"FBC" (space) message & send to 7575

اپنی اپنی بولیاں

18ویں صدی کے دوران پورا فرانس شدید ابتری کی لپیٹ میں تھا۔ دو جنگوں اور برسوں تک اچھی فصلیں نہ ہونے کے باعث ہرطرف بھوک دکھائی دے رہی تھی۔ عوام مہنگائی اور اشیا کی قلت کے باعث بے حال ہوچکے تھے لیکن اشرافیہ کے اللے تللوں پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ مشہورناول نگار چارلس ڈکنزنے اپنے ایک ناول A tale of two cities میں اُس دور کے فرانس کی شاندار عکاسی کی ہے۔ 1859ء میں شائع ہونے والے اِس ناول سے علم ہوتا ہے کہ ''انقلاب سے پہلے فرانس کے ہرگھر میں بھوک اور نااُمیدیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، پورا معاشرہ امانت اور دیانت جیسی خوبیوں سے محروم ہوچکا تھا، ہرطرف بے اعتباری نے اِس انداز میں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے کہ کوئی کسی پر اعتبارکرنے کو تیارنہیں تھا اور ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ اِس صورتحال کے باوجودعین اِس شدید ابتری اور بھوک کے دور میں وہاں کے اُمرا اور پادریوں کی مراعات میں مزید اضافہ کیا گیا تو عوامی سطح پر اِس کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جس نے انقلابِ فرانس کی بنیاد رکھی‘‘۔
آج کے پاکستان اور تب کے فرانس کے حالات میں مماثلت تلاش کی جا رہی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ افراتفری کی زد میں ہے اور چیزیں اِس طرح سے گڈ مڈ ہوچکیں کہ کچھ واضح نہیں ہوپارہا۔ آج عوام بھوک سے بے حال ہیں اور اشرافیہ بدستور بے شمار مراعات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ ایک جہازی سائز کی کابینہ ملک پر مسلط ہے۔ اتنی بڑی کابینہ کہ جس کی تعداد 75وزرا، معاونین اور مشیران تک جا پہنچی ہے۔ کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے 35وزرا دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ سات کے قریب وزرائے مملکت بھی ملک وقوم کی ترقی کے لیے اپنی مخفی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ 29معاونینِ خصوصی وزیراعظم صاحب کو اچھے اچھے مشورے دینے کے پابند ہیں جن میں سے 23تو کسی قلمدان کے بغیر ہی اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اِسی طرح متعدد وزرا بھی ''وزیرِ بے محکمہ‘‘ کے طور پر پروٹوکول اور مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ اُس ملک کی کابینہ ہے جس کے ہر فرد کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ اُس ملک کی کابینہ ہے جس کے حکمران چند ارب ڈالر کے حصول کے لیے پوری دنیا کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ شاید کہیں سے کچھ مدد مل جائے۔ یہ اُس ملک کے خدمتگار ہیں جس کا بہت بڑا رقبہ ابھی تک سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ خود حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سیلاب کے باعث ملک کو 30سے 40 ارب ڈالر کے قریب نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ ان حالات کے باوجود مجھے کوئی انقلابی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی۔
اپوزیشن کا حال دیکھ لیں تو اُس کے نزدیک کوئی بھی مسئلہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اگر کوئی مسئلہ اہمیت کا حامل ہے تو صرف یہ کہ اہم نئی تقرریوں میں اُس کی منشا بھی شامل ہونی چاہیے اورنئے انتخابات کی تاریخ کا فی الفور اعلان کیا جائے۔ اِس مقصد کے لیے اُن دنوں بھی جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا جب ملک شدید ترین سیلاب کی زد میں تھا۔ جلسے جلوسوں سے بات نہ بنی تو اب لانگ مارچ کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ ہے کسی کو احساس کے اس سیاسی افراتفری کے باعث کروڑوں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ جی ٹی روڈ پرکاروبارِ زندگی معطل ہوکررہ گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی اصل ذمہ داریوں کو چھوڑ کر سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کو بھی شدید تنقید کانشانہ بنایا جارہا ہے اور شخصیات کے نام لے لے کر اُن پر تنقیدکے نشتر برسائے جارہے ہیں۔ ملکی سیاست میں یہ صورت حال پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے۔ پہلے پہل سیاسی قیادت نے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اور اب اِس کے اثرات بہت نچلی سطح تک بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ارشد شریف کی شہادت کے بعد تو حالات کچھ ایسا رخ اختیار کرگئے کہ خود ڈی جی آئی ایس آئی کو میڈیا کانفرنس کرنا پڑا۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب قوم نے ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کو میڈیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے سنا۔ اِس کانفرنس میں بہت سی وضاحتیں پیش کی گئیں‘ قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن کسی کو غدار اور سازشی قرار دینا انتہا درجے کی روش ہے۔ دوسری جانب حکومت کے ترجمان، سیاسی رہنما اور اپوزیشن جماعتیں‘ غرض ہر کوئی اپنا اپنا 'سچ‘ بیان کر رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سبھی اپنی اپنی بولیاں بول رہے اور خود کو سچا اور دوسروں کو بے ایمان قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔
ملکی سیاست میں اِتنا غبار کم از کم ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ آئے روز کسی نہ کسی کی آڈیو لیک ہورہی ہوتی ہے جو سیاسی فضا کو مزید مکدر کررہی ہیں۔ ایسے میں اب یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہورہا ہے کہ کس پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے سبھی اپنی اپنی جگہ‘ کہیں نہ کہیں جھوٹ کا سہارا ضرور لے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے دار بھی توشہ خانہ سے کروڑوں روپے کے تحائف گھر لے گئے۔ جنہیں عوام نے اپنے بھرپور اعتماد سے نوازا تھا وہ بھی کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور ملکی حالات پہلے کی نسبت زیادہ خراب ہوگئے۔ چیزیں اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں کہ عقل کے گھوڑوں نے بگٹٹ بھاگنے سے یکسر انکار کردیا ہے۔ کچھ پلے پڑے گاتو ہی عقل کے گھوڑے اپنی سمت کا تعین کر کے بھاگنے کی تیاری کریں گے۔ فی الحال تو دل دہل رہا ہے کہ معلوم نہیں لانگ مارچ کیا رنگ دکھائے گا۔ حکومت لچک دکھانے کے لیے تیار ہے نہ اپوزیشن اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اِس دوران حکومت کی جانب سے عوام کویہ باور کرانے کی بھی بھرپورکوششیں جاری ہیں کہ لانگ مارچ کرنے والے ہرگز ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ لانگ مارچ کرنے والے ملک میں خون خرابے کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مطلب وہی سب کچھ جو ماضی قریب تک خود اُن کے بارے میں کہا جاتا تھا جنہیں آج اقتدار سونپا جاچکا ہے‘ اب وہی کچھ موجودہ اپوزیشن کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ باتوں کا یہی ہیر پھیر ہے جس کے باعث اعتماد نامی چڑیا تو جیسے روٹھ چکی ہے۔ اِسی باعث یہ صورت حال بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے کہ اداروں کی وضاحت پر بھی زیادہ ہلچل دکھائی نہیں دی۔ گویا حالات ایسے ہوچکے کہ بے اعتمادی نے پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
اِس مکدرسیاسی فضامیں سسٹم کے لپیٹے جانے کی باتیں بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جو کرنا ہے‘ کر گزریں‘ ایسی باتیں کرکے اُنہیں کیوں ڈرایا جارہا ہے۔ خدانخواستہ اگر لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر خون خرابہ ہوتا ہے تو پھر شاید تیسری قوت کو مداخلت کا موقع مل جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اِسے سیاستدانوں کی ناکامی، نااہلی اور قومی بدقسمتی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ایسی کسی بھی صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے سیاسی قوتوں کو عقل ودانش سے کام لینا ہوگا؛ اگرچہ اِس کی اُمید کم ہی دکھائی دے رہی ہے مگر کچھ واقفانِ حال کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر نیم دلی سے رضا مندہوچکی ہے لیکن میاں نواز شریف اور کچھ اتحادیوں کی رضامندی حاصل نہیں ہو پا رہی۔ مخالفین کا استدلال ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت لانگ مارچ کے دباؤ میں آگئی ہے۔ دراصل خان صاحب نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران حزبِ اختلاف کو جس طرح دیوار سے لگا رکھا تھا‘ اب تک وہ اِسے بھلا نہیں پائے ہیں اور کسی بھی صورت خان صاحب کو کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہتے کہ جس سے اُن کی بالادستی ثابت ہو۔ گویا حالات میں بہتری کی زیادہ اُمید نہیں رکھی جانی چاہیے۔ ایسے ہی حالات فرانس کو درپیش تھے تو انقلاب کا پیش خیمہ بن گئے تھے لیکن شاید ہماری زمین کسی انقلاب کے لیے بنی ہی نہیں؛ گویا ملک اِسی طرح چلتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں