"FBC" (space) message & send to 7575

ایسی مثالیں بھی موجود ہیں

تقسیمِ ہند کے بعد جواہرلال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے اور کافی طویل عرصے تک اِس عہدے پر فائز رہے۔ 15اگست 1947ء کو وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے والے نہرو 27 مئی 1964ء تک اِس عہدے پر فائز رہے۔ آج اگر بھارت میں مضبوط جمہوری روایات موجود ہیں تو اِس کا بہت بڑا کریڈٹ جواہر لال نہرو کو جاتا ہے۔ نہرو نے سول بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد ایسے اقدامات کیے‘ آج بھی جن کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ کریڈٹ بھی نہرو ہی کے کھاتے میں جاتا ہے کہ بھارت میں آج تک جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی۔ 1964ء میں نہرو کے اچانک انتقال کے بعد گلزاری لال نند ا بھارت کے پہلے نگران وزیراعظم مقرر ہوئے۔ نگران وزیراعظم کی ضرورت پڑی تو اِس کے لیے کوئی نظر باہر کی طرف نہیں اُٹھی کہ کسی معین قریشی کو دوسرے ملک سے لاکر نگران وزیراعظم بنا دیا جائے۔ نگران وزیراعظم بننے سے پہلے گلزاری لال نندا بھارت کے یونین منسٹر، وزیرخارجہ اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِتنے اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد بھی اُن کے پاس کوئی جائیداد تھی نہ بینک بیلنس۔ اقتصادیات کے اُستاد‘ گلزاری لال کا ہمیشہ یہی نظریہ رہا کہ زندگی انتہائی سادگی سے گزارنی چاہیے۔ 1898ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے اور ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے والے گلزاری لال نندا تمام عمر اپنے شاگردوں کو سادہ زندگی گزارنے کے طریقے بتاتے رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے باوجود اُنہوں نے سادگی کا اپنا طرزِ زندگی برقرار رکھا۔ اُن کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کا دور محض بارہ‘ تیرہ دنوں پر محیط رہا۔ دوسری مرتبہ اُنہیں تب وزیراعظم بنایا گیا جب بھارت کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری کا تاشقند میں اچانک انتقال ہوگیا۔ شاستری پاک بھارت جنگ کے بعد‘ امن معاہدے کے لیے تاشقند میں موجود تھے اور وہیں وہ پُراسرار موت کا شکار ہو گئے۔ دوسری بار پھر گلزاری لال نندا کو نگران وزیراعظم بنایا گیا اور اس بار بھی وہ محض دو ہفتوں کے لیے اس عہدے پر فائز رہے۔ مجموعی طور پر ان کی وزارتِ عظمیٰ صرف 26دنوں پر محیط رہی جس دوران اُن کے بینک بیلنس میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کی جائیداد وہی رہی جو وزیراعظم بننے سے پہلے ان کے پاس تھی۔ اِس شخص نے جو کچھ دوسروں کو پڑھایا‘ اُس پر خود بھی پوری طرح عمل کیا۔ تمام عمر کرائے کے مکانات میں بسر کردی لیکن اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔
ایک بار گلزاری لال کے ساتھ بڑا عجیب واقعہ پیش آیا۔ اس وقت گلزاری لال کی عمر تقریباً 94سال ہوچکی تھی جب مکان کا کرایہ ادا نہ کرنے پر اُن کے مالک مکان نے ان کا سامان اُٹھا کر باہر پھینک دیا اور انہیں گھر سے بے دخل کر دیا۔ تام جھام سے دوری کا یہ عالم تھا کہ گلزاری لال کا مالک مکان بھی نہیں جانتا تھا کہ جو شخص کئی سالوں سے اس کا کرایہ دار ہے‘ وہ دومرتبہ بھارت کا وزیراعظم رہ چکا ہے۔ ہمسایوں نے مالک مکان کی منت سماجت کرکے دوبارہ سے ان کا سامان گھر کے اندر رکھوایا اور گلزاری لال کو کرائے کی ادائیگی کے لیے کچھ روز کی مہلت لے کر دی۔ اِسی دوران وہاں سے گزرنے والے ایک رپورٹر نے تمام معاملے کے تصاویر بنالیں اور ان تصاویر کو لے جاکر اپنے ایڈیٹر کو دکھایا کہ آج میں نے فلاں جگہ پر دیکھا کہ ایک بوڑھے شخص کو مکان سے بے دخل کیا جا رہا تھا۔ ایڈیٹر نے جب وہ تصاویر دیکھیں تو چونک اُٹھا۔ اس نے فوراً رپورٹر سے سوال کیا: کیا تم اِس شخص کو جانتے ہو؟جواب نفی میں تھا، جس پر اُس نے رپورٹر کو بتایا کہ یہ شخص دومرتبہ بھارت کا وزیراعظم رہ چکا ہے۔ اگلے روز اخبار کے صفحۂ اول پر یہ خبر تصاویر کے ساتھ کچھ یوں چھپی ''بھارت کے سابق وزیراعظم کی دکھی زندگی‘‘۔ اس خبر کا چھپنا تھا کہ ہرطرف بھونچال آ گیا۔ اس سے قبل ایک بار حکومت کی جانب سے گلزاری لال ننداکو پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ دیے جانے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اُنہوں نے یہ کہہ کر پیشکش ٹھکرا دی کہ اُنہوں نے آزادی کی جنگ بھتے کے لیے نہیں لڑی تھی۔ ان کی آمدن کا کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا‘ عمر بھی کافی ہو چکی تھی‘ اس لیے کچھ دوست احباب نے ان پر دبائو ڈالا جس کے بعد اُنہوں نے یہ پیشکش قبول کرلی مگر وقت کے ساتھ یہ رقم کم پڑتی گئی اور پھر وہ وقت آگیا جب مالک مکان نے انہیں گھر سے نکال باہرکیا۔ اخبار میں خبر چھپنے کی دیر تھی کہ گاڑیوں کے قافلے گلزاری لال نندا کی رہائش گاہ پر پہنچنے لگے۔ تب مالک مکان کو معلوم پڑا کہ جس بوڑھے شخص کو وہ کرایہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے گھر سے نکال رہا تھا‘ وہ تو دومرتبہ بھارت کا وزیراعظم رہ چکاہے۔ اُس نے فوراً اپنے طرزِعمل پر معافی مانگی اور کہا کہ وہ آئندہ کبھی کرائے کا تقاضا نہیں کرے گا مگر گلزاری لال نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کردیااور تمام عمر کسی نہ کسی طرح مکان کا کرایہ ادا کرتے رہے۔ اُنہوں نے بھارتی حکومت کی مدد کی پیشکش ایک بار پھر سختی سے مسترد کردی۔ 1997ء میں انہیں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سادہ طرزِ زندگی اور ایمانداری کی شاندار مثالیں قائم کرنے والا یہ شخص 1998ء میں اس عالم میں انتقال کرگیا کہ دنیا بھر میں اس کے نام پر ایک بھی جائیداد نہ تھی۔
ہے نا حیرت کی بات! اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور پھر گلزاری لال نندا کو دیکھیں۔ یہی کہا جائے گا کہ یہ شخص کس قدر ''بیوقوف‘‘ تھا۔ اگرچہ اِس شخص کی وزارتِ عظمیٰ صرف 26دنوں پر محیط تھی لیکن یہاں تو لوگ گھنٹوں میں کارروائی ڈال کر نہ صرف اپنا بلکہ اپنی آنے والی نسلوں تک کامستقبل محفوظ بنا لیتے ہیں اور یہ شخص چھبیس دنوں میں بھی کچھ نہ کرسکا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی یہ شخص دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکا تھا۔ جب گلزاری لال نندا اس دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کے پاس سوائے عزت کے کچھ نہ تھا۔ آج بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں اِس شخص کی ایمانداری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ہمیں اِس شخص کی یاد اپنے سیاسی حالات کو دیکھ کر آگئی۔ یہ بات حلق سے نیچے اُترتی ہی نہیں کہ یہ شخص جس بات کی تلقین دوسروں کو کرتا رہا‘ خود بھی تمام عمر اُسی پر عمل پیرا رہا۔ یہی فرق ہوتا ہے جس کے سبب انسان کی عزت‘ عظمت اور اس کے کردار کی تعمیر ہوتی ہے کہ اُس کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ وہ جو کہتا ہو‘ وہی کرتا بھی ہو، ورنہ دوسرے انسان ایسے شخص کی باتوں پریقین نہیں کرتے۔ ہم لاکھ یہ دعویٰ کرتے رہیں کہ ہم بہت ایماندار ہیں لیکن جب تک ہمارا عمل اِس بات کو ثابت نہیں کرے گا، تب تک بات بنے گی نہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ حقائق کچھ اور بیان کررہے ہوں اور ہماری زبان کوئی اور راگ الاپ رہی ہو۔ آج کے دور میں کچھ چھپانا بھلا کہاں ممکن رہ گیا ہے۔ سب لوگ سب کچھ جانتے ہیں کہ کون کیاکررہا ہے۔ آج تو یہ عالم ہے کہ سڑک کنارے کسی پھل والے سے اگر سیاست پر بات شروع ہوجائے تو وہ بھی سب کا کچاچٹھا کھول کر رکھ دیتا ہے۔ جو تمام عمر ایمانداری سے کام کرتا رہے‘ اُس کا نام لوگ ہمیشہ عزت سے لیتے ہیں حالانکہ اُس نے شاید ہی کبھی اپنی ایمانداری کا دعویٰ کیا ہو۔ ایسے شخص کو اپنی ایمانداری ثابت کرنے کیلئے بیانات کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اُس کا عمل اُس کا سب سے بڑا گواہ ہوتا ہے۔
کرپشن بھارت میں بھی کم نہیں مگر گلزاری لال نندا جیسے لوگوں کا تذکرہ یقینا گاہے گاہے کیا جانا چاہیے جنہوں نے اچھی مثالیں قائم کی ہیں۔ اب ملکی حالات کا جائزہ لیں۔ پچھلے چند ماہ میں کتنے لوگوں کے کیسز ختم ہوئے ہیں‘ کتنوں کے قرضے معاف کیے گئے ہیں۔ احتساب کے قوانین میں ایسی تبدیلیاں کردی گئی ہیں کہ سب پاک صاف ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ کرکے بھی اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہم ملک میں کرپشن کے کلچر کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں تو اِس پر کون یقین کرے گا۔ اگر ہم واقعتاً اپنے ملک سے مخلص ہیں تو ہمیں بھی سیاست میں گلزاری لال نندا جیسا طرزِ عمل اپنانا ہوگا۔ یقینا ہمارا معاشرہ ایسی روشن مثالوں سے تہی دست نہیں ہے ۔ یہ الگ بات کہ موجودہ حالات اور نفسانفسی کے عالم میں ایسا ہونے کے کچھ آثار نظر نہیں آ رہے مگر ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں