"FBC" (space) message & send to 7575

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے

1965کی پاک‘ بھارت جنگ ہماری قومی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ میں نے یہ باب رقم ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن اِس کے بارے میں سنا اور پڑھابہت ہے۔ اِس سترہ روزہ جنگ کے بارے میں مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر 1947ء میں ہم نے ایک الگ وطن حاصل کیا تھا توستمبر 1965ء میں اِس کا انتہائی کامیابی سے دفاع کیا تھا۔ اِس جنگ کے دوران ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئی تھیں جو آج بھی ہمارے لہو کو گرما دیتی ہیں۔ ہم سب کا سلام ہے اُن شہیددں کو جنہوں نے دفاعِ وطن کے لیے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کردیا تھا۔ یہ شہید ہمیں آج بھی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ''ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں‘‘۔ اُنہیں بھی ہمارا سلام جو اِس جنگ کے اختتام پر غازی بن کر لوٹے۔ ایسے ہی ایک غازی میجر (ر) شفقت بلوچ مرحوم سے ہماری درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ شادمان میں واقع اُن کی پُرسکون رہائش گاہ پر اُن سے جنگ کے واقعات سنتے ہوئے گھنٹوں گزر جاتے تھے لیکن تشنگی برقرار رہتی تھی۔ یہ وہی میجر شفقت بلوچ ہیں جن کی قیادت میں 17 پنجاب کی ڈی کمپنی 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات کوبی آر بی کے کنارے پہنچی تھی۔ ابھی اس نے دم بھی نہیں لیا تھا کہ سرحد کے اُس پار سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ ہی دیر میں تصدیق ہوگئی کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے۔ صورتحال کے بارے میں انہوں نے اپنی بریگیڈ کے کمانڈر کو اطلاع دی تو وہاں سے کہا گیاـ: اگر تم صرف دوگھنٹوں کے لیے بھارتی فوج کی پیشقدمی روک لو تو پوری قوم تمہاری احسان مند ہوگی۔ بقول میجر صاحب‘ اِن الفاظ نے اُن کے اندر ایک ہلچل سی مچا دی۔ اُنہوں نے جوانوں سے کہا کہ اگر ہم ایک سو دس جوان اپنی جانوں کی قربانی دے کر 34 لاکھ کی آبادی والے لاہور شہر کو بچا لیں تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ پھر انہوں نے یہ انہونی کر دکھائی۔ پوری قوت سے حملہ آور ہونے والے دشمن کو پیشقدمی سے روک دیا گیا جس پر انہیں بریگیڈ ہیڈکوارٹرسے پیغام ملا ''شفقت تم نے اور تمہارے جوانوں نے معجزہ کردکھایا ہے، ہم سب کو تم پر فخر ہے‘‘۔ میجر(ر) شفقت بلوچ جنگ کی یادیں تازہ کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے کہیں کھوجاتے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی سی آجاتی تھی۔ انہیں اپنے وہ ساتھی یاد آنے لگتے تھے جن کے ساتھ مل کرانہوں نے لاہور کا کامیابی سے دفاع کیا تھا۔
لاہور کے محاذ پر سرگرم 10ویں ڈویژن کے کمانڈر میجرجنرل سرفرازخان مرحوم سے بھی متعدد ملاقاتیں رہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب شادمان ہی میں واقع اُن کی رہائش گاہ پر اُن سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت وہ کافی کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ اوپر کی منزل سے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آئے توکافی دیر تک سانس بحال کرتے رہے مگر جیسے ہی اُن سے جنگ کی باتیں شروع ہوئیں تو اُن کے اندر سے توانائی کی لہریں پھوٹتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ چند لمحے پہلے تک وہ خاصے نڈھال تھے۔اُن کی قیادت میں 10ویں ڈویژن کی صرف سات بٹالینز نے دو بھارتی ڈویژنزکا حملہ روکا تھا۔ دونوں بھارتی ڈویژنز میں 18 بٹالینز اور 108 ٹینک شامل تھے۔ صرف اتناہی نہیں‘ ایک پوری بکتر بند بریگیڈ کی مدد بھی انہیں حاصل تھی۔ اتنے بڑے حملے کا جو حال ہوا‘ اُس کی مختصر روداد لاہور اور قصور کے محاذوں پر حملہ کرنے والی بھارتی کور کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کی زبانی سن لیجئے۔ وہ اپنی کتاب ''اِن دی لائن آف ڈیوٹی‘‘ میں لکھتے ہیں ''جب میں پاکستان کی طرف سے حملہ روک لیے جانے کی اطلاعات پر لاہور کے محاذِ جنگ پر پہنچا تو میں نے دیکھاکہ 15ویں ڈویژن کی گاڑیاں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں، ملٹری پولیس کی ایک گاڑی مجھے گنے کے ایک کھیت کے قریب لے گئی تو میں نے دیکھا کہ ہمارے 15ویں ڈویژن کے کمانڈر میجرجنرل نرنجن پرساد وہاں چھپے ہوئے تھے، اُن کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے اور اُنہوں نے شیوبھی نہیں کی ہوئی تھی، جب میں نے اُن سے کہاکہ آپ کے بریگیڈ کمانڈر کہاں ہیں تو وہ چلانے لگے: پاٹھک‘ پاٹھک۔ جب پاٹھک وہاں پہنچا تو اُس کا رنگ سفید چادر کی طرح ہورہا تھا‘‘۔ بھارتی جنرل کی یہ تحریر دراصل میجر جنرل سرفراز خان کے لیے ایک خراجِ تحسین ہے جنہوں نے اتنی کم قوت کے ساتھ اتنے بڑے حملے کو بی آربی سے پرے ہی روک دیا تھا۔
جنگِ ستمبر کا تذکرہ سیالکوٹ اور چونڈہ کے محاذ کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہاں سے 'آپریشن نیپال‘ کے نام سے ایک آرمر ڈاور تین انفنٹری ڈویژنز کا حملہ ہوا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ یہاں سے پاکستان کی دفاعی فورسز کو دھکیلتے ہوئے گوجرانوالہ کے مقام پر جا کر جی ٹی روڈ کو کٹ کردیا جائے گا اور ایسا کرنے سے لاہور کا راولپنڈی اور اسلام آباد سے رابطہ کٹ جائے گا‘ اگر تب تک بھارتی فوج لاہور کا دفاع نہ توڑ سکی تو پاک فوج پر عقب سے بھی حملہ کیا جائے گا۔ بھارتی فوج کے اتنے بڑے حملے نے پہلے ہلے میں دفاعی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا۔ اِس موقع پر یہ تجویز بھی زیرِغور آئی کہ یہاں سے پیچھے ہٹ کر نندی پورنہر کی سیکنڈ ڈیفنس لائن پر نئی پوزیشنیں قائم کی جائیں۔ تب سرفروشوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر ایک مرتبہ ہمارے قدم یہاں سے اُکھڑ گئے تو پھر اتنے بڑے طوفان کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔ بس پھر جو جہاں تھا‘ وہیں ڈٹ گیا۔ فیصلہ ہوا کہ آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑا جائے گا۔ تب تک فضائیہ کی مدد بھی پہنچ چکی تھی جس کے پے در پے حملوں نے دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔ گڈگور کے قریب پاکستانی ٹینکوں نے بھارتی پیشقدمی کا راستہ روکا۔ اِس دوران کئی پیدل سپاہیوں نے راکٹ لانچرز کی مدد سے دشمن کے متعدد ٹینک تباہ کیے۔ کئی مواقع پر ایسا ہواکہ اِدھر لانچر سے راکٹ فائر ہوتا اور اُدھر ٹینک کی مشین گن چلتی۔ ایک ہی وقت میں سپاہی بھی شہید ہوجاتا اور ٹینک بھی راکٹ کا نشانہ بن جاتا۔ ہوتا یہ تھا کہ ٹینک راکٹ لگنے کے باوجود سپیڈ میں چلتے چلتے شہید ہونے والے سپاہی کے اوپر آکر پھٹ جاتا۔ یہیں سے اِس روایت نے جنم لیا کہ ہمارے سپاہی بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ بالآخرکئی روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اِس شدید اور بڑے حملے کا زور توڑ دیاگیا۔ اِس حملے کی ناکامی کے ساتھ ہی جنگ کا فیصلہ بھی ہو گیا۔ بری افواج کے علاوہ ایئرفورس اور بحریہ نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 65کی جنگ میں فضائیہ کے شاندار کردار کے حوالے سے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اِس جنگ میں پاکستان کو '' ٹرپل اے‘‘نے بچایا۔ یعنی ذاتِ باری تعالیٰ، ایئر فورس اور آرمرڈ۔ جب کبھی ایئر وائس مارشل (ر) سلیم میتلا صاحب سے ملاقا ت ہوتی تو اُن کی باتیں سن کر عجیب سی سنسنی طاری ہونے لگتی۔ وہ بتاتے تھے کہ تب فضائیہ کے جوانوں کا جوش اور جذبہ کیسا تھا جس نے اپنے سے کئی گنا بڑی فضائیہ کو چند ہی روز میں عملاًفضاؤں سے بے دخل کر دیاتھا۔ گو جنگ کے دوران غلطیاں بھی ہوئیں‘ کئی مواقع پر بروقت فیصلے نہیں کیے جاسکے‘ قصور کی طرف سے بھارت پر کیے جانے والے آرمرڈ ڈویژن کے جوابی حملے کو بروقت شروع نہ کیا جاسکا اس کے باوجود جوانوں نے اپنے عزم و حوصلے سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ 6ستمبر سے پہلے ہی دونوں ممالک کے مابین جنگ کے حالات پید ا ہوچکے تھے۔ تب کے بھارتی وزیراعظم لال بہادرشاستری واضح طور پراعلان کرچکے تھے کہ اب بھارت اپنی پسند کا محاذ کھولے گا۔ اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کو نہ لاہور اور نہ ہی سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن کے حملوں کی بروقت اطلاعات فراہم ہو سکیں۔ اتفاقیہ طور پر عین وقت پر یہ پتا چلا تھا کہ بھارت کا آرمرڈ ڈویژن سیالکوٹ سے حملہ کرنے والا ہے۔ ایسی کمزوریوں کے باوجود جوانوں اور افسروں نے کمال کر دکھایا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اُن کا جوش اور جذبہ ہی تھا جس نے ملک کی بقا اور اس کے دفاع کو یقینی بنایا۔
محاذوں پر ہمارے جوان قربانیاں دے رہے تھے اور اُن کی پشت پر پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی تھی۔ آج ہم ایک مرتبہ پھر یومِ دفاع منا رہے ہیں تو ہمارا دوبارہ سلام ہے اُن کو جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر وطن کی حفاظت کی۔ اُن کو بھی جو غازی بن کر محاذوں سے لوٹے۔ بلاشبہ یہ اُن کا ہمارے اوپر بہت بڑا حسان تھا جو ہمیشہ رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں