"FBC" (space) message & send to 7575

سیاسی دھند اور انتظار

موسم کے ساتھ آنے والی دھند تو وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے آنے اور جانے کا سلسلہ موسموں کی تشکیل کے وقت سے ہی جاری و ساری ہے لیکن ملکی حالات پر چھائی رہنے والی دھند نے تو جیسے ہمارے ہاں مستقل طور پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ملکی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جب ہم نے دھند سے پاک‘ صاف اور شفاف حالات دیکھے ہوں۔ اِس وقت بھی یہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ وہ معاملات جنہیں بند کمروں میں آئینی تقاضوں کے مطابق طے ہونا چاہیے‘ وہ گلیوں، محلوں میں زیرِبحث ہیں۔ ایک ایسی تقرری پر عجیب وغریب تبصروں اور اندازوں کا سلسلہ جاری ہے جس کا براہِ راست تعلق ملکی سلامتی سے متعلق سب سے اہم ادارے سے ہے۔ ہرکسی کی اپنی رائے اور اندازے ہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ کوشش اورخواہش ہے کہ تقرری کے حوالے سے اپنی منشا پوری ہوجائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ شاید یہ تاثر مضبوط تر ہوچکاہے کہ سیاست چاہے جو بھی رنگ تبدیل کرتی رہے‘ فیصلے وہیں سے ہونے ہوتے ہیں۔ اِسی لیے ایک طویل عرصے سے ملک کی تمام تر سیاست اِسی ایک نکتے کے گرد گھوم رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کے ساتھ ساتھ دوردیسوں میں بھی اِس حوالے سے کافی دلچسپی لی جارہی ہے۔ معلوم نہیں کہ اِس معاملے کو اب کیا نام دیا جائے کہ مسئلہ ہمارا ہے اور دلچسپی دوسروں کی بھی بہت ہے۔ شاید جب گھر کا فرد ہی باہر والوں کو گھر کی راہ دکھائے گاتو پھر کسی سے کیا گلہ کرنا کہ ہمارے دروازے کھول کر کیوں اندر گھسے چلے آتے ہو۔ یہ 'اعزاز‘ بھی ہمیں ہی حاصل ہے کہ ہمارے اکثر فیصلے کہیں اور سے وارد ہوتے ہیں۔ کشکول پکڑے ہمارے ہاتھوں میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ صادر ہونے والے احکامات کو رد کرسکیں‘ چاہے وہ ہماری قومی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمیں تو بس حکم ماننا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ خودمختاری کے نعرے لگانا ہوتے ہیں۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا خود مختار ملک ہو‘ جس نے اِس طرح کے احکامات تسلیم کیے ہوں جو ہم نے کیے اور مسلسل کیے چلے جارہے ہیں۔
وہ منظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ جب معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے صاحبان اُڑن کھٹولوں پر بیٹھ کر وطنِ عزیز میں آئے تھے۔ یہاں پر حکومتوں کا لطف اُٹھایا، اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن ہوئے اور پھر حکومت ختم ہونے کے بعد اُنہی اُڑن کھٹولوں پر بیٹھ کر اُڑن چھو ہوگئے۔ اپنے اپنے ادوارحکومت میں یہ صاحبان کیا کرتے رہے‘ اِس کی کوئی جواب دہی نہیں۔ 1993ء میں جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان معاملات پوائنٹ آ ف نو ریٹرن پر پہنچ گئے تھے تب کاکڑ فارمولا وجود میں آیا تھا۔ اِس کے تحت تب کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کو بیک وقت اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ غلام اسحاق خان کی بعد یہ کرسی وسیم سجاد کے حصے میں آئی اورنگران وزارتِ عظمیٰ کے لیے قرعہ فال دوردیس بیٹھے معین قریشی کے نام نکلا۔ اِس سے پہلے نواز شریف قوم سے اپنے خطاب کے دوران غلام اسحاق خان کو قومی مجرم اور سازشی قرار دے چکے تھے۔ ان دونوں زعما نے باہمی اختلافات کو دور کرنے کے بجائے ایک ایسے شخص کو بطور نگران وزیراعظم قبول کرلیا جس کا نہ صرف اِس پورے معاملے بلکہ ملک سے بھی کوئی خاص لینا دینا نہیں تھا۔ روٹھے ہوئے اِن صاحبان نے معاملات آئینی طور پر سلجھانے کے بجائے طاقتوروں کے حل کو قبول کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ پھر 8 جولائی1993ء کو دونوں صاحبان نے اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ کون ہے جو اِس بات سے انکار کرسکے کہ یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایساباب ہے جس نے بہت کچھ عیاں کردیا تھا۔ اِس باب نے ثابت کیا کہ جب ہمارے سیاستدان پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں تو پھر غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کے بغیر معاملات سلجھانا سیاستدانوں کے بس میں نہیں رہتا۔ کیا اب بھی یہ محسوس نہیں ہورہا کہ متحارب سیاسی قوتوں کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ چکے ہیں؟کیا اِس بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر ایک مرتبہ پھر گہری دھند چھا چکی ہے جس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی تقرری سب کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل قرار پا چکی ہے۔
ہمارے ایک اور وزیراعظم شوکت عزیز بھی معین قریشی کی طرح دور دیس سے آئے تھے۔ 1999ء میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ہی جناب پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو ملک کے وزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دے دی تھی؛ یعنی ہمارے حکمرانوں کو پورے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا قابل وزیرخزانہ نہیں مل سکا تھاجو ملکی معیشت کو سنبھال سکتا۔ شوکت عزیز صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب وہ وزیرخزانہ کا انٹرویو دینے راولپنڈی پہنچے تووہاں ایک پورا پینل بیٹھا ہوا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد اِن کے خلاف بدعنوانی کے متعدد کیسوں کی تحقیقات کا ڈول بھی ڈالا گیا۔ سٹیل ملز سکینڈل، گوادر پورٹ سکینڈل، بینک سکینڈل اور سٹاک مارکیٹ کے باربار کریش کرجانے کا سکینڈل۔ اس کے علاوہ پی ٹی سی ایل سکینڈل اور چینی بحران سکینڈل میں بھی اُن کا نام سامنے آتا رہا۔ اِنہی سکینڈلز کے تناظر میں ایک موقع پر اُن کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی لیکن پرویز مشرف سے ایک ملاقات ہونے کی دیر تھی کہ سب کچھ 'سیٹ‘ ہو گیا۔ اب یہ معلوم پڑا ہے کہ اب تک توشہ خانے سے تحائف لینے والوں میں شوکت عزیز کانام سرفہرست ہے۔ جناب شوکت عزیز توشہ خانے سے 1126 انتہائی قیمتی تحائف خاموشی سے اپنے ساتھ لے گئے جن کی مالیت کروڑوں روپوں میں تھی۔ جس وقت شوکت عزیز دونوں ہاتھوں سے توشہ خانہ کو صاف کرنے میں مشغول تھے‘ عین اس وقت بینظیر بھٹوکوایک فرم سے نیکلس لینے پر سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں گھسیٹا جارہا تھا۔ ایک طرف یہ عالم تھا کہ مخالفین کے خلاف پرچے کاٹے جا رہے تھے اور دوسری طرف دونوں ہاتھوں سے توشہ خانہ کو لوٹنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ہماری پوری سیاسی تاریخ اِس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسی ایسی مثالیں کہ بعض اوقات تو عقل کے گھوڑے بھی جواب دے جاتے ہیں کہ یا الٰہی! ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ ویسے ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ کئی کیسز میں تو پسندیدہ تقرریاں بھی حکومتوں کونہیں بچا سکی تھیں۔ گھر کو گھر کے چراغ ہی سے آگ لگ گئی تھی۔ اِس کے باوجود بحث کا سلسلہ زوروشور سے جاری و ساری ہے۔ دور‘ دور کی کوڑیاں لائی جارہی ہیں اور خود کو انتہائی باخبر ظاہر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو جہاں ایسی اہم تقرریاں مہینوں تک زیرِ بحث رہتی ہوں۔ ایک آئینی و قانونی طریقہ کار ہے‘ اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے تقرری کردی جائے‘ اس میں اتنا طوفان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ صبح شام ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے۔ اِسی تناظر میں تحریک انصاف نے لانگ مارچ تک شروع کررکھا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اِس مارچ کا مقصد سب کو آئین و قانون کے تابع لانا ہے تو پھر واضح رہے کہ تحریک انصاف اِس معاملے پر پیچھے ہٹ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت سیاسی دھند اس قدر زیادہ ہے کہ سیاستدانوں کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچتے محسوس ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ اگر انتخابات کرا بھی دیے جائیں تو شاید سیاسی استحکام کی منزل نہیں آسکے گی۔ 26 نومبر کو جب تحریک انصاف کا لانگ مارچ راولپنڈی پہنچے گا تو معلوم نہیں تب تک حالات کس نہج تک چلے جائیں۔ لانگ مارچ کے اب تک کے حالات سے تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ بظاہر بھرپور سیاسی تحریک کے باوجود تحریک انصاف اپنے ٹارگٹس حاصل نہیں کرپائے گی لیکن کوشش پوری کی جائے گی کہ یہ صورت حال ہرممکن حد تک طوالت اختیار کرتی جائے‘ اُس وقت تک جب تک 'انتظار کی گھڑیاں‘ ختم نہ ہوجائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں