ہم عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں اپنی بھرپور خوشگوار اور مشکل دونوں صورتحال میں فطری طور پر اپنے خیالات اور یادوں میں اپنے والدین کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ وہ پہلے انسان ہوتے ہیں جو ہمارے جذبات کو سمجھتے ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ ہم چاہے جتنے بھی بڑے ہوتے چلے جائیں لیکن ان کی دیکھ بھال‘بے لوث پیار اور شفقت اسی انداز میں برقرار رہتا ہے۔ یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو ہماری جذباتی مدد کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں‘ جو سکون سمجھ اور یقین دہانی فراہم کرتے ہیں۔ ویسے تو انسان ہوں یا چرند پرند‘بطور والدین سب کا کردار فطری طور پر یکساں ملتا ہے۔ تمام والدین بچوں کی دیکھ بھال‘ پرورش‘ ذہنی و جذباتی نشو نما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو وسیع تر معاشر ے کے ساتھ تعامل کے لیے تیار کرتے ہیں اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ تعامل اکثر دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرنے کے نمونے کے طورپر کام کرتا ہے۔ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اپنے بچوں کے ساتھ رویہ مختلف ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کچھ ثقافتیں بچوں کو بولنے اور خود مختار ہونے کی ترغیب دیتی ہیں جبکہ دوسری بچوں سے خاموش رہنے اور ہمیشہ اپنے بزرگوں کا احترام کرنے کی توقع کرتی ہیں۔بیسویں صدی کے آخری عشروں میں معاشرتی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے خاندانی اکائی کو متاثر کیا جس بنا پر معاشرے کی اخلاقی اقدار میں بدلاؤ اور تنزل کے پیش نظر عالمی سطح پر خاندان اور والدین کی معاشرے میں اہمیت کے حوالے سے آگاہی کیلئے عالمی دن منانے کا آغاز کیا گیا۔ تاکہ بچوں‘ والدین اور خاندان کے دیگر رشتوں کے درمیان تعلق کو بہتر بنایا جاسکا۔
مشترکہ خاندانی نظام پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ابھی بھی رائج ہے‘تاہم جس تیزی کے ساتھ لوگ شہروں کی جانب ہجرت کر رہے ہیں تو نیوکلیئر خاندان کا سسٹم مشترکہ خاندان کی جگہ لے رہا ہے۔ ترقی یا فتہ ممالک میں نیو کلیئر خاندان کا سسٹم بھی تیزی سے ختم ہورہا ہے اور بچوں کے پرورش کی ذمہ داری کبھی ماں تو کبھی باپ پر آجاتی ہے۔ایسی صورت میں بچوں کو جس جذباتی اور ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اثر نہ صرف ان کی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ جب والدین کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت بچوں کے پاس بھی ان کیلئے وقت نہیں ہوتا۔ خاندانی سسٹم کی اس انحطاط پذیری کے اثرات اس لئے بھی ترقی یافتہ ممالک میں کم نظر آرہے ہیں کیونکہ وہاں ویلفیئر ریاست نے بچوں کیلئے ماں باپ کا کردار کوادا کرنے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ مفت رہائش‘ مفت صحت کی سہولیات‘ مفت تعلیم اور بے روزگاری ا لاؤنس وغیرہ نے معاشرے کو بکھرنے نہیں دیا۔ ویلفیئر ریاست کے قیام کے پیچھے مزدوروں کی جدو جہد کی ایک طویل تحریک تھی۔ اس تحریک نے ان ریاستوں کو ویلفیئر ریاست بننے پر مجبور کیا۔ جب ریاست ہر فرد کی مذکور ہ بالا ضروریات کی ذمہ داری لے لیتی ہے تو ریاست ماں جیسی ہوجاتی ہے‘فرد آزاد فضا میں سانس لیتا ہے اور ریاست کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
والدین انسان کے وجود کا ظاہری سبب ہیں اور ان کے بغیر نہ کوئی خاندان اور نہ ہی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کتب میں والدین کے احترام اور ان سے حسنِ سلوک کا تصور موجود ہے۔ اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت‘ ان تینوں مذاہب میں والدین سے حسنِ سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ تورات کے باب خروج میں والدین کہ حوالے سے حکم ہے کہ تُو اپنے ماں باپ کو عزت دے تاکہ تیری عمر اس زمین پر اور دراز ہو۔ انجیل میں بھی والدین کی نافرمانی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ والدین کے احترام اور ان سے حسنِ سلوک کے حوالے سے قرآن مجیدکی سورہ البقر ہ‘ سورہ النسائ‘ سورہ الانعام‘ سورہ الانفال‘ سورہ الاسرائ‘ سورہ مریم‘ سورہ لقمان اورسورہ الحدید میں واضح احکامات موجود ہیں۔احادیثِ نبوی میں بھی والدین سے محبت و شفقت سے پیش آنے کے احکام بکثرت ہیں۔ اسلام میں والدین کو جو حقو ق دیے گئے ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:اخلاقی حقوق(حسن سلوک‘ اطاعت‘نمازمیں دعا) قانونی حقوق(میراث‘نفقہ‘والدین کی نافرمانی کی سزا وغیرہ)۔ اسلام میں والدین کے حقوق کے بارے میں ایک مکمل ضابطہ اخلاق موجود ہے اور اولاد کو بڑے واضح انداز میں تلقین کی گئی ہے کہ وہ ماں باپ کی عزت و تقریم اور ادب و احترام کا پورا خیال رکھے۔
پاکستانی معاشرے میں خاندان اور رشتوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں مشترکہ خاندانی نظام موجود ہے۔ جہاں تین‘ چار یا بعض اوقات پانچ نسلیں ایک ساتھ ایک گھر میں رہتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خاندانی قدریں ابھی باقی ہیں‘اولاد بڑھاپے میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے ان معاشرتی اقدار کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ آئے دن اس طرح کی دلخراش خبریں میڈیا میں آتی ہیں کہ نافرمان بیٹے نے والد یا والدہ کو گھرت سے نکال دیا۔ اکثر والدین اپنی زندگی کی جمع پونجی سے گھر بناتے ہیں اور اولاد انہیں اس سے بے دخل کردیتی ہے۔ رواں دور میں بچوں اور والدین میں سماجی دوری کی اک بڑی وجہ موبائل فون بھی ہیں۔ والدین اور بچے اپنے موبائل فونز کے ذریعے پوری دنیا سے رابطے میں ہوتے ہیں مگر ایک ہی چھت کے نیچے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہیں۔ گزشتہ چند عشروں سے ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جگہ نیوکلیئر فیملی سسٹم نے لے لی ہے‘ لیکن معاشی ناہمواریوں‘ ترقی کی دوڑ اور بہتر روزگار کی تلاش کی وجہ سے رشتوں کا احترام کم ہوتا جارہا ہے۔
1983ء میں خاندان کے گرد گھومنے والے مسائل پر اکنامک اینڈ سوشل کونسل کمیشن برائے سماجی ترقی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی تھی کہ وہ ان مسائل پر زیادہ توجہ دیں جو معاشرے کی اس اکائی کو متاثر کر رہے ہیں اور ان مسائل کا حل سب کو مل کر تلاش کرنا چاہیے۔ جس کے بعد 1989ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 1994ء کو خاندانوں کے بین الاقوامی سال کے طورپر منانے کا اعلان کیا۔ اس طرح ایک دوسری قرار داد کے ذریعے 15مئی کو خاندانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یکم جون کو پوری دنیا میں والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے 17 ستمبر 2012 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد 292/66 منظور کی اور 2013ء کو پہلی مرتبہ والدین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں والدین کی اہمیت کا ادراک اور اعتراف کرنا ہے۔
والدین کا دن‘والدہ کا دن یا والد کا دن دراصل بچوں کو مواقع فراہم کرتے ہیں کہ والدین کی غیر مشروط محبت‘ قربانیوں اور رہنمائی کیلئے اظہارِ تشکر اور ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔ پاکستان کا مجموعی کلچر سال بھر والدین کے احترام اور ان کی دیکھ بھال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن یہ دن ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ والدین جنہوں نے ہماری پرورش پر محبت‘ مدد اوروسائل فراہم کیے کیا اب انہیں جسمانی‘ جذباتی یا مالی وسائل کی کمی کا سامنا تو نہیں ؟ ہمارے مشرقی معاشرے میں والدین کی اکثریت بچوں کی جانب سے بے قدری کے رویے کا ذکر کرنے کے بجائے ان تکالیف کو خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔ غور کیجیے‘ کہیں آپ کے والدین کو اس صورتحال کا سامنا تو نہیں ؟ اگر ہے تو توجہ دیجیے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اپنے والدین کے چہروں پر مسکراہٹ اور ان کی غیر متزلزل محبت کو خراجِ تحسین پیش کیجیے۔