"FBC" (space) message & send to 7575

لاہور کے باغات کہاں کھو گئے؟

صرف نام کی حد تک باغوں کا شہر رہ جانے والے لاہور کی داستانیں تو ہم بہت سناتے ہیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ لاہور صرف ایک شہر نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے اور یہ کہ یہ دنیا میں اپنی طرز کا بس ایک ہی شہر ہے۔ لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ایسی باتوں میں اب مبالغہ آرائی کا عنصر زیادہ نہیں دکھائی دیتا؟ شہرمیں جس طرف بھی نکل جائیں‘ ایک ہڑبونگ سی مچی نظر آتی ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں ٹوٹی پھوٹی شاہراہیں منہ چڑاتی نظرآتی ہیں۔ کہاں وہ لاہور جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کثرت سے زرعی زمینیں ملتی تھیں اور کاشتکار تازہ سبزیاں اور فصلیں اُگاتے تھے۔ اِن زرعی زمینوں کی وجہ سے اہلِ لاہور کو ہرروز تازہ بہ تازہ سبزیاں دستیاب ہوتی تھی۔ یہ جو لاہور کی مشہور کینال روڈ ہے‘ جو اب پانچ رویہ بنائی جاچکی ہے اور جہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک فراٹے بھرتی رہتی ہے‘ آج سے چالیس‘ پینتالیس برس پہلے یہ شاہراہ مغلپورہ سے چند کلومیٹر آگے فتح گڑھ کے قریب اختتام پذیر ہوجاتی تھی۔ تب یہ صرف ایک رویہ ڈبل سڑک ہوا کرتی تھی جبکہ سڑک کے دونوں اطراف میں کاشت کاری ہوا کرتی تھی۔ فتح گڑھ سے آگے بھٹوں کے مالکان نے اپنی مدد آپ کے تحت کچی پکی سڑک بنائی ہوئی تھی تاکہ اُن کے بھٹوں تک ٹرانسپورٹ کو رسائی میسر آسکے۔ شام یا رات تو دور کی بات‘ دن کے وقت بھی فتح گڑھ جاتے ہوئے قدرے خوف محسوس ہوا کرتا تھا۔ فتح گڑھ سے آگے ہربنس پورہ پل‘ جہاں سے اب رنگ روڈ شروع ہوتی ہے‘ وہاں نہر پر ایک کچا سا پل ہوتا تھا جہاں سال کے بیشتر دنوں میں پنجابی فلموں کی شوٹنگ جاری رہتی تھی۔ نئی نسل کے لیے یہ حیران کن باتیں ہوں گی مگر یہ ہم پچھلی صدی کی باتیں نہیں بتا رہے بلکہ آج سے پینتیس‘ چالیس سال قبل کے لاہور کا احوال سنا رہے ہیں۔ اُن دنوں اِس علاقے کے لوگوں کو آمدورفت کی سہولت مہیا کرنے کے لیے ریلویز کی طرف سے چند بوگیوں پر مشتمل ٹرین بھی چلا کرتی تھی جو لاہورریلوے سٹیشن سے واہگہ تک چلتی تھی۔ اس کچے پل کی جگہ اب ایک شاندار انڈرپاس بن چکا ہے اور یک رویہ کینال روڈ اب پانچ رویہ ڈبل سڑک میں تبدیل ہوچکی ہے جبکہ ٹرین کا سفر بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اِسی طرح شہر کے دیگر علاقوں میں بھی اب ہرطرف ''ترقی ہی ترقی‘‘ نظر آتی ہے۔
ہم ''ترقی‘‘ کے اعتبار سے دن دُگنی رات چوگنی منازل طے کررہے ہیں‘ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ترقی کے نام پر کس طرح شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب نیا ستم شہر کے ترقیاتی ادارے کے ''ماسٹر پلان 2050ء‘‘ کے نام سے ڈھایا گیا ہے۔ اِس پلان کے تحت لاہور کے 87 ہزار ایکڑ گرین لینڈ کو رہائشی اور کمرشل بنانے کی تیاری ہے۔ ابتدا میں کاہنہ کاچھا اور اِس سے ملحقہ علاقوں میں 32 ہزار ایکڑ گرین لینڈ کو رہائشی اور کمرشل لینڈ میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ گویا اگر ابھی تک لاہور میں خال خال کوئی زرعی اراضی دیکھنے کو مل رہی تھی تو اب اُس کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ اِس صورتحال پر لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ شہر کا ماسٹر پلان منظور کرکے شہر کی رہی سہی زرعی زمینوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ ہائیکورٹ کی طرف سے قرار دیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں شہروں کو پھیلانے کے بجائے اپارٹمنٹ بلڈنگز بنائی جارہی ہیں۔ یہ ہمارے انہی رویوں کا شاخسانہ ہے جن کی بنا پر شہر میں سموگ کی صورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ حقیقتاً کسی کو کوئی پروا نہیں کہ آخر اِس شہر کے ساتھ ہم کرنا کیا چاہتے ہیں۔ شہر میں کہیں بھی کوئی خالی جگہ دکھائی دیتی ہے تو اُسے رہائشی منصوبہ بنا کر فروخت کردینے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اِس چکر میں باغات کا شہر کہلانے والے لاہور کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔ حد تویہ ہوئی کہ سرحدی علاقے‘ واہگہ زون میں بھی تیزی سے رہائشی سکیمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ لاہور کے نو زونز میں سے واحد زون ہے جہاں زیرِزمین پانی کی سطح شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت قدرے بلند ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ یہ علاقہ بھارتی سرحد سے ملحق ہے۔ جس طرح بھارت کی طرف سے دریاؤں میں پانی آتا ہے‘ اِسی طرح پانی کا ایک زیرِزمین نظام بھی کام کرتا ہے جس کے باعث واہگہ زون میں پانی کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ اگر آج شہر والوں کو کچھ تازہ سبزیاں وغیرہ مل جاتی ہیں تو اُن کی بھاری مقدار اِنہی علاقوں سے منڈیوں میں پہنچتی ہے۔ جب یہاں بھی زرعی زمین کا خاتمہ ہو جائے گا تو لامحالہ اِس کا ایک نتیجہ پانی کی کمی کی صورت میں نکلے گا۔ اِسی طرح فصلوں کے لیے دستیاب زمینیں مزید کم ہوجائیں گی۔
ریور راوی فرنٹ منصوبے پر بھی کام جاری ہے جس کے تحت اب لاہور کے نواحی علاقوں میں بھی تعمیرات ہوں گی۔ یہ منصوبہ اپنی تکمیل تک لاہور اور شیخوپورہ کے مضافات کی ایک لاکھ سات ہزار ایکڑ زرعی اراضی نگل چکا ہوگا۔ مطلب آج اگر لاہور کے گردونواح میں تھوڑا بہت سبزہ دکھائی دے رہا ہے تو جلد ہی ہم اُس سے بھی محروم ہونے والے ہیں۔ اب اِسے کیا نام دیا جائے کہ جس حکومت نے زرعی اراضی کو بچانے کے لیے اقدامات کرنا تھے‘ وہ خود ہی زرعی زمینوں کے خاتمے میں پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔ ایسے الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کسانوں سے اراضی زبردستی حاصل کی جا رہی ہے۔ اگرچہ متعلقہ حکام ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن جب سرکاراراضی ایکوائر کرتی ہے تو ایسی صورت حال کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ ہمیں خود کئی متاثرہ کسانوں سے ملاقات کا موقع ملا جنہوں نے سرکار کی طرف سے روا رکھی جانے والی دھونس کی متعدد داستانیں سنائیں۔ اُن کی طرف سے الزامات عائد کیے گئے کہ کسانوں کی تیار فصلوں کو ہل چلا کر برباد کیا گیا۔ جب اِس کے خلاف احتجاج کیا گیا تو اُن پر مقدمات درج کرادیے گئے۔ ایسے دیگر واقعات بھی سامنے آئے لیکن سرکار کے سامنے بھلا کس کی چلتی ہے۔ جب سرکار کچھ کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو پھر کون اُس کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
صرف لاہور کی حد تک ہی کیا موقوف‘ اب تو ملک بھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے کہ ایک طرف زرعی زمینوں کا رقبہ کم ہورہا ہے تو دوسری طرف آبادی میں تیز رفتار اضافے کا عمل جاری ہے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اگلی دو دہائیوں میں ہمارے لیے خوراک کی شدید کمی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی جس کی آہٹ ابھی سے سنائی دینے لگی ہے۔ مختصراً اتنا جان لیجئے کہ خوراک کی کمی کا مسئلہ اب ہرگزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتا چلا جائے گا۔ آج یہ صورتحال ہے کہ اگر گندم کی بمپر فصل ہو تب بھی بمشکل ہم اپنی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرپاتے ہیں۔ آگے چل کر جب زرعی زمینیں مزید کم ہوچکی ہوں گی‘ تب اتنی زیادہ مقدار میں گندم کہاں سے لائیں گے کہ اپنی آبادی کو خوراک مہیا کرسکیں؟ اِس صورت حال کے باعث پانی کی شدید کمی کا مسئلہ الگ سے ستم ڈھا رہا ہوگا۔ جان رکھئے کہ ہم ابھی سے پانی کی کمی کا شکار ہوچکے ہیں اِسی لیے پانی کے مسئلے پر صوبوں کے درمیان اکثر نوک جھوک بھی چلتی رہتی ہے۔ ایک دوسرے پر پانی چوری کرنے کے الزامات تک لگائے جاتے ہیں لیکن اِس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اب ماہرین کی طرف سے یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ زمینیں فروخت کرکے خریدی جانے والی مہنگی گاڑیاں ہمارا پیٹ نہیں بھر پائیں گی۔ جب اِس صورت حال کے بھیانک نتائج پوری طرح سے سراُٹھا لیں گے تب ہم دنیا کو مدد کے لیے پکارنا شروع کردیں گے۔ اپنی حالت کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے کہ وہ ہمیں تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آج کوئی بھی ہماری بات نہیں سن رہا‘ آج سے بیس یا تیس سال بعد کون ان باتوں پر کان دھرے گااور تب اگر اس جانب متوجہ ہوئے بھی تو کیا‘ پانی تو پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہو گا۔ اب تو صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ کوئی ایسا کرشمہ ہوجائے کہ ہم حقیقت کا ادراک کرنے لگیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں