تنگ نظری ہر دور میں معاشرتی فتنہ و فساد کا سبب بنتی رہی ہے اور اس کی وجہ سے اقوامِ عالم کو متعدد فکری‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ لوگوں کے نسلی‘ لسانی اور مذہبی تعصبات نے پُرامن بقائے باہمی کو مستقل خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی ہر طرح کے امتیازات سے بالا تر ہو کر معاشرے میں رواداری کے قیام کے لیے اہم ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کے لیے مکالمہ نہایت ضروری ہے تاکہ عالمگیریت کی دنیا میں مذہبی تنوع کو سمجھتے ہوئے انسانی مواخات کو فروغ دیا جا سکے۔ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منانے کی تجویز اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے 2010ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دی تھی‘ جسے قرارداد کے ذریعے منظور کیا گیا اور اس طرح ہر سال یکم فروری سے 7 فروری کے دوران عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔
امن اور عدم تشدد کو فروغ دینے کے علاوہ اس ہفتے کو منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو یہ باور کرایا جائے کہ بنی نوع انسان کی مشترکہ اقدار اس کے اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس طرح رنگ‘ نسل‘ عقائد‘ زبان و قوم کی بنیاد پر موجود اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امن اور ہم آہنگی کو مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تمام مذاہب اور عقائد کے اخلاقی تقاضے امن‘ رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مذہبی تنوع اور اختلافات کو تسلیم کرنے کی بنیاد پر تمام مذاہب کے رہنماؤں کو باہمی افہام و تفہیم‘ ہمدردی و رواداری کو بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مذہب کو مذموم مقاصد اور مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی ممانعت ہونی چاہیے اور مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھا کر عقیدے اور نظریے کے مسائل کو رواداری کے ساتھ حل کرنے کی راہ تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ ''زمین پر تمام چیزیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر ایک ساتھ بڑھتی ہیں‘ یہ یکسانیت کے بغیر ہم آہنگی کا درست اظہار ہے‘‘۔ تو آخر اس اصول کے تحت انسان کیوں یکسانیت کے بغیر ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کو قبول نہیں کر پا رہا؟ اور متواتر تنوع کے خاتمے کا خواہش مند ہے۔
آج انسان اپنی تمام تر تہذیبی‘ شعوری و علمی ترقی کے باوجود جب کسی دوسرے انسان کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کا ناگوار عمل کرتا ہے تو اس کا اولین مقصد اختلاف‘ تشدد اور نفرت کے شعلوں کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ کسی بھی انسانی گروہ کی عبادت گاہوں پر حملے‘ مذہبی صحیفوں کو جلانا اور ان کے مقدسات کی بے حرمتی ایک انتہائی ہتک آمیز عمل ہے۔ کتابوں کو جلانے کے تاریخی شواہد تیرہویں و چودہویں صدی سے ملتے ہیں۔ یورپ میں کتابوں کو جلانے کی ایک طویل تاریخ ہے جسے کبھی سیاسی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو کبھی یہ حربہ آمرانہ حکومتیں عوام الناس کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ اس طرح کتاب کو جلانا علامتی قتل یا علامتی تباہی بن جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے ایک جرمن شاعر و ڈرامہ نگار Heinrich Heine نے اپنے ایک ڈرامے میں کتابوں کو جلانے اور لوگوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے اس ناگوار عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ کتابوں کو جلاتے ہیں وہ آخر کار لوگوں کو جلادیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں شدت پسندانہ نسل پرستی کے رجحانات خطرناک حد تک بڑھے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان اپنے تنگ نظر ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے اسلامو فوبیا کو بطور آلہ استعمال کر رہے ہیں۔
