"FBC" (space) message & send to 7575

بھارت میں زیرِگردش ایک کہانی

یہ جو داستان ہم آپ کو سنانے چلے ہیں‘ہماری نظروں سے تب گزری تھی جب بھارت میں کورونا کی وبا اپنے عروج پر تھی اور ہرطرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ اس وقت بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ امیر شخصیات کی طرف سے بھی بڑے پیمانے پر رقوم عطیہ کی جارہی تھیں لیکن اِس پوری وبا کے دوران کچھ ایسے دروازے بھی تھے جو کبھی نہ کھل سکے حالانکہ انہیں سب سے پہلے کھلنا چاہیے تھا۔ یہ دروازے ان مندروں کے تھے جہاں بھارتی شہری ہرسال کھربوں روپے کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ عالمی وبا کے شروع ہوتے ہی بڑے بڑے اور امیر ترین مندروں نے اپنے دروازے اتنی مضبوطی سے بند کرلیے کہ پھر وہ وبا کے خاتمے ہی پر کھل سکے۔
اس وقت بھارت کی مختلف ریاستیں شدید سیلاب کی زد میں ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ہاں اِس وقت پورا سندھ، جنوبی پنجاب اور آدھا بلوچستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ کے پی میں بھی بہت بڑی مصیبت آچکی ہے۔ یہ سیلاب اس قدر شدید ہے کہ ایک اندازے کے مطابق کم از کم تین کروڑ افراد کسی نہ کسی طور اِس سے متاثرہوئے ہیں۔ گیارہ سو سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ پچاس فیصد سے نوے فیصدتک فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ کر پانی ہوچکے ہیں۔ اتنی بڑی مصیبت میں بھی بیشتر نظریں اس وقت صرف حکومت ہی پر مرکوز ہیں کہ وہی سیلاب زدگان کیلئے کچھ کرے تو کرے۔ ٹھیک ایسی ہی صورتحال بھارت کی مختلف ریاستوں کو بھی درپیش ہے جس کے باعث ایک مرتبہ پھر وہاں یہ کہانی زیرِگردش ہے۔ ایک مرتبہ پھر ویسی ہی باتیں سننے میں آرہی ہیں جیسی باتیں کورونا کے دنوں کے دوران کثرت سے کی جا رہی تھیں۔ اگرچہ اِن باتوں کا کوئی اثراس وقت بھی نہیں ہوا تھااور اب بھی آثار کم ہی ہیں۔
بھارت میں جب دولت و ثروت کی بات ہوتی ہے تو امبانی، ٹاٹا اور برلا وغیرہ کے نام ذہن میں آتے ہیں لیکن وہاں بے شمار ایسے مندر بھی ہیں جن کے پاس اِن شخصیات سے بھی زیادہ دولت ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں بھارتی ریاست کیرالہ میں واقع پدما ناتھ سوامی مندر کی جسے بھارت کا امیر ترین مندر مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ہرسال پانچ سو کروڑ روپے کا چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے۔ تین سال پہلے اِس کے پاس موجود مجموعی دولت کا تخمینہ چوبیس بلین ڈالرلگایا گیا تھا۔ آندھرا پردیش کے تری پتی بالا جی مندر کی دولت کا تخمینہ باون ہزار کروڑ (52 کھرب) روپے کے قریب ہے۔ اِس مندر کی سالانہ آمدن تقریباً چھ ارب روپے ہے۔ یاد رہے کہ اجناس کی شکل میں جو چڑھاوا چڑھایا جاتا ہے‘ وہ الگ ہے۔ شری سائیں بابا کے مندر کا بھی یہی حال ہے جسے گزشتہ سال چھ سو اسی کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ اِس کے پاس موجود مجموعی دولت کا اندازہ بائیس سو کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ جموں کے ویشنودیوی مندر کو سالانہ پانچ سو کروڑروپے سے زیادہ کا چندہ جمع ہوتا ہے۔ اِس مندر کے پاس بارسو کلو سونا بھی موجود ہے۔ ممبئی کے سدی وینائک مندر کی سالانہ انکم ایک سو پچیس کروڑ روپے سے بھی زائد ہے۔ یہ بھارت کے چند ایک انتہائی امیر مندر وں کا تذکرہ ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ بھارت میں مجموعی طور پر تقریباً چھ لاکھ مندر ایسے ہیں جنہیں سالانہ بھاری آمدنی ہوتی ہے۔ یہاں سے اندازہ لگا لیجئے کہ وہاں چڑھائے جانے والے چڑھاووں کی رقم کتنی ہوسکتی ہے۔ وارانسی کا کاشی وشو ناتھ مندر اور پوری کا جگن ناتھ مندر‘ جن کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ مندر ہی اپنی ساری دولت عطیہ کردیں تو ایک دن میں ہی بھارت کی غریبی دور ہوجائے گی لیکن یہ ایسا نہیں کرتے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ آمدنی کہاں جارہی ہے۔ اِس حوالے سے عمومی طور پر یہی رائے پائی جاتی ہے کہ یہ ساری آمدنی مندروں کے پجاری ڈکار جاتے ہیں۔ اِن رقوم کا کوئی حساب کتاب بھی نہیں‘ بس حصہ بقدرِ جثہ یہ تقسیم کرلی جاتی ہیں۔
اس وقت چونکہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں بھی سیلاب نے خوب تباہی مچا رکھی ہے۔ خصوصاً ہماچل پردیش، ارونا چل پردیش، اُڑیسہ ، جھاڑکھنڈ اور متعدد دیگر ریاستوں میں ہر طرف سیلابی پانی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ بے شمار دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ اِن چند ریاستوں میں ہی ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ ہزاروں مویشی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی امیر ترین مندروں کے پچاری دولت پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔ کسی ایک مندر کی طرف سے ایک روپیہ بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عطیہ نہیں کیا گیا۔ پچاریوں کے اِس طرزِ عمل کے باعث وہاں ایک مرتبہ پھر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ آخر یہ بڑے بڑے مندرکیوں اپنے پاس موجود رقم سے مصیبت میں مبتلا افراد کی مدد نہیں کرتے؟ایک مرتبہ پھر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ بھارتی عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اِن مندروں کو رقم دان کرتے ہیں لیکن جب عوام پرکوئی مصیبت آتی ہے تو یہ اپنے دروازے بندکرلیتے ہیں۔ وہاں اِس بحث نے اتنا زور پکڑا ہے کہ سوشل میڈیا پر مندروں کے بائیکاٹ کے ٹرینڈز گردش کر رہے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جو وہاں کورونا وبا کے دنوں میں بھی دیکھنے میں آئی تھی لیکن اب کے اِس کی شدت کہیں زیادہ ہے۔ پجاریوں کو اب کہیں زیادہ شدت سے ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے کہ وہ کیوں دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہیں؟شاید بھارتیوں کے اِس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے ہمیشہ دوسروں کی دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹی ہو‘ اُنہیں بھلا رقم عطیہ کرنے کی عادت کہاں ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کورونا وبا اور اب سیلاب کے دنوں میں کچھ پچاریوں نے اِس بات پر فکرمندی کا اظہار کیا ہے کہ اُن کی آمدنی میں کمی ہوگئی ہے۔ وہ اِس بات پر پریشان ہیں کہ چڑھاووں میں ہونے والی کمی کے اثرات کو وہ کیسے زائل کرپائیں گے۔ اندازہ لگائیے‘ بجائے اس کے کہ وہ مصیبت کے ماروں کی مدد کرتے‘ وہ اپنی دولت میں کمی پر فکر مندہوگئے ہیں اور آمدنی میں اضافے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں۔ شاید اب بھارت کے سادہ لوح عوام سمجھ جائیں گے کہ جو رقم وہ مندروں کو دان کرتے ہیں‘ اگر وہ اپنے لیے بچا کررکھیں تو شاید مشکل وقت میں اُن کے کام آ جائے۔
یہ ہمسایہ ملک کی ایک ایسی کہانی تھی جو ہمیں قدرے منفرد محسوس ہوئی اور ہم نے آپ کے گوش گزار کردی۔ اِس صورت حال پر بھارت میں بھی بہت مضبوط آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ سوشل ایکٹوسٹ عام بھارتیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مندروںپر چڑھاوے چڑھانے کے بجائے یہ رقوم ایسی تنظیموں کو عطیہ کیا کریں جو مشکل وقت میں عوام کے کام آتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی عام بھارتی بھی یہ بات سمجھ جائے لیکن ہے یہ کارِ محال۔ موجودہ صورت حال بھارت کے براہمنوںکو کافی فکر مند کررہی ہے لیکن اِس کے باوجود کسی بڑے مندر کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ایک دھیلے کی امداد کا اعلان بھی نہیں کیا گیا اور شاید ایسا ہوبھی نہیں سکے گا۔ اُلٹا وہ تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اپنی دولت میں آنے والی کمی کو کیسے پورا کیا جائے۔ دراصل وہاں براہمن سماج نے بہت شدت سے عام لوگوں کو یہ باور کرا رکھا ہے کہ مندروں‘ پجاریوں پر چڑھاوا چڑھانے سے ہی اُن کی مکتی ممکن ہوسکتی ہے ورنہ مرنے کے بعد بھی اُن کی آتما اِدھر اُدھر بھٹکتی پھرے گی۔ بس اپنی آتما کی شانتی کے لیے یہ افراد ہرممکن طریقے سے مندروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے عمومی طور پر وہ یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اُن کی جانب سے دی جانے والی یہ ساری رقوم کہاں جاتی ہیں؟ مندر اُن کی عطیہ کی ہوئی رقم سے کیا کرتے ہوں گے؟وہ تو پجاریوں کے کہنے پر چلتے رہتے ہیں جن کے نزدیک ہر مشکل کا واحد حل یہی ہے کہ مندروں کو زیادہ سے زیادہ رقوم عطیہ کی جاتی رہیں۔ اِسی مقصد کے لیے پجاریوں نے عام بھارتیوں کی آنکھوں پر عقیدت اور خوف کی پٹی بہت مضبوطی سے باندھ رکھی ہے۔ اب لوگوں میں کچھ شعور آنا شروع ہوا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ پٹی کھلتے کھلتے کبھی نہ کبھی کھل ہی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں