کانگرس پارٹی کے مرکزی رہنما راہل گاندھی کی ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ کنیاکماری سے سری نگر تک کی یہ یاترا شنکرآچاریہ کے علاوہ بھارت میں اب تک راہل گاندھی کے سوائے شاید کسی اورنے کبھی نہیں کی۔ سات ستمبر کو جنوبی بھارت سے شروع ہونے والی کانگریس رہنما کی یاترا 30 جنوری کو 136 روز بعد‘ 14 ریاستوں سے گزرتی ہوئی 4000 کلومیٹر کا سفر طے کر کے سرینگر میں ختم ہوئی۔ یہ یاترا ان معنوں میں تا ریخی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کہاں سے ٹوٹ رہا ہے، جسے جوڑنے کے لیے راہل نے یہ پہل کی ہے؟ اس یاترا کا نام اگر ''کانگرس جوڑو‘‘ ہوتا تو کہیں بہتر ہوتا۔ کانگرس ٹوٹ ہی نہیں رہی ہے بلکہ مرتی جا رہی ہے۔ بھارت کی اپوزیشن بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ راہل گاندھی نے سری نگر میں جا کر کہا کہ اس یاترا نے بھارت کے عوام کے سامنے حکمرانی کا متبادل نقشہ پیش کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو چمتکار ہو جاتا۔ وہ تو بغیر یاترا کیے ہوئے بھی پیش کیا جا سکتا تھا۔ یاترا کے دوران راہل نے کئی ایسے بیان دے ڈالے‘ جو کانگرس کی ہی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ جیسے آزادی پسند رہنما ساورکر کی مذمت، ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت، جموں اور لداخ کی زمین پر چین کا قبضہ وغیرہ۔ اس میں راہل کا میں کوئی قصور نہیں مانتا ہوں۔یہ قصور ہے راہل کے آس پاس موجود لوگوں کا، جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں، یہ قصور خوشامد کرنے والوں کا ہے۔ وہ لکڑی کے گڈے میں جیسی اور جتنی چابی بھردیتے ہیں‘ وہ بھولا بھنڈاری ویسا ہی ناچ دکھادیتا ہے۔ راہل گاندھی کو ایک مول منتر کسی نے پکڑا دیا‘ وہ ہے ''نفرت کے بازار میں‘ میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں‘‘۔ سارے ملک میں محبت کی دکان کھولنے سے بہتر ہوتا کہ وہ اپنے لیے ہی محبت کی کوئی دکان کھول لیتے، اپنا گھر بسا لیتے۔ راہل اپنی بہن پرینکا سے ہی کچھ سبق حاصل کر لیتے۔ جو خود کیلئے اب تک محبت کی دکان نہیں کھول سکا‘ وہ بھارت کے لوگوں کیلئے محبت کی دکان کیسے کھولے گا؟ راہل خوبصورت ہیں، تندرست ہیں،خوشحال اور جانے مانے گھر کے نوجوان ہیں۔ وہ سادھوؤں اور ملنگوں کا بھیس بناکر کیوں گھوم رہے ہیں؟ کیا وہ مودی کی نقل کر رہے ہیں؟ وہ گاندھی کی نقل کرتے تو کہیں بہتر ہوتا! پھر انہیں فیروز گاندھی کا پوتا نہیں‘ مہاتما گاندھی کا جانشین مانا جاتا۔ گاندھی خاندان کے نام کو وہ معنی خیز بنا دیتے۔ ان کی دادی اندرا جی اگر اپنے نام کے آگے گاندھی نام نہ لگاتیں تو بھی ان کا نام اور قد کاٹھ کافی بڑا ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس یاترا میں لاکھوں لوگوں نے راہل گاندھی کے ساتھ شرکت کی اور اس میں متعدد معروف شخصیات نے بھی حصہ لیا لیکن یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ کیا یہ مقبولیت ووٹوں میں بھی تبدیل ہو سکے گی؟ اس یاترا کے دوران جگہ جگہ اپنی تقریروں میں اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بے روزگاری، مہنگائی اور بھارتی علاقوں پہ چین کے قبضے کے موضوعات پر بات کی لیکن کانگرس اپنا کوئی پلان نہیں دے سکی۔ راہل گاندھی شاید مودی سرکار پر تنقید کر کے اپنا قد بڑھانا چاہتے ہیں، انہیں یہ بتانا چاہیے کہ اتنے برسوں تک کانگرس جو بھارت کی حکمران رہی ہے‘ اس کے دور میں بھارت میں کیا بہتری آئی؟ اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑا؟ اس بھارت جوڑو یاترا کا فائدہ کانگرس کو کتنا ملے گا اس پر کانگرس کے کئی نیتاؤں کو بڑا شک ہے۔ اگر راہل گاندھی اگلے سال کے انتخابات کے لیے یہ یاترا کر رہے تھے‘ تب بھی انہیں کچھ ملے گا، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ راہل گاندھی عوام میں مقبول لیڈر ہیں۔ رائے عامہ کے ایک حالیہ پول کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں میں سے فقط نو فیصد نے کہا کہ وہ راہل گاندھی کو نئے وزیراعظم کے عہدے کے لیے ترجیح دیں گے۔ اس کے مقابلے میں مودی کو پھر سے وزیراعظم دیکھنے کے خواہشمند افراد کا تناسب دگنے سے بھی زیادہ تھا۔ البتہ راہل گاندھی کو اس یاترا کا زبردست فائدہ مل رہا ہے۔ بھارت کا ہر نیتا اپنی مشہوری کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ اپنی ایڈورٹائزنگ اور تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرڈالتے ہیں لیکن راہل کوایک کوڑی بھی خرچ نہیں کرنی پڑ رہی ہے۔ ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں پچھلے ساڑھے چار مہینوں سے راہل اور مودی تقریباً برابر برابر دکھائی پڑرہے ہیں۔ راہل کو اس یاترا سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ساڑھے چار مہینوں میں ان کا عوام سے سیدھا اور براہِ راست رابطہ ہوا ہے جو 45 سال کے راج محلوں کے رابطے سے زیادہ قیمتی ہے۔
ہندوستان میں سب ''ہندو‘‘ ہیں
کیرالا کے گورنر عارف محمد خان نے تاریخ کا ایک بہت ہی اہم صفحہ پلٹ کر سارے بھارت کو دکھایا ہے۔ انہوں نے ''کیرل ہندو آف نارتھ امریکہ‘‘ نامی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشہور مسلم نیتا اور بڑے مفکر سر سید احمد خان نے اب سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے آریہ سماج کی ایک بیٹھک میں یہ بات دوٹوک انداز میں کہی تھی کہ انہیں اپنے آپ کو ہندو کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے۔ انہوں نے سبھی سامعین سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو مجھے ہندو ہی کہیں، کیونکہ جو آدمی ہندوستان میں پیدا ہوا ہے، جو شخص یہاں کا اناج کھاتا ہے اور یہاں کی ندیوں کا پانی پیتا ہے وہ ہندو نہیں ہے تو کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہندو لفظ کا مذہبی مطلب نکالنا غلط ہے۔ ہندو لفظ توخالصتاً جغرافیائی اصطلاح ہے۔ ہندو لفظ کی تشریح کرتے ہوئے یہی بات میں نے اپنے مقالے ''بھاجپا ، ہندوتوا اور مسلمان‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ''ہندو‘‘ یا ''ہندوتوا‘‘ لفظ بھارت کے کسی بھی دھرم گرنتھ میں نہیں ہے۔میں نے وید، اپنشد، درشن گرنتھ اور پران گرنتھ بھی پڑھ رکھے ہیں۔ ان سبھی گرنتھوں میں یہاں تک کہ رامائن اور مہابھارت میں بھی ''ہندو‘‘ لفظ کہیں نہیں آیاہے۔ ہندوستان کے باشندوں کے لیے اکثر آریہ لفظ کا ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اصل میں ہندو لفظ کااستعمال عرب اور فارس کے مسلمانوں نے پہلی بار کیا ہے۔ اگر ہندو لفظ کے استعمال کی تلاش ہم کھوجنے لگیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ یہ لفظ مسلمانوں کا عطا کردہ ہی ہے؛ البتہ اس کا دینِ اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مذہبی نہیں بلکہ ایک جغرافیائی لفظ ہے۔ ''ہندو‘‘ لفظ سندھو سے بنا ہے۔ فارسی زبان میں 'س‘ کا تلفظ 'ہ‘ ہوتاہے۔ سندھو کو فارسی زبان میں ' ہند و‘ کہتے تھے۔ سندھو ندی (دریائے سندھ) کے اس پار جولوگ رہتے تھے‘ انہیں ہندو کہاجاتا تھا۔ یہ ہندو لفظ چین میں ''اندو‘‘ بولا جاتا ہے۔ میں جب چین کے گاؤں وغیرہ میں جاتا تھا تو چینی لوگ چینی زبان میں کہتے تھے کہ ''میں اندو ہوں‘‘ کیونکہ میں ''اند‘‘ سے آیا ہوں۔ ایک بار میرے ساتھ شنگھائی میں کچھ ممبئی کے مسلمان دوست بھی بازار میں گھوم رہے تھے۔ انہیں بھی چینی لوگ ''اندو رین‘‘ یعنی ہندو آدمی بول رہے تھے۔ دوسرے الفاظ میں ہر ہندوستانی ہندو ہی ہے۔ اسے مختلف ملکوں میں الگ الگ تلفظ سے جانا جاتا ہے۔ اسے ''ہندی‘‘، ''ہندوی‘‘، ''ہوندو‘‘، ''ہندو‘‘، ''اندو‘‘، ''اندیز‘‘، یا ''انڈین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ میری اس ہندو لفظ کی تشریح کو کیرالا کے گورنر عارف خان نے سرسید احمد خان کی مہر لگا کر اور زیادہ مصدقہ بنادیا ہے۔ خود عارف بھائی بڑے عالم ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ 'راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کے مکھیا موہن بھاگوت نے پچھلے دنوں کئی بار اس قول کو دہرایا ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ اس لیے بھارت کے مسلمان محمدی ہندو ہیں اور یہاں کے عیسائی مسیحی ہندو ہیں۔ یہی بھاؤ بھارت کی ایکتا کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ میں بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس لیے دنیا کا بہترین مسلمان اور بہترین عیسائی کہتا ہوں کیونکہ ان کی رگ رگ میں ہزاروں سالوں سے ہندوستانی اور مشرقی سنسکار کا دریا بہتا ہے۔