای میل کے ذریعے آگاہ کر دیا گیا۔ اپنے اُنہی ''بہی خواہوں‘‘ کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر میں انٹرویو کی تیاری میں جت گیا اور بھرپور انداز میں معلومات اکٹھی کیں، نوٹس بنائے، ممکنہ سوالات کی لسٹ بنائی اور پھر ان کے مدلل جوابات لکھے، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مو ک انٹرویوکے کئی دور چلائے، خود ہی ممتحن بن کر اپنی سخت مارکنگ کی۔ خراب کارکردگی پر اپنی سرزنش کی اور پھر بہتری کے امکانات اور اسباب پیدا کیے۔ بالآخر انٹرویو کا دن آن پہنچا۔
آن لائن میٹنگ میں برطانیہ کی یونیورسٹی کے تین نامور پروفیسرز پر مبنی پینل اور ان کے علم و فراست کے بحرِ بے کراں کے سامنے بندۂ ناچیز کی اکیلی جان! ان کے تندو تیز سوالات کے بائونسرز مجھے وکٹ پر باکل اسی طرح ٹف ٹائم دے رہے تھے جیسے کبھی ویسٹ انڈیز کے میلکم مارشل اور مائیکل ہولڈنگ کی طوفانی بائولنگ مخالف بیٹسمینوں کو ٹف ٹائم دیا کرتی تھی۔ بہر حال‘ تقریباً 45سے 50منٹ تک دلِ ناتواں نے ان جارحانہ سوالات پر مبنی حملوں کا خوب مقابلہ کیا اور خدا خدا کر کے جب انٹرویو کے خاتمے کا اعلان ہوا تو میری جان میں جان آئی۔ انٹرویو کے تین ہفتوں بعد مجھے یونیورسٹی کی طرف سے خوشخبری سنائی گئی کہ چارسالہ پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے دنیا بھر سے دوسو سے زائد امیدواران میدان میں اترے تھے اور محض ایک درجن خوش نصیب منتخب کیے گئے ہیں جن میں خاکسار کا نام بھی شام تھا۔ سکالر شپ کے ساتھ ساتھ مجھے یونیورسٹی میں تدریسی فرائض کے لیے بھی موزوں سمجھا گیا اور یہ اعزاز مجھ سمیت صرف چار کامیاب امیدواروں کے حصے میں آیا۔ ویزا کے تمام مراحل طے کر کے میں اپنا رختِ سفر باندھ کر برطانیہ کے لئے عازمِ سفر ہو گیا۔
برطانیہ آنے کے بعد ابتدائی چند دنوں ہی میں برطانوی نظام کی پختگی، استحکام اور پائیداری کے اثرات نمایاں طور پر نظر آنے لگے اور میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وطنِ عزیز میں بیٹھے ہمارے کئی دانشور اپنی ہر سانس میں برطانوی نظام کے متعلق مثالیں دیتے نہیں تھکتے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ''راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘، مانچسٹر ایئر پورٹ پر اترتے ہی میرے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جو پاکستانی احباب اسلام آباد ایئر پورٹ پر بغلیں چیرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش میں دوسروں کو روند کر گزرنے کے خواہاں نظر آئے تھے‘ وہ بھی یہاں لمبی قطاروں میں گھنٹوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ جن ''شرفا‘‘ کو وہاں پروٹوکول کے ساتھ جہاز تک رسائی ملی تھی، وہ یہاں بے یار و مددگار پائے گئے۔ سب اپنی اپنی باری کا انتظار قطار اندر قطار شرافت، متانت اور دیانت کی عملی تصویر بن کر کرتے پائے گئے، بلکہ کئی صاحبان تو زیرِ لب مختلف قسم کے ورد کر رہے تھے کہ امیگریشن والے مشکل سوالات کے ذریعے انہیں گھیر نہ لیں۔دنیا بھر میں برطانوی نظام اور اس کی طرف سے عوام کو مہیا کی گئی سہولتوں کا جو چرچا تھا وہ ''سہولت کاری ‘‘ مجھے کہیں پر بھی نظر نہ آئی، لہٰذا میں تھوڑا سا پریشان ہو گیا۔
چھوٹے چھوٹے امیگریشن کائونٹرز پر مامور سٹاف میں سکیورٹی کے دیگر اداروں کے ملازمین کی طرح رعب نظر نہیں آیا۔ انہیں دیکھ کر کہیں سے بھی شائبہ نہ ہوا کہ یہ اسی تاجِ برطانیہ کے حکومتی اداروں کے اہلکار اور افسر ہیں جس کی سلطنت کی وسعتوں پر کسی زمانے میں سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا۔ وہ تاجِ برطانیہ جس نے برصغیر پاک و ہند پر اپنے رعب و دبدبے کی دھاک بٹھانے اور سرکاری افسران کی شان و شوکت کے لیے کئی ایکڑوں پر مشتمل رہائش گاہیں اور قلعہ نما دفاتر قائم کیے۔ ایئرپورٹ پر کسٹم حکام، پولیس ملازمین اور امیگریشن سٹاف‘ سب کے سب بہت تمیزدار، چہرے پر مسکراہٹ سجائے اور نہایت عاجزی سے دنیا بھر سے آئے مسافروں سے پیشہ ورانہ انداز میں ڈیل کرتے نظر آئے۔ نہ کوئی افسر انہ ٹھاٹ باٹ، نہ کوئی اکڑ، نہ کوئی پروٹوکول، نہ ہی ہٹو بچو کی آوازیں اور نہ ہی کوئی ہلا گلا۔ چار سُو خاموشی، سکون اور بوریت کے گہرے سائے۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں کہیں غلط جگہ تو نہیں آگیا۔ تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے میں اسی سوچ بچار میں گم سم کھڑا تھا کہ میرے سامنے والے کائونٹر سے ''نیکسٹ پلیز‘‘ کی آواز آئی۔ میں اس کائونٹر کی طرف بڑھ گیا۔ کائونٹر پر موجود ادھیڑ عمر کی ایک خاتون نے مجھ سے میرا مکمل نام پوچھا، میری یونیورسٹی کا نام معلوم کیا، میرے پی ایچ ڈی کے مضمون کے بارے میں دریافت کیا جو اسے بہت دلچسپ لگا اور اس کے بعد اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس نے مجھے ''بیسٹ آف لک‘‘ کہا اور میرا پاسپورٹ مجھے واپس کر دیا۔ اس کی دلگیر مسکراہٹ سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ یہ کہہ رہی تھی کہ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
قارئینِ کرام، یہ ساری تمہید جس اہم راز سے پردہ اٹھانے کے لیے باندھی گئی ہے اس کے لیے آپ کو اگلے کالم کا انتظار کرنا پڑے گا، لہٰذا انتظار فرمائیں۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں