ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

آج یکم مئی ہے؛ آج یومِ مزدور منایا جائے گا اور ملک کے طول و عرض میں پھیلی محنت کشوں اور مزدوروں کے استحصال کی کہانیوں کی بازگشت سنائی دے گی۔ یکم مئی کو دنیا بھر کے محنت کش اپنے ماضی اور حال کے آئینے میں اپنے مستقبل کے حوالے سے متفکر نظر آتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والا مزدورصدیوں سے چوراہوں پر بیٹھا آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے ہے اور امید کی یہ چمک اِس بات کی غماز ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں ہارا نہیں۔ پیٹ کی بھوک کے انتظام سے لے کر آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے خواب تک‘ سبھی کچھ مزدور کی آنکھوں میں جھلملاتا رہتا ہے۔ محنت کش خواب بھی دیکھتے ہیں اور تعبیروں کا تعاقب بھی کرتے ہیں لیکن صدیوں سے خوابوں کے سفر میں رہنے والے مزدوروں کا کوئی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ مزدور کی کہانی سماج کی مسلسل تنزلی کی کرب ناک کہانی ہے۔ مزدور کی کہانی معاشرے میں رائج معاشرتی تفریق اور اونچ نیچ کی کہانی ہے۔ یہ کہانی معاش کے حصول اور زیادہ سے زیادہ سرمائے کی ہوس کے مابین مقابلے کی کہانی ہے۔ مزدور کی کہانی صدیوں سے جاری محرومیوں کی کہانی ہے۔ یہ کہانی مشقت کے استحصال کی بنیادوں پر لکھی جانے والی کہانی ہے جو ایک محنت کش اِنسان کے گرد گھومتی ہے‘ جسے ہم مزدور کہتے ہیں اور صدیوں سے مزدور اِسی گورکھ دھندے سے نبرد آزما ہے۔
یومِ مزدور دنیا بھر میں مزدوروں اور محنت کشوں کی اپنے حقوقِ کے لیے چلائے جانے والی تحریک کا مظہر ہے۔ ابتدا میں یومِ مزدور ستمبر میں منایا جاتا تھا اور اِس دِن کو محنت کشوں اور مزدوروں کی جدوجہد اور کامیابیوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ مزدور تحریک کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے آخر ہوا تھا اور اِس نے امریکہ میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کیا۔ تحریک کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مزدوروں اور محنت کشوں کے کام کا دورانیہ بہت طویل تھا جبکہ اس کے مقابلے میں اُن کے حقوق نہ ہو نے کے برابر تھے اور ان کے سماجی اور معاشی تحفظ کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ پہلا یومِ مزدور 15 اپریل 1872ء کو ٹورنٹو میں منایا گیا جس کا انتظام ٹورنٹو ٹریڈرز اسمبلی نے کیا اور اس تقریب کا مقصد مزدورں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا تھا۔ امریکہ میں سب سے پہلے لیبر ڈے پریڈ نیویارک میں 5 ستمبر 1882ء کو منعقد ہوئی اور اِس کا اہتمام سینٹرل لیبر یونین آف نیویارک نے کیا۔ اس پریڈ میں دس ہزار سے زائد مزدوروں اور محنت کشوں نے سٹی ہال سے یونین سکوائر تک مارچ کیا۔ پھر رفتہ رفتہ مزدوروں کی آواز دنیا بھر میں سنائی دی جانے لگی اور یومِ مزدور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی منایا جانے لگا۔ یکم مئی ایک اہم دن ہے جسے اب عالمی اور ملکی سطح پر مزدوروں اور محنت کشوں کی عظیم جدوجہد کے دِن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے کہ جب 1886ء میں امریکی شہر شکاگو میں مزدوروں نے 18 گھنٹے کی طویل شفٹ کے خلاف احتجاج کیا، پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار مزدور ہلاک ہو گئے۔ دو دن بعد مزدوروں نے دوبارہ احتجاج کیا تو یہ احتجاج پُرتشدد ہنگاموں میں بدل گیا اور ایک پولیس والا بھی ہلاک ہو گیا، جس کے قتل کے الزام میں اس وقت کے مزدور رہنمائوں کو پھانسی دیدی گئی۔ مگر انہوں نے جس شمع کو روشن کیا تھا‘ وہ جلتی رہی اور بالآخر مزدوروں کی شفٹ کو آٹھ گھنٹے کرنے کے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا۔ 1890ء میں یوم مئی کو ''انٹرنیشنل ورکرز ہالیڈے‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس نے باقاعدہ طور پر یکم مئی کو انٹرنیشنل ورکرز ڈے منایا اور دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یوں بہت سے دیگر ممالک میں بھی یوم مزدور یکم مئی کو منایا جانے لگا۔ اب ہر سال یکم مئی کو یہ عہدکیا جاتا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کی جاتی رہے گی۔
اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے ضمن میں بہت کام ہوا ہے لیکن آج بھی دنیا بھر میں محنت کشوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ مزدور کے اوقات دنیا بھر میں آج بھی بہت تلخ ہیں اور دنیا بھر کے محنت کش بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں کام کے تناسب سے کم اجرت، نامساعد حالات، عدم تحفظ، صحت اور انصاف جیسے مسائل کی وجہ سے محنت کشوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کم اجرت کی وجہ سے مزدور مسلسل مالی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان پر انحصار کرنے والے لوگ ایک تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بہت سے محنت کشوں کو ایسے حالات میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو مسلسل خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ایسی صورت میں ترقی پذیر ممالک میں مزدوروں کو صحت اور لائف انشورنس جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ اکثر ممالک میں نوکری یا کام کے تحفظ اور تسلسل کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر مزدور اور محنت کش آجر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے پاس کُلی اختیار ہوتا ہے کہ وہ مزدور کو کام یا ملازمت پر رکھیں یا اس کو بغیر کوئی وجہ بتائے کسی بھی وقت نوکری یا ملازمت سے فارغ کر دیں۔
پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح مزدوروں اور محنت کشوں کے حالات ابتر ہیں اور اِن حالات کے متعدد سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی پہلو ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں 5 کروڑ 70 لاکھ مزدور اور محنت کش ہیں جن میں 71 فیصد مرد اور 29 فیصد عورتیں ہیں۔ زیادہ تعداد میں مزدور زراعت، تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح بھی چھ فیصد سے زائد ہے جو محنت کشوں کے لیے بالکل بھی اچھی خبر نہیں۔ ہمارے یہاں مزدور کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مزدور کی یومیہ یا ماہانہ اجرت انتہائی کم ہے۔ بہت سے مزدوروں کو طے شدہ اجرت سے بھی کم دی جاتی ہے اور بہت سے محنت کشوں کو مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور انہیں اضافی کام پر کوئی اضافی اجرت بھی نہیں دی جاتی۔ محنت کش نامساعد حالات اور غیر صحت مندانہ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں چائلڈ لیبر بھی پاکستان کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ جس عمر میں بچوں کو سکولوں میں جانا چاہیے‘ عمر کے اُس حصے میں بچے محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہوتے ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ بچے چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جو کسی طور اچھا رجحان نہیں ہے۔
محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں ریاست، سول سوسائٹی اور خود مزدوروں کا کلیدی کردار ہے۔ ریاست شہریوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ دار ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مزدوروں کی فلاح کے لیے بنائے گئے قوانین‘ مثلاً مزدوروں کے عمومی حقوق کا تحفظ، مناسب اجرت، حفاظتی ضابطہ کار اور کام کرنے کے اوقات‘ پر عمل درآمد کرائے۔ علاوہ ازیں ریاست مزدور کے سماجی تحفظ کی بھی ضامن ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی بھی مزدور اور محنت کش کی فلاح میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ محنت کشوں کے حقوق سے متعلق لوگوں کو آگاہ کر سکتی ہے اور حکومت کی توجہ کم اجرت اور کام کے غیر محفوظ ماحول کی جانب مبذول کرا سکتی ہے۔ مضبوط سول سوسائٹی حکومت اور آجر‘ دونوں کے لیے ایک پریشر گروپ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ سوسائٹی اور حکومت کے علاوہ مزدور اور محنت کش خود بھی اپنی اور اپنی کمیونٹی کی فلاح کے لیے کام کر سکتے ہیں کیونکہ مزدور سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ کیا کیا اقدامات اجتماعی طور پر مزدوروں کے مفاد میں ہیں۔ محنت کش مختلف مزدور تنظیموں کے توسط سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ یومِ مزدور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عہد کریں کہ ہم ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے مزدوروں اور محنت کشوں کی عزت و تکریم کریں گے اور ان کے شانہ بشانہ اُن کے حقوق کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں