دسمبر غم جگاتا ہے

مجھے نہیں معلوم کہ 1971ء سے پہلے کا دسمبر اُداس ہوا کرتا تھا یا نہیں کہ میں اس وقت تک ابھی نکتۂ شعور کی پہلی سیڑھی تک بھی نہیں پہنچ پایا تھا لیکن جب میں سرسری سمجھ بوجھ کی سطح پر پہنچا اور میں نے شاعروں اور ادیبوں سے سنا تو میرے ذہن و دِل میں دسمبر کا نقشہ یوں کھچا کہ مجھے لگا کہ دسمبر جدائی اوردُکھ کا موسم ہے‘ جو اکتیس دنوں کے لیے ساکت ہو جاتا ہے اور یوں دسمبر کسی نہ کسی طور جدائی اور دکھ سے پھوٹتی اُداسی کی ترجمانی کرنے لگتا ہے۔ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں کہ اے پی ایس کے عظیم سانحے سے قبل دسمبر اتنا دلخراش تھا یا نہیں مگر یہ سانحہ ایسا تھا کہ ہمارے دلوں میں اُداسی کی مہر ثبت کرتا چلا گیا اور زخم ایسا کہ آج بھی تازہ ہے۔ یوں دسمبر جیسے ہی شروع ہوتا ہے‘ اُداسی کا راج بھی شروع ہو جاتا ہے۔
16دسمبر 1971ء کے سانحے کے دکھ کے ساتھ ہم نے زندگی بسر کی۔ اوائل جوانی میں خاکی وردی پہنی تو 1971ء کا ذکر آ نے پر غم و غصہ ہڈیوں میں سرایت کرتا محسوس ہوتا۔یہ ایک ایسی ندامت تھی جو ہماری نسل کے حصے میں آگئی‘ اگرچہ اس میں ہمارا کوئی کردار نہ تھا۔ سمجھ بوجھ قدرے بہتر ہوئی تو اپنی ہی کوتاہیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نظروں کے سامنے آگیا۔ اپنے گریبان میں جھانکا تو جھانکتے ہی رہ گئے اور کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں کی صورت حال سے دوچار ہو گئے۔ کہاں کہاں‘ کیا کیا غلطی ہوئی‘ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ پتا چلا کہ پاکستان کے حق میں موثر آوازیں بنگال سے اٹھا کرتی تھیں تو پھر ایسا کیا ہوا کہ بنگالی ہی دشمنِ جاں ہوگئے۔ بنگالیوں سے ہمارا کیا رشتہ تھا اور وہ رشتہ کیوں نہ نبھایا جا سکا‘ یہ بھی مجھے بہت دیر سے سمجھ آیا۔ برسوں پہلے میری رجمنٹ کے ایک بنگالی ریٹائرڈ افسر بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ پاکستان آئے تو انہوں نے ہماری بٹالین کا دورہ کرنے کی خواہش کی۔ چونکہ انہوں نے ہماری بٹالین میں کمیشن حاصل کیا تھا‘ وہ اس کا حصہ رہ چکے تھے‘ اس لیے وہ 'اپنی بٹالین‘ میں کچھ وقت گزارنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے‘ ضابطے کی کارروائی ہوئی اور ان کو بٹالین آنے کی اجازت مل گئی۔ اس موقع پر بٹالین کے افسران کو فیملیز کے ساتھ مدعو کیا گیا۔ میں بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ پہنچا۔ رات کے کھانے کے بعد انہوں نے وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرکے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کی کہانی بیان کی۔ جذبات سے بھرپور گفتگو‘ جو بولنے والے کے دِ ل کی آواز محسوس ہو رہی تھی۔ بات چیت کرتے ہوئے کئی بار ان کی آ نکھوں میں نمی تیر جاتی اور کبھی بات کرتے کرتے ان کا گلا رندھ جاتا اور وہ کافی دیر کے لیے خاموش ہو جاتے۔ ہم سب کو وہ ایسے مل رہے تھے جیسے صدیوں سے جانتے تھے حالانکہ ہم سب اُن کے جانے کے برسوں بعد بٹالین میں آئے اور ہم میں سے کسی نے بھی اُن کے ساتھ نہ تو وقت گزارا تھا‘ نہ ہی ہماری اُن کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم سب کا ان سے رشتہ پاکستان کا تھا اور اُن سے عقیدت وردی اور رجمنٹ کی وجہ سے تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ اور پیش آیا جب چند برسوں کے بعد بنگلا دیش سے ایک جنرل صاحب پاکستان آئے۔ اُنہوں نے بھی ہماری بٹالین میں کمیشن حاصل کیا تھا اور پاکستان آنے پر اُنہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بٹالین آنا چاہتے ہیں۔ ہماری بٹالین اُس وقت اندرون سندھ فرائض انجام دے رہی تھی۔ میں کراچی میں تعینات تھا‘ اس لیے مجھے کہا گیا کہ ان کا کراچی میں استقبال کروں اور کراچی میں قیام کے دوران ان کا خیال رکھوں۔ جب میں ان کا استقبال کرنے کراچی ائیر پورٹ پہنچا تو میرے علاوہ ان کا استقبال کرنے کے لیے کراچی میں مقیم ان کے کچھ عزیز بھی موجود تھے۔ جنرل صاحب جب لاؤنج سے باہر نکلے تو انہوں نے آتے ہی پوچھا: میری بٹالین سے ایک آفیسر نے میرا استقبال کرنا تھا‘ وہ کہاں ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلیوٹ کیا اور بتایا کہ میں وہ آفیسر ہوں جو آپ کی بٹالین سے آیا ہوں۔ جنرل صاحب نے فرطِ جذبات سے مجھے گلے لگایا اور پھر میرا ہاتھ تھامے وہاں موجود ہر ایک کو بتانا شروع کردیا کہ یہ آفیسر میری رجمنٹ سے مجھے لینے آیا ہے۔ پھر اگلے دو دن انہوں نے بٹالین میں گزارے‘ چند مہینوں کے قصے انتہائی محبت سے سنائے اور بار بار سنائے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرا اور ان کا رشتہ ان کے لیے ابھی تک اہم ہے۔
گزشتہ آٹھ برسوں سے ہم 134شہید بچوں کے سوگ میں ہیں‘ جن کو پشاور میں اُن کے سکول کی چار دیواری میں بے در دی کے ساتھ شہید کردیا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہاہے۔ 16دسمبر 2014ء کا سورج سقوطِ ڈھاکہ کے دکھ کے ساتھ طلوع ہوا لیکن غروب اے پی ایس کے 134بچوں کی شہادتوں کے دکھ کے ساتھ ہوا۔ 16دسمبر 2014ء کی صبح کا سورج خوں چکاں تھا اور شام کا سورج خوں آلود! عجب سماں تھا کہ ہر روح دلگیر‘ ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل افسردہ تھا۔ اے پی ایس کے بچے جو اپنی ماؤں سے گلے لگ کے گھروں سے علم کی تلاش میں نکلے‘ واپس نہ آئے اورمائیں اپنے جگر گوشوں کے انتظار میں آج بھی بانہیں پھیلائے کھڑی ہیں۔ اِن 134مظلوم بچوں نے وہ خراج پیش کیا جو اُن کے ذمے نہیں تھا۔ پھول جیسے بچے اپنے پیاروں کے لیے غم کی ایک طویل رات چھوڑ گئے۔ واقعے کو گزرے آٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن جب بھی دسمبر آتا ہے تو زخم تازہ ہو جاتے ہیں اور شہید ہونے والے بچوں کے والدین اور لواحقین بالخصوص اور پاکستانی قوم بالعموم ہر سال دسمبر کے کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آٹھ برس ہوتے ہیں کہ آج تک والدین اپنے بچوں کا انتظار کر رہے ہیں اور قوم اُن کے ساتھ مغموم کھڑی ہے۔
16دسمبر 1971ء اور 16دسمبر 2014ء میں جدائی اور الم کی مماثلت ہے۔ یہ دو سانحے ہماری تاریخ کی ایسی حقیقتوں میں ڈھل چکے ہیں کہ کئی دہائیوں تک ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ان دو سانحات کی وجہ سے ہم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ کوئی دلیل متاثر نہیں کرتی اور کوئی تاویل کام نہیں آ رہی۔ کیا ہم نے 16دسمبر 1971ء کے المناک اور 16دسمبر 2014ء کے خوں آلود سانحے سے کچھ سیکھا ہے۔ اگر ہم دل پر ہاتھ رکھیں گے تو اس کا جواب ایک چیختا چلاتا 'نہیں‘ ہوگا۔ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ 16دسمبر 1971ء اور 16دسمبر 2014ء کے درمیان چار دہائیوں سے زائد وقت تھا۔ عقل والوں کے لیے نشانیاں تھیں۔ فکر والوں کے لیے سوچ بچار اور تفکر کے اہم نکات تھے۔ اخلاص والوں کے لیے کرنے کا بہت کام تھا۔ 16دسمبر 1971ء اور 16دسمبر 2014ء کے درمیان کا وقت قدرت کی جانب سے دی گئی رعایتی مدت تھی اور سنبھل جانے کے لیے تنبیہ تھی۔ اب 16دسمبر 2014 ء کے بعد پھر انتباہ ہے‘ رعایتی مدت ہے اور آٹھ سال گزر چکے ہیں۔کیاکوئی عقل والا ہے جو نشانیاں دیکھ سکے؟ کوئی فکروتدبر والا ہے جو سوچ بچار کر سکے؟ کوئی اخلاص والا ہے جو اس قوم کو درست سمت لے جانے کی ٹھان سکے؟ کیونکہ تاریخ کا بڑا سبق یہ ہے کہ قدرت کی مشیت نکھٹو‘ سست رو اور احمقوں کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالتی۔ قدرت کی مشیت فکر‘ تدبر‘ اخلاص اور عمل کی راہ پر ریاضت کرنے والوں کی معاون ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں