"DVP" (space) message & send to 7575

نوٹ بندی: مودی سرکار کو معافی کیوں ملی؟

2016ء کے نومبر میں مودی سرکار نے بھارت میں نوٹ بندی لاگو کی تھی۔ اس کے خلاف جو پٹیشنیں بھارتیہ سپریم کورٹ میں دائر ہوئی تھیں‘ وہ سب رد ہوگئی ہیں کیونکہ پانچ ججوں میں سے چار نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ نوٹ بندی کا اعلان کر نے میں مودی سرکار نے کسی اصول یا قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ بھارتیہ سپریم کورٹ کی خاتون جج بی وی ناگ رتن نے باقی ججوں کے فیصلے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکار کو یا تو نوٹ بندی کا اعلان پارلیمنٹ سے پاس کرانا چاہیے تھا یا اس سے پہلے وہ آرڈیننس بھی جاری کروا سکتی تھی‘ گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے اس فیصلے کا اعلان درست نہیں تھا۔ البتہ جسٹس ناگ رتن نے بھی مودی سرکار کے مقصد اور پالیسی کو درست قرار دیا ہے۔ 8 نومبر 2016ء کو مودی سرکار نے 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا اچانک فیصلہ سنایا تھا اور 50 سے زیادہ عرضیوں کے ذریعے بھارتیہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ 7 دسمبر 2022ء کو عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کیا جو گزشتہ روز سنایا گیا؛ تاہم کسی بھی جج نے اصلی مدعے پر اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ اصلی مدعا کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ کیا نوٹ بندی کرنا ٹھیک تھا؟ اس سے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان؟اس مدعے پر بھارت کی سب سے بڑی عدالت کی خاموشی حیران کن ہے۔ یہی بات کانگریس نے کی ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نوٹ بندی اور اس کے نتائج اور اثرات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا بلکہ اس نے صرف نوٹ بندی کے فیصلے کے عمل پر فیصلہ سنایا ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیرا کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے فیصلے کو منظوری دے دی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے نتائج اور اثرات کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے لاگو کرنے کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔بھاجپا کے نیتا یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد بھارت نے ڈیجیٹل ادائیگیوں اور مالیاتی ٹیکنالوجی کے معاملے میں دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ اکتوبر 2022ء میں 12 لاکھ کروڑ روپے کے 730 کروڑ ڈیجیٹل لین دین ریکارڈ کیے گئے۔ نوٹ بندی کے بعد 2017-18ء میں انکم ٹیکس میں 20 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور 2 لاکھ 38 ہزار جعلی کمپنیاں پکڑی گئیں جبکہ غیر رسمی معیشت کا حصہ 52 فیصد سے گھٹ کر 20 فیصد رہ گیا جبکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس نے نوٹ بندی کو پہلے بھی غلط سمجھا اور اب بھی اسے غلط ہی مانتی ہے۔ نوٹ بندی سے نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ ہی کالے دھن کو روکا گیا۔ اس فیصلے سے چھوٹے تاجر تباہ ہوگئے ہیں اور غیر منظم شعبے کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ نوٹ بندی کا اصل خیال بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کا تھا ہی نہیں۔ یہ خیال پونا کی ارتھ کرانتی نامی تنظیم کے صدر انل بوکیل کا تھا! انہوں نے پچھلے 20 سال سے اس خیال کو تیار کرکے نوٹ بندی کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب بابا رام دیو اور میں پورے بھارت میں کالے دھن کے خلاف مہم چلا رہے تھے تب رانل بوکیل ہم لوگوں سے بھی ملے تھے۔ بھارتی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرنے کی درخواست بوکیل نے مجھ سے ہی کی تھی۔ نریندر مودی سے ان کی ملاقات طے ہوئی اور مودی نے انہیں دس منٹ کا وقت دیا لیکن پھر یہ ملاقات ڈیڑھ‘ دو گھنٹے تک چلتی رہی اور وزیراعظم بننے کے بعد مودی سرکار نے ایک دن اچانک نوٹ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس منصوبے کو انہوں نے بہت ہی خفیہ رکھا۔یہ ضروری بھی تھا کہ اس کی کسی کو بھنک بھی نہ پڑتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نوٹ بندی کی سکیم بری طرح سے پٹ گئی تھی۔ سینکڑوں غریب لوگ لائنوں میں کھڑے رہنے سے مر گئے۔ 1000روپے کے نوٹ ختم کیے لیکن 2000 روپے کے شروع کر دیے۔ نئے نوٹ چھاپنے میں 50 ہزار کروڑ کھپادیے گئے۔ بھارت کی 86 فیصد نقدی پر پابندی لگ گئی۔ نیتاؤں او ر سیٹھوں نے بینکوں سے سازباز کرکے اپنے کالے دھندے کو دھڑلے سے سفید کر لیا اور اس نوٹ بندی میں مارے گئے تو صرف غریب لوگ۔ اگر رانل بوکیل کے منصوبے کی بات کی جائے تو اس کے مطابق سب سے بڑا کرنسی نوٹ صرف 100 روپے کا ہونا چاہئے تھا۔ ہر بینکنگ لین دین پر برائے نام ٹیکس لگانا تھا اور انکم ٹیکس کو پوری طرح سے ختم کرنا تھا۔ ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہیں کی گئی۔ تمام جرأت مندانہ اور قابلِ تعریف منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی اور اب کالے دھن کاذخیرہ بنانا مزید آسان ہو گیا ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ 2019ء کے چناؤ میں نریندر مودی کو عوام نے سزا نہیں دی؟ بھاجپا کی سیٹیں اور ووٹ مزید بڑھ گئے؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے‘ وہ یہ کہ نوٹ بندی کے پیچھے نریندر مودی سرکار کا ارادہ خالص عوامی بہبود کا تھا۔ کوئی کام آپ سے بالکل غلط ہوجائے لیکن اس کے پیچھے اگر آپ کا ارادہ صحیح ہوتو عوام اتنے سمجھدار ہیں کہ وہ آپ کو معاف کر دیتے ہیں۔
جین مت کا مقدس مقام یا سیاحتی مرکز؟
بھارتی ریاست جھارکھنڈ کے گریڈی ضلع میں سمید شکھر نام کا ایک مقام جین مت کی تیرتھ یاترا کے حوالے سے مشہور ہے۔ایک لحاظ سے یہ دنیا کے چھوٹے سے مذہب کا انتہائی اہم اور مقدس مذہبی مقام ہے۔یہ ویسا ہی ہے جیسے ہندوؤں کیلئے ہری دوار کا مقام ہے‘ یہودیوں اور عیسائیوں کیلئے یروشلم ہے یا سکھوں کے لیے امرتسر کا سورن مندر ہے۔سمید شکھر میں جین مت کے 24میں سے20مذہبی گروئوں نے نروان حاصل کیا تھا۔ دنیا میں جین مت کا کوئی پیروکار‘ خواہ وہ کہیں بھی رہتا ہو، اس کی یہ خواہش ضرور رہتی ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار وہ سمید شکھرجی کی یاترا ضرور کر لے۔میرے کچھ جین دوستوں نے بتایا تھا کہ وہ جب سمید شکھرپر جاتے تھے تو منہ پر پٹی لگائے رکھتے تھے یا منہ کھولتے ہی نہیں تھے تاکہ کسی جاندار کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ایسا مذہبی مقام‘ جس کی زیارت کے لیے کروڑوں لوگوں کے دل میں خواہش رہتی ہو‘ اگر اسے سرکار ایک مقدس مذہبی مقام کے بجائے سیاحتی مرکز کا درجہ دیدے تو کیا ہوگا؟سرکار نے ابھی ابھی اُس مقام کو ایک تفریحی اور سیاحتی مرکز کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی اب لوگ وہاں پوجا‘ارچنا کرنے نہیں، موج مستی کرنے کے لیے جایا کریں گے۔وہ وہاں شراب پئیں گے، پارٹی کریں گے اور بہت سے غیر اخلاقی کام بھی وہاں ہونے لگیں گے۔ اُس مقام کی تاریخ اور اس کا تقدس اب تاریخ کا موضوع بن جائے گا۔سارے بھارت کا جین سماج اس خدشے سے پریشان ہے۔دہلی، ممبئی اور کئی دیگر شہروں اور گاؤں میں جین کمیونٹی سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ جین مت کے پیروکار سمید شکھر کو سیاحتی مرکز بنانے کے اعلان کو مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے۔مسلم نیتا اسدالدین اویسی نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔وہ کیوں نہیں کریں گے؟دنیا کے تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہبی مقامات کے تقدس کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ کیا سکھوں کے مقدس مقامات پر جا کر کوئی شراب پی سکتا ہے یا ہندوئوں کے مقدس مقامات پر گوشت کھا سکتا ہے؟کیا کسی ہندو مندر کے پاس بیٹھ کر کوئی گائے کا گوشت فروخت کر سکتا ہے۔ہر مذہبی مقام کا تقدس دوسرے افراد کے لیے بھی لازم ہے مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ سمید شکھر جیسے خوبصورت پہاڑی مقامات پر سیاحوں کے جانے پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ جین مت کے پیروکاروں کے علاوہ بھی سیاح وہاں ضرور جائیں لیکن ان کی سرگرمیاں کنٹرول میں ہوں، وہاں کچھ ایسا نہ کیا جائے جس سے جین مت کے لوگوں کی توجہ بھنگ ہو۔سرکار چاہے تو اُسے دنیا کا چہیتا سیاحتی مرکز بنوا دے لیکن وہاں جین مت کے اصولوں اور مذہبی اقدار کی خلاف ورزی نہ ہو‘ یہ بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں