"IGC" (space) message & send to 7575

طالبان کا افغانستان: امن اور معیشت کے چیلنجز … (2)

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ انہیں محبت اور نفرت پر مبنی تعلقات بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ لڑنے کے لیے دونوں ممالک کا تعلقات قائم رکھنا ایک مجبوری ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تین سو سے زائد صنعتی یونٹوں کی ملکیت افغان نژاد شہریوں کے پاس ہے یا وہ ان میں شراکت دار ہیں۔ ان یونٹس کی مصنوعات کو عموماً انتظامی رکاوٹوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیادہ تر مقامی انتظامیہ کی طرف سے اپنے حصے کی وصولی کی غرض سے ہوتی ہیں۔ اس طرح مفاد پرستوں نے افغان تاجروں کی طرف سے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع ضائع کیے ہیں حتیٰ کہ طویل مدتی ویزوں پر یہاں مقیم افغان شہری بینک اکائونٹس کھلوانے اور انہیں چلانے سے بھی محروم ہیں؛ چنانچہ یہ بھاری سرمایہ کاری زیادہ تر یو اے ای اور ترکی میں چلی گئی۔دوسرے لفظوں میں پاکستان نہ صرف اس سرمایہ کاری سے محروم ہوا بلکہ بہت سے پاکستانی شہریوں کے لیے روزگار کی فراہمی کے مواقع بھی ضائع ہوگئے۔
یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر نے اسرائیل کو صحرائے سینا میں بہت سے صنعتی زون قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ ان صنعتی زونز کو اب مصری معیشت میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ امریکی کانگرس نے 1996ء میں ''یو ایس اسرائیل فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ قانون میں ایک ترمیم کے ذریعے ''کوالیفائنگ انڈسٹریل زون پروگرام‘‘ پاس کیا تھا‘ جس کا مقصد ان مصنوعات کو امریکی مارکیٹوں تک رسائی فراہم کرنا تھا جو اسرائیل اور اردن‘ اسرائیل اور مصر یا فلسطینی صنعتی یونٹس کی تیارکردہ ہوں۔اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے (کیو آئی زیڈ) سے مصر اب بھرپور فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچ رہا ہے تاکہ اپنی برآمدات میں پانچ ارب ڈالرز کا اضافہ کر سکے۔ گزشتہ سال عرب دنیا کے اس سب سے گنجان آبادی والے ملک اور تیسری بڑی معیشت کی برآمدات 12ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں کیونکہ 2004ء میں ہونے والے معاہدے کی رو سے مصری مصنوعات کو امریکہ میں ڈیوٹی فری انٹری کی اجازت ہے بشرطیکہ ان میں 10.5فیصد اسرائیلی مال شامل ہو۔ گزشتہ سال مصر کی نان پٹرولیم برآمدات سے ہونے والی آمدنی 32ارب ڈالرز تھی اور وہ کیو آئی زیڈ معاہدے میں توسیع دے کر 2025ء تک ان برآمدات کو 60ارب ڈالرز تک بڑھانا چاہتا ہے۔دوسری جانب ہمارے حکام سرمایہ کاروں کی راہ میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں مثلاً افغان تاجروں کے سیزنل فروٹس پر امپورٹ ڈیوٹیز اور کئی طرح کے دیگر ٹیکس عین اس وقت بڑھا دیے جاتے ہیں جب فروٹ سرحد پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ پھر یہ مال سرکاری چینل سے نکالنے کے بجائے موقع پر سودے بازی کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ یوں ذاتی مفاد کو یقینی بناکر سرکاری آمدنی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ایک طرح سے تاجروں کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ متعلقہ حکام اکثر افغانستان سے آنے والے مال کی سکریننگ کی آڑ میں کارگو کی کلیئرنس روک دیتے ہیں یا اس میں تاخیر ی حربے استعمال کرتے ہیں مگر یہ سکریننگ نہیں ہوتی اگر ہو بھی تو زیادہ تر کیسز میں یہ سکریننگ الیکٹرانک سکینرز کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کا مقصد صرف پریشان حال ٹرانسپورٹرز اور ٹرک ڈرائیورز سے مال بٹورنا ہوتا ہے۔ افغان شہریوں کی بڑی تعداد حتیٰ کہ ویزا رکھنے والے بھی اسی تکلیف دہ عمل سے گزرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف تاجروں کی اکثریت کو بھی اس امر کا ادراک نہیں ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغان تجارت اور مالیاتی ٹرانزیکشنز کو مدد فراہم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہے جس کی وجہ سے عدم تعاون یا بینکوں تک رسائی نہ ملنے کے حوالے سے شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ فی الحال پاکستانی روپے یا افغانی میں محدود پیمانے پر دو طرفہ تجارت کی اجازت ہے۔ کافی زیادہ تجارت بارٹر سسٹم کے تحت بھی ہوتی ہے مگر اس کی اپنی خامیاں اور پابندیاں ہوتی ہیں۔ شاید کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں کہ افغانستان کی انٹرنیشنل بینکنگ ٹرانزیکشنز پر عائد پابندیاں ہی افغان تاجروں کی سہولتوں کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہیں۔ جہاں تک مالیاتی شعبے کا تعلق ہے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قوانین اور تقاضے پاکستان کو بھی ایسی ہی پابندیوں میں جکڑ ے ہوئے ہیں؛ تاہم حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آنے کے بعد یہ توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے وقت میں اس ادارے کی پابندیوں میں کمی آئے گی۔
افغان تاجر ابھی تک انفرادی واقعات کا عمومی اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً اُن کی طرف سے یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان آئے ہوئے تاجروں کو ہوٹلوں میں کمرہ دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اِکا دُکا واقعات تو ہو جاتے ہیں مگر ہر کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں کہ پشاور‘ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز افغان شہریوں سے ہی بھرے ہوئے ہیں‘ بے شک ان میں سے اکثریت ان افغانوں کی ہے جنہیں گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے نکالاگیا تھا اور وہ کسی تیسرے ملک کی طرف سفر کرنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے تاجروں کا دعویٰ ہے کہ ایک وزیٹنگ بزنس مین کے طور پر انہیں یو اے ای‘ ترکی اور چین میں تو بینک اکائونٹ کھولنے کی سہولت مل جاتی ہے مگر پاکستان میں ابھی ایسی سہولت ملنا باقی ہے‘ حتیٰ کہ ان کاروباری حضرات کو بھی یہ سہولت میسر نہیں جن کے پاس پاکستان کا طویل مدتی ویزا بھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کئی مرتبہ ایئر پورٹس پر ویزا کی تصدیق کا عمل خاصا پریشان کن ہو جاتا ہے؛ تاہم حکام کو یہ جان کر اطمینان ہوگا کہ اے سی سی آئی کے رکن افغان تاجروں کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کے قیام کے بعد تاجروں سمیت تمام افغان شہریوں کو ہر طرح کے بھارتی ویزا کے اجرا پر پابندی عائد کردی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری حکام کھلے بازوؤں سے افغان سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کرنے میں ناکام ر ہے ہیں اور سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ تاجروں کو انکار کرکے ملک کو بھاری نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ چیکنگ کے مطلوبہ مراحل سے گزر کر کراچی سے روانہ ہونے والے ٹرک یا کنٹینر کو افغان سرحد کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اتنی زیادہ جگہوں پر چیک کرنا کیوں ضروری ہے؟ اگر اسے ایک سیٹلائٹ ٹریکر کی مدد سے ٹریک کیا جا سکتا ہے تو اس کارگو کو بار بار راستے میں کیوں روکا جاتا ہے؟ ان کنٹینرز کی نقل و حرکت کو آسان کرنے کے لیے سیٹلائٹ ٹریکرز کے ساتھ ساتھ ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ کسی دوسرے ملک کے کمرشل کارگو کو ہینڈل کرنے کا یہ ایک پروفیشنل اور باعزت طریقہ ہوگا۔
افغانستان کی طرف سے یہ مؤقف اپنایا جاتا ہے کہ انہوں نے سوویت یونین اور امریکی سرپرستی میں قائم دونوںاتحاد وں کو افغانستان سے باہر نکالا ہے اور اس جنگ کے بھاری نقصانات اٹھائے ہیں لیکن افغان حکام اُس نقصان کا ذکر کرنا کیوں بھول جاتے ہیں جو پاکستان کو اس جنگ کی صورت میں اٹھانا پڑا ہے۔ مالی نقصان تو رہا ایک طرف آج بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور آئے روز افغانستان کی حدود سے دہشت گرد پاکستانیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا تے ہیں‘ لہٰذا افغان حکام کو پہلے اس پہلو پر متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں