"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی تو خیر کی خبرآئے

کس قدر افسوسناک امر ہے کہ مغربی سرحدوں پر گولہ باری کا سلسلہ ایک معمول بن چکا ہے۔ ہمیں یہی باور کرایاگیا تھاکہ بس طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کی دیر ہے جس کے بعد کم از کم مغربی سرحدوں کی طرف سے راوی چین ہی چین لکھے گا۔ راوی نے چین تو کیا لکھنا تھا‘ اُلٹا مغربی سرحدوں نے مسلسل ہمارا امتحان لینا شروع کررکھا ہے۔ ہماری یہ توقع بھی پوری نہ ہوسکی کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ حالات و واقعات تو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جب سے کابل پرطالبان نے اپنا تسلط قائم کیا ہے‘ تب سے ہمارے یہاں دہشت گردی کے واقعات میں 37 فیصد اور بعض اعدادوشمار کے مطابق 51فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ اعدادوشمار ملک کے ایک تھنک ٹینک کے جاری کردہ ہیں۔ ایسے خدشات بھی سر اُٹھا رہے ہیں کہ اِس صورت حال کے باعث ملک کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ معلوم نہیں کن قومی اعمال کے نتیجے میں ہماری قسمت میں یہ بدامنی و افراتفری لکھی گئی۔ بے یقینی کی ایسی صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ اعلیٰ ترین سطح سے سامنے آنے والے بیانات پر بھی کوئی یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ مشرف دور میں کالعدم تحریک طالبان کے ظلم و ستم سہنے والے سوات کے عوام اِس صورت حال سے سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی پریشانی بے جا ہرگز نہیں کہ مشرف حکومت کے مولوی فضل اللہ سے ہوئے معاہدے کے نتیجے میں سوات کے عوام کو انتہائی سخت امتحان سے گزرنا پڑا تھا۔ یہ بھی عجب رہی کہ پہلے ایک معاہدے کے تحت مالاکنڈ ڈویژن کو طالبان کے مقامی گروہوں کے حوالے کیا گیا اور پھر اِنہیں نکالنے کے لیے آپریشن لانچ کردیا گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر ان اطلاعات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ سوات کے پہاڑوں پر مسلح افراد کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اِن کی واپسی اُن امن مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوئی جن کے بارے میں ہمارے وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر التجا کی تھی کہ ہمیں بھی مذاکرات کی بابت کچھ بتایا جائے۔ اب چاہے ریت میں سر گھسا کر حالات سے نظریں چرائے رکھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ صورتِ حال مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ دہائیوں پر محیط ہماری افغان پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
اِسی ہنگام کے دوران 16دسمبر ایک مرتبہ پھر آن کرگزر گیا۔ اِس موقع پر وہی روایتی تقاریر اور بیانات مسلسل سمع خراشی کا سبب بنتے رہے۔ یہی کہ ہماری کوتاہیوں سے ہماراایک حصہ ہم سے الگ ہو گیا‘ ہمیں اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے‘ ہمیں یہ کرنا چاہیے‘ وہ کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم نے اتنے بڑے سانحے سے کچھ سیکھا ہوتا تو کیا آج ہمارے ملک کی یہ حالت ہوتی؟ اگر ہم نے خود کو سدھار لیا ہوتا تو کیا اے پی ایس جیسا دلخراش سانحہ پیش آتا؟ سفاک دہشت گردوں نے 132معصوم بچوں سمیت 150کے قریب افراد کو شہید کردیا۔ اِس دلخراش واقعے کے بعد کیا کیا عہد نہیں کیے گئے؟ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا اور عزم ظاہر کیا گیا کہ آخری دہشت گرد کے ختم ہونے تک جنگ جاری رہے گی‘ شہیدوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ کئی مواقع پر یہ دعوے بھی کیے گئے کہ واقعہ کے فلاں فلاں ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس سب کے باوجود شہید بچوں کے والدین آج بھی سراپا احتجاج بنے کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ شہید بچوں کی ماؤں کے ساتھ لاہور کے ایک ہوٹل میں ہماری ملاقات ہوئی تھی جہاں اُنہیں ایک کانفرنس کے سلسلے میں بلایا گیا تھا۔ جب اِن سے گفتگو کا موقع ملا تو اِن کی باتیں سن کر سننے والوں کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ اندازہ کیجیے کہ ان کی اپنی حالت کیا ہو گی۔ کئی ایسی بہنوں سے بھی بات ہوئی جنہوں نے اپنے بھائی اِس سانحے میں کھو دیے تھے۔ اُن کی باتیں بھی خون کے آنسو رلا رہی تھیں۔ وہ اپنے بھائیوں کی یادیں تازہ کرتی جاتیں اور زاروقطار روتی جاتی تھیں۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنے بھائیوں کی تصاویر تھامے ہوئے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے مسلسل آنسو پونچھتی جاتی تھیں جو رکنے میں نہیں آرہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ بھی ہماری قوم کی آنکھیں نہیں کھول سکا۔ کہاں ہے وہ نیشنل ایکشن پلان جس کے مطابق ہمیں تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لانی تھیں‘ جس کے مطابق ہمیں صرف دوسالوں کے دوران اپنے نظامِ انصاف کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا تھا۔ ہر سانحے کے بعد وہی روایتی بیانات، وہی وعدے اور وہی باتیں ۔
آج کی ملکی صورتِ حال کا تفصیل سے جائزہ لے لیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اُسے حکومت میں لے آؤ، اُس سے حکومت چھین لو۔ بس یہی کچھ چل رہا ہے۔ اِس کھینچا تانی نے ملک کی معاشی حالت اُس سطح پر پہنچا دی ہے کہ ہمارے ڈیفالٹ کرجانے کے خطرات اب یقین میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں مگر حکومت کی معاشی ٹیم نے وزیراعظم کو ایک بریفنگ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات نہیں ہیں لیکن معاملات بہرحال اتنے سادہ بھی نہیں ہیں۔ تمام اشاریے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ سات ارب ڈالر سے بھی کم زرِمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ ہم اپنی معاشی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مسلم دنیا کا طاقتور ترین ملک‘ واحد مسلم ایٹمی طاقت اپنی معاشی بقا کے لیے دنیا بھر کی منتیں کررہی ہے اور کوئی ہماری بات نہیں سن رہا۔ ہماری بات اِس لیے نہیں سنی جارہی کہ ہم اپنا یقین کھو چکے ہیں۔ ہم یہ خیال کرتے رہے کہ ہم بہت ہوشیار ہیں‘ کیسے چابک دستی سے دوسروں کو اندھیرے میں رکھ کر اپنا مفاد حاصل کرلیتے ہیں۔ نہیں‘ ایسانہیں تھا! یہ حرکتیں مسلسل دوسروں کے اعتماد کو کمزور کررہی تھیں۔ تبھی تو آج یہ عالم ہوگیا ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ہم پر یقین کرنے کو تیارنہیں۔
آج بھی ہم محض اِس بات پر خوش ہیں کہ ہمارے وزیرخارجہ کے ایک بیان نے بھارت میں آگ لگا دی ہے۔ لیکن اگر حقیقت پسند ہو کر عملی سطح پر دیکھا جائے تو ہمارے بیانات سے بھارت کو کوئی نقصان نہیں ہورہا لیکن اُس کے اقدامات سے ہم کافی زک اُٹھا رہے ہیں۔ ہمیں پہلے افغان حکومتوں سے یہ گلہ رہتا تھا کہ اُن کے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ بھارت کی شہ پر ہمیں تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ اب تو افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے‘ جن کی وجہ سے پوری دنیا کی مخالفت مول لی گئی‘ اب مغربی سرحدوں پر ویسی ہی صورت حال کیوں ہے؟ممکن ہے کہ موجودہ افغان حکومت کے بھارت کے ساتھ ویسے تعلقات نہ ہوں جیسے ماضی کی حکومتوں کے ہوا کرتے تھے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بڑی دراڑ نہ پڑی ہو۔ ایسی صورت میں وہ وقت زیادہ دور نہیں رہے گا جب یہ تعلقات پہلے کی نہج پر پہنچ جائیں گے۔ اور وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب ہمارے تعلقات بھی اُسی نہج پر پہنچ جائیں گے جس نہج پر حامد کرزئی اور اشرف غنی کے حکومتوں کے ادوار میں تھے۔ پاک افغان تعلقات کے تفہیم کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ گزشتہ دنوں جب وزیرمملکت برائے اُمور خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ کابل گئی تھیں توافغانستان کے وزیردفاع ملا یعقوب(جو ملا عمر کے سب سے بڑے بیٹے اور طالبان حکومت کے دوسرے طاقتور فرد سمجھے جاتے ہیں)نے اُن سے ملاقات کرنے سے صاف انکارکردیا تھا۔ طالبان کی آمد پر سابق وزیراعظم کی جانب سے ایسے بیانات بھی سامنے آتے رہے تھے کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ یہ غلامی کی زنجیریں کیا ٹوٹی ہیں‘ ہمارے لیے نئی مصیبت پیدا ہوگئی ہے۔ اِسی ہنگامہ آرائی میں سیاسی صورت حال بھی کسی طور بہتر ہونے میں نہیں آرہی۔ کبوتر ایک طرف سے دوسری طرف اُڑان بھر رہے ہیں لیکن کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہورہے۔سیاست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا اور نہ ہی اِس کی کوئی توقع دکھائی دے رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں