آج سے چار سال قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی امن اور پائیدار ترقی کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے تعلیم کا عالمی دن منانے کا مقصد بہتر معاشرے کی تعمیر کا عزم بھی ہے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد ہر سال پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً سب ممالک میں تعلیم کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی یومِ تعلیم کے سلسلے میں رواں سال کی تھیم ''لوگوں میں سرمایہ کاری کرنا‘ تعلیم کو ترجیح دینا‘‘ ہے۔
پندرہویں صدی کے فلسفی فرانسس بیکن (1561-1626ء) نے انسانی جبلت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے تین اقسام میں تقسیم کیا تھا: پہلی قسم میں ان لوگوں کو شمار کیا گیا جو اپنے ملکوں میں اپنی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں‘ یہ نچلے درجے کے لوگ کہلاتے ہیں۔ دوسر ی قسم میں وہ لوگ شامل کیے گئے جو اپنے ملکوں اور لوگوں کی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں‘ یہ قدرے بہتر ہیں۔ تیسری قسم میں ان افراد کو شامل کیا گیا جو نسلِ انسانی کی طاقت اور غلبہ پوری کائنات تک بڑھانا چاہتے ہیں‘ یہ صحیح معنوں میں عظیم لوگ ہیں۔ اگر ان تینوں گروہوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ تیسری قسم کے لوگ جو فرانسس بیکن کے فلسفے کے مطابق اعلیٰ ترین اوصاف سے مالا مال ہیں‘ صرف اور صرف معیاری تعلیم کے فروغ سے ہی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ تعلیم کا اولین مقصد فرد کے اخلاقی وجود کی تربیت کرنا اور اس کی صلاحیتوں کی پرورش اس انداز میں کرنا ہوتا ہے کہ انسانی معاشرہ ترقی کرے۔ تعلیم یہ بھی ہے کہ معاشرے کے افراد اس قدر باشعور ہوں کہ وہ اپنے اطراف موجود ابھرتی نسل کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مقصدِ حیات سے روشناس کرائیں۔ تعلیم سے نہ صرف شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ انسان کو سیاسی طور پر بھی سرگرم رکھتی ہے۔ تعلیم اقتصادی اور سیاسی ترقی‘ جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے ایک بنیادی شرط ہے اور یہ بات جس بھی ملک کی لیڈر شپ کو سمجھ آئی انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں تعلیم اور تعلیمی بجٹ کو اپنی ترجیحات میں رکھا اور اس تعلیمی طاقت کے ذریعے نہ صرف اپنے عوام کو شعوری ترقی دے کر خوشحالی سے ہم کنار کیا بلکہ عالمی سطح پر اپنی قوم کو تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تعلیم کا حق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 26میں درج ہے۔ اس اعلامیہ میں مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 1989ء میں اس لازمی تعلیم کے ضمن میں اس شرط کا اضافہ کیا گیا کہ تمام ممالک اعلیٰ تعلیم کو سب کے لیے قابلِ رسائی بنائیں گے تاہم دنیا بھر میں آج بھی 24 کروڑ چالیس لاکھ بچے بنیادی تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں۔ تعلیم کی اس محرومی سے نہ صرف ان بچوں کے مستقبل پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے بلکہ انسانی معاشرہ بھی اس کے دور رس منفی اثرات محفوط نہیں رہ سکے گا۔ یونیسکو نے 2015ء میں یو این کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے تعلیم کو مرکز قرار دیتے ہوئے ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ تعلیم کے حوالے سے ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی جارہی ہے کہ ہماری دنیا کو جس طرح کے خطرات کا سامنا آج ہے‘ ایسے خطرات کا سامنا تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ آج دنیا ایک نئے موڑ پر ہے‘ آبادی میں بے انتہا اضافہ‘ بڑھتے ہوئے سیاسی و عسکری تنازعات‘ شدت پسندی و عدم برداشت‘ موسمیاتی تبدیلیاں اور اسی طرح کے دیگر مسائل نے زمین پر حیات کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ ایسے میں صرف معیاری تعلیم ہی منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی تشکیل میں مدد دے سکتی ہے۔ ترقی کی بے رحمانہ جستجو سے انسان کے اپنے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بیسویں صدی میں عوامی تعلیم کا بنیادی مقصد بچوں اور نوجوانوں کے لیے لازمی تعلیم کے ذریعے قومی شہریت اور ترقی کی کوششوں کی حمایت کرنا تھا۔ آج اکیسویں صدی میں جبکہ ہماری دھرتی اور اس پر موجود حیات کو بقا کے سنگین خطرات لاحق ہیں‘ ان خطرات اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں تعلیمی نصاب کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا۔
اسلام میں علم کی اہمیت کی سب سے بڑی دلیل نبی آخر الزماںﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کے الفاظ ''اقرا باسم ربک الذی خلق‘‘ ہیں۔ قرآن الحکیم میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر حصولِ تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم کی فرضیت کا براہِ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حصولِ علم تمام مسلمانوں (بلا تفریق مرد و زن) پر فرض ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی 1.97 بلین ہے جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد بنتا ہے۔ ہمارے مذہب میں حصولِ علم کی جتنی فضیلت ہے ‘ اس حساب سے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح کو ایک سو فیصد ہونا چاہیے لیکن مسلم دنیامیں شرح خواندگی صرف 68.5 فیصد ہے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا تھا: ''ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنی آئندہ نسل کی کردار سازی بھی کرنی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موزوں تعلیم کے ذریعے ان میں عزتِ نفس‘ راست بازی‘ ذمہ داری اور ایثار و قربانی کا جذ بہ پیدا کریں‘‘۔ کسی ملک کا مستقبل اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کا براہِ راست تعلق اس کے بچوں اور نوعمروں کو فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار سے ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں غربت اور ناخواندگی کا تناسب ایک برابر ہے۔ پاکستان میں اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ خواندگی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ UNICEF کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5سے 16سال کی عمر کے 22 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جو کہ اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہے۔ ملک میں پرائمری سطح پر سکول نہ جانے والے بچوں کی دنیا میں دوسری سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ پرائمری سکول کی عمر کے بعد سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دوگنی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بچوں کے سکولوں سے باہر ہونے کے دیگر عوامل میں معاشی حالات‘ کم معیار کی تدریس‘ سکولوں کا محلِ وقوع‘ سکولوں کی عمارتوں کی کمی‘ ثقافت اور جنس وغیرہ شامل ہیں۔ جو بچے سکول جاتے بھی ہیں تو ان میں معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی مضامین کے لیے کم از کم لیول سے کم سکور حاصل کرنے والے طلبہ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق ''عمرانی زندگی کی بنیاد غور و فکر اور غورو فکر کی بنیاد علم ہے۔ انسان فطری طور پر تعلیم کی طرف رغبت اور میلان رکھتا ہے‘ اس لیے یہ اس کا فطری حق ہے‘‘۔ اسی طرح معیاری تعلیم کا حصول بھی ہر پاکستانی بچے کا حق ہے۔ اسلامی ملک ہونے کے ناتے اور بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق اگر بطور قوم دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو ہماری حکومت کی اولین ترجیح معیاری تعلیم ہونی چاہیے۔