21جنوری کو سویڈن اور ڈنمارک کی شہریت رکھنے والے انتہائی دائیں باوز کی سیاسی جماعت اسٹرام کرس (Stram Kurs)کے شدت پسند سیاست دان (Rasmus Paludan) راسموس پالوڈن نے انتخابی مہم کو کامیاب بنانے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ سویڈش حکام نے اس شرمناک واقعے کو روکنے کیلئے ضروری احتیاطی اقدامات نہیں کیے جس سے حوصلہ پاکر نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی گئیں۔ راسموس پالوڈن کے سیاسی کیریئر کو دیکھیں تو اس نے قومی انتخابات میں کبھی بھی 1.8فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کیے لیکن سستی شہرت کے حصول کیلئے نسل پرستانہ اور مذہبی منافرت پھیلانے کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اسلام مخالف و اشتعال انگیز سرگرمیوں میں مسلسل سرگرم رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سویڈش میڈیا میں ہونے والے مباحثوں میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذرِ آتش کرنے کی نسل پرستانہ جہتوں پر توجہ دینے کے بجائے آزادیٔ اظہارِ رائے کے تحفظ کی اہمیت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے لیکن اس آزادیٔ اظہارِ رائے کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور دو رخی کا پردہ اس وقت چاک ہوگیا جب سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر احتجاج اور یہودیوں کی مقدس کتاب کو جلانے کا منصوبہ اسرائیلی اور سویڈش حکام کی مداخلت کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کے اس عمل کو آزادیٔ اظہارِ رائے سے گڈ مڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے عمل سے دنیا میں عدم برداشت اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔
پالوڈن کا یہ عمل نسل پرستانہ کارروائی ہے‘ یہ کیسی آزادیٔ اظہارِ رائے ہے جو ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلم آبادی کی براہِ راست توہین ہے۔ اس طرح کی گھناؤنی کارروائیاں عالمی امن و بقائے باہمی کیلئے خطرہ ہیں اور نسل پرستانہ‘ غیر انسانی مسلم مخالف حملوں کی ترغیب کا باعث بن سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ میانمار‘ اسرائیل‘ مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلم مخالف سرگرمیوں کی رپورٹس غیر جانبدار میڈیا مسلسل کر رہا ہے۔ اسلامی ممالک کو اس ضمن میں آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متفقہ حکمتِ عملی بنانا ہوگی اور ہر عالمی فورم پر اس مسئلے کو مشترکہ طور پر اٹھانا ہوگا تاکہ دنیا کو اس مسئلے کی حساسیت کا احساس ہو سکے۔
دنیا میں جہاں اس طرح کے شدت پسند موجود ہیں‘ وہیں انسانی مواخات اور بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھنے والوں کی بھی دنیا میں کمی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سویڈن سے ہی ایک مثال لے لیتے ہیں جب شدت پسند راسموس پالوڈن نے سویڈن کے شہر Sodertalje (جہاں کی اکثریتی آبادی اسوری کمیونٹی پر مشتمل ہے) میں قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی تو وہاں کی مقامی آبادی نے پالوڈن کو اپنے شہر میں اس اشتعال انگیز حرکت اور مذہبی منافرت پھیلانے سے روک دیا۔ عالمی امن کے لیے انسانی مواخات کے فروغ اور رواداری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رواداری کو فروغ دینے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے سکول کی سطح پر بامعنی انداز میں بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی مواخات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی پیڑی کی تربیت بہتر انداز میں ہو سکے۔ مزید برآں ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ رواداری‘ تکثیری روایت‘ باہمی احترام سے ہی انسانی مواخات ممکن ہے۔ مقامی‘ علاقائی‘ قومی اور عالمی سطحوں پر باہمی احترام کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے مذہبی‘ سیاسی اور سماجی کارکنوں کو آگے بڑھ کے اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ قوانین اور حقوق کے غلط استعمال اور تشریحات کو روکنے کیلئے مشترکہ فریم ورک تیار کیا جائے۔ دنیا کے تمام مذاہب بنیادی طور پر انسانیت کو امن و بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں‘ اس کے باوجود انسانوں کے درمیان موجود تناؤ اور نفرت کے جذبات موجود ہیں‘ ایسے میں بین المذاہب مکالمے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