کوئی بے حسی سی بے حسی ہے

اب تو شاید یہ ایک عام سی بات ہو چلی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر اُبھرتی ہے جو ہماری قومی اور سماجی اقدار پر ایک سوالیہ نشان چھوڑتی چلی جاتی ہے اور چند دِنوں میں وہ یادداشت کے وائٹ بورڈ سے مٹ جاتی ہے اور پھر زندگی عام ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک تازہ تصویر اُبھرتی ہے۔ ہسپتال کا ایک چھوٹا سا گھٹن زدہ کمرہ ہے جہاں ایک میلے کچیلے بستر پر دو انتہائی علیل مریض بے بسی کی تصویر بنے نظر آرہے ہیں۔ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کی وائرل ہونے والی اس تصویر میں ڈبل شیئرنگ بستر پر کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے دِن پورے کرتے دِکھائی دینے والے دو مریضوں میں سے ایک ہمارے ملک کے عظیم فن کار افضال احمد تھے۔ میں ابھی اس تصویر میں نظر آنے والے زندگی کی کشمکش میں اُلجھے شخص کی بے چارگی اور اپنی عمومی معاشرتی بے حسی کے صدمے سے دوچار تھا کہ خبر آ گئی کہ افضال احمد جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ میں پورا دِن اُداس اور متفکر رہا کہ ایک شخص‘ جس نے اپنی زندگی کے پینتیس برس اپنے ملک کی ثقافت کے فروغ کے لیے گزار دیے‘ بہت سے نامور لوگوں کو فلم اور تھیٹر میں متعارف کرایا اور تخلیق کی بلندیوں کو چھوتا رہا‘ وہ کیسی کسمپرسی کی حالت میں س دُنیا سے رُخصت ہوا۔ وائرل ہونے والی تصویر مسلسل بول رہی ہے اور یہ ہم سب کو عبرت کی نشانیاں بتا رہی ہے۔ افضال احمد کی یہ تصویر ہماری اقدار سے لاتعلقی کا نوحہ سُنا رہی ہے اور ہم ہیں کہ فی الحال کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ایسے دُکھ بھرے انداز میں دنیا سے رخصت ہونے والے افضال احمدنے اٹھارہ برس کی عمر میں فن کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اداکاری سے اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کرنے والے افضال احمد اَسّی اور نوے کی دہائیوں میں فلموں اور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے اور بہت سے مشکل کردار نبھائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو دہائیوں تک سکرین پر سپر ہٹ رہے۔ 35 برسوں پہ محیط شوبز کیریئر میں اُنہوں نے دو سو سے زائد فلموں اور ڈراموں میں کام کیا اور کئی یادگار کردار نبھائے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے سبب ہر خاص و عام سے خوب داد سمیٹی۔خوبصورت شخصیت کے حامل افضال احمد ہمیشہ نفیس لباس زیب تن کرتے اور آواز میں ایسی مسحور کن کھنک تھی کہ سننے والے سنتے ہی رہ جاتے۔ وہ اداکاری میں ہر طرح کے کردار میں ڈھل جانے کا ہنر جانتے تھے اور یہ ایسا ملکہ ہے جو ہر فن کا ر کو حاصل نہیں ہوتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب اسّی کی دہائی کے اوائل میں ہم نے گاؤں سے راولپنڈی آنا شروع کیا تو اسی دوران ایک دن اپنے خالہ زاد آفتاب بھٹی‘ جو اب گلاسگو (یوکے ) میں مقیم ہیں‘ کے ساتھ پہلی بارمیں فلم دیکھنے سینما گیا۔ آفتاب بھائی ایک اچھے عہدے پر فائز تھے اور گاؤں سے آنے والے تمام کزنز کے لیے اِس طرح کی دعوتوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اُس وقت راولپنڈی کا مری روڈ سینماؤں کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ مری روڈ پر چھ بڑے سینما ہال‘ سنگیت، ریالٹو،موتی محل، گلستان، شبستان اور کہکشاں‘ ہوا کرتے تھے۔کسی سینمامیں جب بھی کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی تو لوگوں کا جوش وخروش انتہا کوپہنچ جاتا۔مجھے پہلی بار 'کھڑکی توڑ‘ رش کا مطلب وہیں سمجھ آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگ سینماؤں کا رُخ کرتے تھے اور پاکستان میں تخلیقی اعتبار سے بہت معیاری فلمیں بن رہی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب افضال احمد پاکستان کے ڈرامہ، سٹیج اور فلم کے شعبوں میں اپنے ہنر کے کرشمے دکھا رہے تھے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افضال احمد کے تخلیقی سفر کی پرواز اور ہمارے شوق کا زمانہ لگ بھگ ایک ہی تھا۔ بہت سالوں بعد جب آفتاب بھائی یو کے سے پاکستان آئے تو مجھے فون کیا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ سے ملحقہ ہال میں ایک اچھا سٹیج ڈرامہ چل رہا ہے‘ تم آجاؤ تو دیکھنے جائیں گے۔ میرے ذہن میں سٹیج ڈرامے کا قدرے مختلف خاکہ تھا۔ آج کی طرح اُس وقت بھی سٹیج ڈرامہ مزاح اور جگت بازی کے لیے مشہور تھا جبکہ فحش گوئی کا رُجحان بھی زور پکڑ رہا تھا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر میں لاہور کے اپنے دوستوں سے اس خواہش کا اظہار کروں کہ مجھے سٹیج ڈرامہ دیکھنا ہے تو وہ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ آپ نفیس آدمی ہیں‘ کیوں سٹیج ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آج کا تھیٹر نفاست سے کوسوں دُورہے۔ خیر‘ اُس شام میں آفتاب بھائی کے ہمراہ ڈرامہ دیکھنے لیاقت باغ چلا گیا۔ ڈرامے کا عنوان تھا: جنم جنم کی میلی چادر۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ سماجی موضوع پر تخلیق کیا گیا ڈرامہ تھا اور بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ افضال احمد‘ جن کو ہم فلموں میں بہت شوق سے دیکھتے ہیں‘ وہی اِس ڈرامے کے روحِ رواں ہیں۔ شاید اُس وقت تک راولپنڈی میں سٹیج ڈرامے کا ایسا رُجحان نہیں تھا اِ س لیے لوگوں کا ایک جمِ غفیر لیاقت باغ میں جمع تھا۔ 'جنم جنم کی میلی چادر‘ نے میری سٹیج ڈرامے کے بارے میں رائے بدل کر رکھ دی۔ مجھے لگا کہ سٹیج ڈرامہ کے فورم سے بہت سے معاشرتی اور سماجی مسائل کو موضوع بنا کر اصلاحِ عامہ کا فریضہ نبھایا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ ختم ہوا تو پُر کشش شخصیت کے مالک افضال احمد تھری پیس سوٹ پہنے خود سٹیج پر آئے اور حاضرین سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیج ڈرامہ کے بارے عمومی تاثر ہے کہ یہاں جملہ بازی اور فحش گوئی کا رُجحان فروغ پا رہا ہے جبکہ تفریح یا اصلاحِ معاشرہ الگ موضوعات ہیں۔ اگرایسے ڈراموں ‘ جو خالص تفریح اور اصلاحِ معاشرہ سے متعلق ہوں‘ کو عوامی پذیرائی ملے تو دوسرے منفی رجحانات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جنم جنم کی میلی چادر‘ ایسا ڈرامہ ہے جو ایک سماجی موضوع پر ہے اور تمام فیملی ارکان کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔افضال احمد کی باتوں سے لگا کہ وہ کچھ مختلف اوراصلاحِ سماج کے حوالے سے کچھ منفرد مگر اہم کرنا چاہتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ ' جنم جنم کی میلی چادر‘ پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک چلنے والا ڈرامہ تھا اور یہ تھیٹر کی دُنیا کا ایک ایسا انقلاب ثابت ہوا جو ہمیشہ افضال احمد سے منسوب رہے گا۔
اِ س وقت افضال احمد کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے زیادہ تر ڈرامہ اور فلم کے شعبوں میں ان کی خدمات پر بات کی جا رہی ہے اور ہر حلقے میں اُن کے اسی کام کے حوالے سے انہیں خراجِ تحسین بھی پیش کیا جارہا ہے لیکن افسوس کہ افضال احمد اپنی زندگی میں اِس تعریف و تحسین سے محروم رہے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اور اس سے جو تصویر ابھر کر سامنے آئی‘ وہ ہماری مجموعی معاشرتی بے حسی کی تصویر ہے۔ میرے خیال میں کسی بھی شخص‘ جس کی اِس ملک کے لیے خدمات ہوں‘ کو سب سے بڑخراج یہی ہوگا کہ ہم اُس کی ایسی تصویر تخلیق ہونے سے روک سکیں جیسی تصویر افضال احمد کی وائرل ہوئی۔ایسے واقعات میں دو سطح کی لغزشیں سرزد ہوتی ہیں۔ ایک خاندان کی سطح کی لغزش ہے اور دوسری معاشرے کی سطح کی لغزش ہے۔ دُکھ کی بات ہے کہ کامیاب شخص کی زندگی سے منفعت خاندا ن اُٹھاتا ہے یا پھر معاشرہ ایسے شخص کی محنت ِ شاقہ سے مستفید ہوتا ہے۔ پھر جب وہ توانا، محنتی اور کامیاب شخص لاغر اور مجبور ہو جاتا ہے اور اُس کو زندگی کے چند آخری قدم اُٹھانے میں مدد درکار ہوتی ہے تو خاندان اور معاشرہ اس سے یکسر لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ آئیے! جن لوگوں سے معاشرے کو یا ہمیں زندگی میں کوئی فائدہ پہنچا‘ اُن کے آخری چند قدم اُٹھانے میں ان کی مدد کر کے ' بے حس معاشرہ‘ ہو نے کا داغ مٹانے کی کوشش کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں