"DVP" (space) message & send to 7575

ووٹ اور علاج: دو خوبصورت اقدامات

بھارت کی دو خبریں ایسی ہیں جو صرف بھارت کے عوام ہی نہیں بلکہ تمام پڑوسی اور علاقائی ممالک کے لیے بھی فائدہ مند اور متاثر کن ہیں۔ پہلی خبر تویہ ہے کہ بھارت کے الیکشن کمیشن نے ایک ایسی مشین بنائی ہے جس کے ذریعے لوگ کہیں بھی ہوں‘ وہ اپناووٹ ڈال سکیں گے۔ ابھی تو ووٹنگ کا جو نظام ہے اس کے مطابق آپ جہاں رہتے ہیں‘ صرف اسی علاقے کے پولنگ سٹیشن میں جا کر اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔ بھارت میں تقریباً 30 کروڑ افراد محض اپنے علاقے یا گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔بھارت کے لوگ کیرالا سے لداخ تک آزادانہ طور پر آتے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی ریاست میں کام و کاروبار کی وجہ سے رہتے بھی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ کوئی ملیالی آدمی صرف ووٹ ڈالنے کے لیے لداخ سے کیرالا کیوں جائے گا؟کوئی ہارے یاجیتے‘ وہ اپنے ہزاروں روپے اور کئی دن سیاسی نیتائوں کے لیے کیوں کھپائے گا؟ اگر پورے بھارت میں یہ نئی سہولت قائم ہو گئی تو بھارت میں ووٹرز کی کُل تعداد 100 کروڑ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ بھارتیہ جمہوریت کی یہ بڑی کامیابی مانی جائے گی۔ کئی ممالک میں تواب ایسا سسٹم بھی آ گیا ہے کہ آپ کو پولنگ سٹیشن تک بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ گھر بیٹھے ہی‘ آن لائن ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ بھارت میں بھی ایسا نظام شروع ہونے میں دیر نہیں لگنے والی۔بھارتیہ الیکشن کمیشن کو اس نئے نظام کو نافذ کرنے سے پہلے آل پارٹیز رضامندی اور عوامی حمایت بھی اکٹھی کرنا ہوگی۔ اس منصوبے سے سبھی سیاسی جماعتوں کا فائدہ ہو گا لہٰذا اس کا استقبال تو سبھی جماعتیں کریں گی۔ دوسری بات جو شاندار ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ہریانہ کے منوہر لال کھٹر سرکار کا یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ جن خاندانوں کی آمدنی 15 ہزار روپے سے کم ہے‘ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی مفت علاج کرا سکیں گے۔آج کل بھارت کے پرائیویٹ ہسپتال ٹھگی کے بڑے ذرائع بن گئے ہیں۔ غریبوں تو کیا‘ وہاں امیروں کے بھی چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ وہاں لوٹ پاٹ اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی مریض بن جاتے ہیں۔ہریانہ سرکار کے تازہ حکم کے مطابق اب ان پرائیویٹ ہسپتالوں کو غریبوں کا 5 لاکھ روپے تک کا علاج بالکل مفت کرنا ہوگا اور اگر بالفرض کسی مرض میں علاج کا خرچ 10 لاکھ روپے تک آئے گا تو اس کا صرف 10 فیصد ہی ہسپتال مریض سے لے سکیں گے۔ایسے مریضوں کے لیے انہیں ہسپتالوں کے 20فیصد بیڈز بھی ریزرو کرکے رکھنا ہوں گے۔ ہر غریب مریض کو ان ہسپتالوں کو بھرتی کرنا ہی پڑے گا۔ وہ اس کے علاج سے منع نہیں کر سکتے۔اگر منع کریں گے تو ان ہسپتالوں کو مفت میں دی گئی سرکاری زمین اور مراعات واپس لے لی جائیں گی۔یہ اصول تو اچھا ہے، قابلِ تعریف بھی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں تک نافذالعمل ہوتا ہے۔ میری رائے میں تو میڈیکل اور تعلیم یا یوں کہیں کہ علاج اور انصاف ہر شہری کو مفت ملنا چاہئے۔ اس وقت بھارت کی راجیہ سبھا میں بھی ایک بل علاج کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا ہے، اسے متفقہ طور پر پاس کر کے لوک سبھا (اپر ہائوس)کو بھیجا جانا چاہئے۔ اس بل میں شاید یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ غیر سرکاری ہسپتالوں میں سرجری اور کمروں کی فیسوں میں مچ رہی لوٹ پاٹ کو روکا جائے اور پرائیوٹ ہسپتالوں کو پانچ نہیں‘ سات ستارہ ہوٹل بننے سے روکا جائے۔ بھارت کے پرائیوٹ ہسپتالوں کی موٹی فیس اور سرکاری ہسپتالوں کی لاپروائی ان میں بھرتی ہوئے کئی مریضوں کو پہلے سے بھی زیادہ بیمار کردیتی ہے۔ جس دوا کی قیمت دو‘ تین روپے ہے، وہ کئی سو روپوں میں بکتی ہے اورجو ٹیسٹ سو‘ پچاس روپے میں ہوسکتا ہے، اس کے لیے ہزار روپے ٹھگ لیے جاتے ہیں۔ بھارت کی تمام ریاستی سرکاروں کے لیے ہریانہ سرکار کی یہ پہل مثالی ہے۔ ویسے اس ضمن میں بھارت کی مرکزی سرکار نے بھی کچھ اچھی پہل کی ہے لیکن ملک میں تعلیم اور ادویات قابلِ رسائی ہوں‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں سہولتیں تقریباً مفت ہوں۔
مودی کی والدہ کو شردھانجلی
بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کی والدہ ہیرا بین مودی کے انتقال پر کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کانگرس سے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے ابھی تک کوئی ایک لفظ تک نہیں کہا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کہا ہو اور اخباروں نے اسے نہ چھاپا ہو۔ لیکن ذرا ہم سوچیں کہ بھارتیہ سیاست میں باہمی تلخی کس سطح تک اور کتنی نیچے تک پہنچ گئی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ مودی کی ماتا جی ان کے ساتھ نہیں رہتی تھیں اور سیاسی نیتا اسی بات کو لے کر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔چند سال پہلے مودی اپنی ماں سے ملنے گاندھی نگر گئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ یوگا چھوڑ کر اپنی ماں سے ملنے گئے اور ان کے ساتھ ناشتہ کیا۔ اس پر کجریوال نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہوں اور ہر روز ان کا اشیرباد لیتا ہوں لیکن میں شور نہیں کرتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں سیاست کے لیے اپنی ماں کو بینک کی قطار میں نہیں لگاتا۔ کجریوال کے علاوہ بھی کئی نیتا مودی پر اپنی والدہ کو سیاسی فائدہ اور ہمدردی بٹورنے کے لیے استعمال کرنے کے الزام لگاتے رہے ہیں۔ اب ان کے دیہانت کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے لے کر جاپان کے فومیوکشیدا، نیپال کے پراچنڈ، سری لنکا کے پاکسے سمیت متعدد عالمی رہنمائوں نے مودی جی سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اور تو اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی مودی جی سے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے شردھانجلی بھی دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ماں کو کھونے سے بڑا نقصان کوئی نہیں‘ وزیر اعظم نریندر مودی کی والدہ کے انتقال پر میری تعزیت۔ ایک طرف پوری دنیا سے لوگ نریندر مودی سے تعزیت کر رہے ہیں تو وہیں بھارت کئی اپوزیشن نیتا بالکل خاموش ہو کر رہ گئے ہیں۔ کیا بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے نیتا‘ جہاں تک مودی کا سوال ہے‘ کسی پاکستانی وزیراعظم سے بھی زیادہ خفا ہیں؟ بھارت جوڑو یاترا کے دوران دہلی میں راہل گاندھی کا اٹل بہاری جی کی سمادھی پر جانا مجھے اچھا لگا۔ یہ رواداری اور سیاسی آداب کی علامت ہے۔ اندراجی کی موت پر اٹل جی نے بھی جو الفاظ کہے تھے‘ انہیں پُرجوش خراجِ عقیدت ہی کہا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ آپ انتخابات کے دوران، پارلیمنٹ میں، مظاہروں میں اور اپنے بیانوں میں اپنے مخالفین کی ڈٹ کرمخالفت کرتے رہیں لیکن سوگ کے ایسے موقعوں پر آپ انسانیت کا مظاہرہ کریں۔ اس معاملے میں مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بینرجی نے شاندار فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ نریندر مودی کی جتنی سخت مخالفت ممتا بینر جی نے کی ہے اور بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکھڑ کو جتنا انہوں نے ستایا ہے‘ کسی دوسرے بھارتیہ گورنر کواتنا نہیں ستایاگیا ہو گا۔ لیکن مودی کی ماتا جی کے دیہانت پر جو جملے انہوں نے کہے ہیں وہ بہت ہی یادگار ہیں۔ ممتا جی نے کہا ہے کہ ''آپ کی ماتاجی کے انتقال پر آپ کو کس طرح تسلی دی جائے؟ آپ کی ماں تو ہماری بھی ماں ہیں‘‘۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ جب میں ماتا جی کی 100ویں سالگرہ پر ان سے ملا تو انہوں نے ایک بات کہی تھی جو میں ہمیشہ یاد رکھوں گا کہ دانش مندی سے کام لو اور پاکیزہ زندگی گزارو۔ مودی جی نے اپنی ماں کی آخری رسومات کے فوراً بعد ہاوڑہ‘ جلپائی گوڑی وندے بھارت ایکسپریس کا افتتاح کیا۔ وہ چاہتے تو اس پروگرام کو ملتوی بھی کر سکتے تھے لیکن اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کی ماں نے ان کو کتنے اچھے سنسکار دیے ہیں۔ان کا یہ طرز عمل ایک غیر منسلک کرم یوگی کی طرح رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں