"DVP" (space) message & send to 7575

کیا اڈانی سکینڈل بنے گا بوفورس؟

معروف بھارتی صنعت کار گوتم اڈانی کو لے کر بھارتیہ پارلیمنٹ کا اجلاس تقریباً ٹھپ ہورہا ہے۔ اپوزیشن کے لیڈر سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بوفورس کی طرح ایک بڑا ایشو ہاتھ لگ گیا ہے۔گزشتہ آٹھ‘ نو سالوں میں مودی کو ہرانے کے لیے بھارتی اپوزیشن کے لیڈروں نے کئی حربے اپنائے لیکن مودی کی شہرت بڑھتی ہی چلی گئی۔ اب اڈانی کے کاروبار پر آئی ہنڈن برگ کی رپورٹ نے انہیں اتنا پُرجوش کر دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا کام کاج ٹھپ کرنے پر بضد ہوگئے ہیں۔ راہل گاندھی کی 'بھارت جوڑو یاترا‘ اور مودی پر بنی بی بی سی کی فلم نے جتنا ہنگامہ برپا کیا‘ اس سے کہیں زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے۔ اب پارلیمنٹ کے باہر بھی دھرنوں، مظاہروں، پریس کانفرنسوں کاسلسلہ شروع ہونے والا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ کیا مودی کا بوفورس بن سکے گا؟ آج کی جوان پیڑی کو بتاتا چلوں کہ 80ء کی دہائی میں راجیو گاندھی کی حکومت نے بھارتیہ فوج کے لیے 30 کلومیٹر مار کی 410 توپوں کے ٹینڈر جاری کیے تھے۔ اس وقت کے بھارتیہ آرمی چیف کی مخالفت کے باوجود ان توپوں کے ٹینڈر سویڈن کی ایک اسلحہ ساز کمپنی بوفورس کے نام منظور ہو گئے تھے حالانکہ اس کمپنی کو ٹینڈر کی دوڑ میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا تھا۔ آرمی چیف کی بات وزن رکھتی تھی‘ جنرل کرشنا سوامی سندر جی فرانسیسی کمپنی سوفما (Sofma) کی توپوں کے حق میں تھے کیونکہ اس کی مار بوفورس توپوں کے مقابلے میں 8 کلو میٹر زیادہ تھی، لیکن حکومت کے سویڈن کی کمپنی کو ٹینڈر دینے سے بات ختم ہو گئی اور بوفورس توپیں بھارتی فوج کا حصہ بن گئیں۔ اس سودے کے کچھ عرصہ بعد‘ جب بھارت میں ابھی راجیو گاندھی کی ہی حکومت تھی‘ سویڈن کے ایک مقامی ریڈیو سٹیشن سے ایک رپورٹ نشر ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بوفورس کمپنی نے بھارت سے توپوں کا آرڈر لینے کے لیے رشوت دی تھی۔ اس وقت وی پی سنگھ راجیو حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ وہ اس پر ایکشن لینا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ان کوتبدیل کر کے دفاع کی وزارت سونپ دی، اس کے باوجود انہوں نے اپنی ہی حکومت کے بوفورس سکینڈل کو بے نقاب کر دیا۔ اس کی پاداش میں ان کی وزارت سے چھٹی کرا دی گئی۔ بعد میں انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے کر اپوزیشن کی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ لوک دَل، انڈین نیشنل کانگریس (سوشلسٹ)، جَن مورچہ وغیرہ نے وی پی سنگھ کی سرکردگی میں نیشنل فرنٹ بنایا اور 1989ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ راجیو گاندھی کی شکست کا سبب یہی رسوائے زمانہ بوفورس سکینڈل بنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گوتم اڈانی اور نریندر مودی دونوں گجراتی ہیں، دونوں ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہیں اور دونوں کے درمیان راست رابطہ بھی ہے۔اڈانی کی کمپنیوں کو ہندوستان کے سرکاری بینکوں نے جو قرض دیا ہے‘ اس کے پیچھے ان تعلقات کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے، لیکن کیا مخالف پارٹیاں ثبوت دے کر یہ ثابت کر سکیں گی کہ اربوں‘کھربوں روپے کے بڑے قرض اڈانی کو مودی حکومت کے اشارے پر دیے گئے ہیں؟ اگر بھارت کی اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے کچھ ٹھوس ثبوت اکٹھے کرسکیں تو مودی سرکار بڑی مشکل میں پھنس جائے گی۔ لاکھوں لوگوں کو شیئر بازار میں جو اربوں‘ کھربوں کا نقصان ہورہا ہے، کیا وہ لوگ خاموش بیٹھیں گے؟ ابھی سے انہوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے۔ ان میں سے کچھ بیباک لوگ جم کر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے اور حکومت مخالف اتحاد میں شامل ہوجائیں گے۔ تعجب کی بات نہیں کہ بعض افسران بھی مجبوراً ان انکشافات سے متاثر ہو کر حکومت مخالف ہوجائیں اور وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ابھی تو بھارت کے ریزرو بینک اور سرکاری ریگولیٹری اداروں نے اڈانی گروپ کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اڈانی کے شیئرز کی قیمت ہر روز گر رہی ہے۔ اب حکومت اپنی چمڑی بچانے کے لیے اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات شروع کردے گی، اسے اپنے آپ کو بچانے کا ایک بہانہ مل جائے گا۔ بیرونی ممالک میں بھی اس گروپ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مودی اور بھارت کے امیج پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ کاروباری ویب سائٹ فارچون کے تخمینے کے مطابق اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے پاس اب صرف 99 ارب ڈالر کا مارکیٹ سرمایہ ہے، جو ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ سے پہلے 217 ارب ڈالر تھا۔ اڈانی گروپ کو 10 دنوں میں 118 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے اور یہ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ یہ انہیں نہیں‘ بھارت اور مودی کو ٹارگٹ کرنے کی سازش ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہنڈن برگ رپورٹ کے پیچھے مودی مخالف طاقتیں بھی سرگرم ہوں لیکن مودی حکومت اگر اپنی صفائی کا ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرسکی تو کوئی تعجب نہیں کہ یہ ہنڈن برگ رپورٹ بوفورس جیسی ہڈی بن کر مودی سرکار کے گلے میں پھنس جائے۔
آسارام کی سزا بہت کم ہے
آسارام پچھلے دس سالوں سے پہلے ہی جیل میں بندہے‘ اب اسے عمر قید کی سزا ہو گئی ہے۔ 81سال کا آسارام پتا نہیں ابھی کتنے سال اورزندہ رہے گا؟ نابالغ بچی کے ساتھ ریپ سمیت کئی عورتوں کی زندگی اس نے خراب کی۔ اس حساب سے اسے کافی لمبی عمر مل گئی ہے۔ سادھو‘سنت اور پیروں‘ فقیروں کا بھیس رچا کر جو لوگ بھگتوں کو بے وقوف بناتے ہیں وہ اتنے اونچے کلاکارہوتے ہیں کہ انہیں جیل میں بھی ساری سہولتیں مل جاتی ہیں۔ شاید ان کی روزمرہ کی زندگی جیل میں کہیں بہتر ہوتی ہے، کیونکہ وہاں انہیں مجبوراً برہم چریہ کا پالن کرنا پڑتا ہے، کھانا وغیرہ کافی متوازن ہوتا ہے اور طبی معائنے بھی باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔ بھیس بدلنے سے باہر جو دماغی کشیدگی پیدا ہوتی ہے‘ جیل کے اندر اس سے بھی آزادی ملی رہتی ہے۔ اس آسارام جیسے جتنے بھی بھارت میں نراشا رام یا جھانسا رام ہیں‘ وہ سب غیر معمولی مجرم ہیں۔ لیکن بھارتیہ عدالتی نظام اتنا عجیب ہے کہ ان اجتماعی جرائم کرنے والے مجرموں کو بھی وہی سزا ملتی ہے جوعام مجرموں کو ملتی ہے۔ اگر آسارام دس سال اور زندہ رہ گیا تو آپ ذرا حساب لگائیے کہ غریب ٹیکس دہندگان کا کتنا پیسہ وہ ہضم کر جائے گا۔ آسارام ہی نہیں‘ اس کی طرح درجنوں شیطان سادھو‘سنت اس وقت جیلوں میں بند ہیں۔اگر یہ سادھو‘ سنت اپنے آپ کو عظیم روحانیت پرست اور جادو ٹونا اور کرامت دکھانے والے مانتے ہیں تو یہ اپنی رہائی خود ہی کیوں نہیں کر لیتے؟ اگر یہ سچ مچ غیر معمولی ہیں تو ان کی سزا بھی غیر معمولی کیوں نہیں ہوتی؟ انہیں کسی چوراہے پر پھانسی کیوں نہیں دی جاتی؟ ان کی لاش کو جانوروں کے جھنڈ کے آگے کیوں نہیں پھنکوادیاجاتا تاکہ ساری دنیا اس منظر کودیکھے اور سارے پاکھنڈی گورو گھنٹالوں کی ہڈیاں کانپ اٹھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پاکھنڈی سادھو صرف ہندوؤں کے درمیان ہی ہوتے ہیں۔ یورپ کی عیسائی تاریخ کا ایک لمبا وقت ''تاریک دور‘‘ ماناجاتا ہے کیونکہ پوپ تک ان کالے دھندوں میں اپنا منہ کالا کرتے پائے گئے تھے۔ کوئی مذہب‘ کوئی دھرم اس طرح کے شیطانوں سے مکت نہیں ہے کیونکہ لوگ اس طرح کے لوگوں پر اندھا یقین کرتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ آسارام کی دولت ایک کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے، 400 آشرموں پر مبنی اس نے ایک بڑی سلطنت قائم کر رکھی ہے، دنیا بھر میں اس کے کروڑوں پیروکار ہیں۔ دنیا کو ٹھگنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ نریندر مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت وہ بھی آسارام کے آشرم جایا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔ کئی سیاستدان آسارام کے آشرم اور پروگراموں میں نظر آتے رہے ہیں۔ جو سادھو‘ سنت‘ سنیاسی‘ پادری اور پیر فقیر وغیرہ پوتر اور سچے ہیں‘ ان کے دکھ کا اندازہ میں لگا سکتا ہوں لیکن ان سے میری شکایت یہ بھی ہے کہ ایسے معاملوں پر وہ خاموشی کیوں اختیار کیے رہتے ہیں؟ وہ ان پاکھنڈیوں کے خلاف اپنامنہ کیوں نہیں کھولتے؟ کیا وہ اپنے آپ سے ڈرے ہوئے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں